عبدالصمد تاجی
عاشقِ رسولؐ، بے باک صحافی، شعلۂ جوالہ خطیب، صاحبِ طرز ادیب، شعلہ نوا شاعر، بطلِ جلیل میرے دادا استاد آغا شورش کاشمیریؒ جو 14 اگست 1917ء کو پیدا ہوئے اور آج 2017ء میں جب ہم صد سالہ جشنِ ولادت کی تقاریب کا اہتمام کررہے ہیں تو ملکی سیاست میں ایک بار پھر ’’ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے قانون میں ترمیم کی مذموم کوشش کی گئی اور مجھے ’’بوئے گل نالۂ دل دود چراغِ محفل‘‘ میں درج شورش کاشمیری صاحب کی تحریر یاد آگئی، جس میں آپ نے قادیانیوں کے اُس وقت کے پیشوا کے چہرے سے نقاب اٹھایا: ’’میرزا بشیر الدین محمود نے اپنے زمانے میں سیاسیات میں وہی حیثیت اختیار کرنی چاہی جو ہندوستان کی اسلامی پالیٹکس میں آغا خان کی رہی۔ لیکن مسلمانوں کے ہمہ گیر تعاقب نے اس کو پنپنے نہ دیا۔ آغا خان بہرحال مسلمان تھے، انہوں نے اپنی جماعت کو مسلمانوں سے الگ نہ کیا اور نہ الگ کرنا چاہا۔ میرزا بشیر الدین محمود مسلمانوں میں سیاسی طور پر رہنا چاہتے تھے، لیکن مذہباً ان سے الگ ہوگئے تھے، انہوں نے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور اس طرح اپنے پیروئوں میں مسلمانوں سے غداری کی بنیاد رکھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میرزا بشیر الدین محمود اسلام میں کرنل لارنس اور معاشرے میں راسپوٹین کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘
تادمِ تحریر یہ مذموم کوشش ناکام ہوئی اور حکومت نے ترمیم واپس لے لی، لیکن اس کوشش کے پیچھے کون سرگرم تھا اس کا سامنے لانا بہت ضروری ہے۔
قائداعظم رائٹرز گلڈ کے بانی اور موجودہ صدر معروف صحافی جلیس سلاسل جو کہ شورش کاشمیریؒ کے شاگردِ رشید ہیں، نے صد سالہ جشن ولادت کے سلسلے میں پہلی تقریب کا انعقاد جمعیت الفلاح صدر کراچی میں نہایت باوقار طور سے کیا، جس کی صدارت فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس حاذق الخیری نے فرمائی۔ آپ نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ’’آغا شورش کاشمیری بے باک صحافی، نامور خطیب اور کئی یادگار کتابوں کے مصنف تھے۔ آغا صاحب قیام پاکستان سے قبل ’’مجلسِ احرار،، سے وابستہ تھے، مولانا ابوالکلام آزاد نے ان سے کہا کہ پاکستان کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے اور برصغیر کے مسلمان زیادہ تر مسلم لیگ میں شامل ہورہے ہیں، اب بہتر یہی ہے کہ مجلس احرار کو مسلم لیگ میں ضم کرادو، قیام پاکستان کی مخالفت ترک کردو۔ تو اس طرح مجلس احرار مسلم لیگ کی ہمنوا ہوگئی اور احرار قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان کے حمایتی ہوگئے۔ پھر شورش صاحب اور ان کے ساتھیوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ میں اپنے والد اور فیملی کے ساتھ 1952ء میں لاہور گیا تو ان کے ہوٹل میں ٹھیرا، اور اس طرح میری پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد وہ جب بھی کراچی آتے اُن سے ضرور ملاقات ہوتی۔‘‘
جلیس سلاسل نے جو اُن کا آخری انٹرویو کیا ہے وہ بہت اہم ہے، اور آج انہوں نے جو تاریخی انکشافات کیے ہیں ان کو نئی نسل تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اور اس حقیقت کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ منافق نہیں تھے۔ مجھ کو اور میرے والد کو ان کے سیاسی نقطۂ نظر سے عموماً اختلاف رہا ہے یہ دوسری بات ہے، وہ ہمیشہ جرأت مند صحافی کے طور پر زندہ رہیں گے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی معروف صحافی محمود شام نے اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مجھے طالب علمی کے دور میں بڑے لوگوں سے آٹو گراف لینے کا شوق تھا، اس لیے آغا صاحب کے پریس پہنچ گیا، انہوں نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی۔ میں اُن دنوں ’’نوائے وقت‘‘ میں جز وقتی ملازمت بھی کرتا تھا۔ اس تعلق سے قائم ہونے والا یہ رشتہ روز بروز مستحکم ہوتا گیا۔ میری اپنے تمام صحافتی ادوار میں اُن سے ملاقاتیں رہیں اور انہوں نے نظریاتی اختلاف کے باوجود میری صلاحیتوں، میرے انداز تحریر کی تعریف کی۔ میری ان سے خط کتابت بھی رہی۔‘‘ شام صاحب نے 1969ء کا ایک خط بھی حاضرین کو دکھایا جو انہوں نے ابھی تک حفاظت سے رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے شورش صاحب کے شاگرد جلیس سلاسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیسویں صدی کی وہ گم شدہ کرن ہیں جو اکیسویں صدی میں کبھی کبھی شعلہ بن کر بھڑکتی ہے، یہ اب اپنی کتابیں تصنیف کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آغا شورش کاشمیری ایک جرأت مند صحافی تھے اور خطابت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد چار ایڈیٹر تھے (1) آغا شورش کاشمیری (چٹان)،(2) حمید نظامی (نوائے وقت)،(3) میر خیل الرحمن (جنگ)،(4) الطاف حسین (ڈان)۔ اور ان لوگوں کے نام آج بھی زندہ ہیں۔
جمعیت الفلاح کے صدر اور سابق رکن قومی اسمبلی مظفر ہاشمی نے کہا کہ ’’آغا صاحب کی زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزرا، وہ تقریباً 10 سال تو انگریزوں کے دور میں جیل میں رہے، پھر پاکستان میں صدر ایوب اور وزیراعظم بھٹو کے دور میں کئی سال قید رہے۔ آغا صاحب جب کراچی میں قید تھے اور ان کی ہائی کورٹ میں پیشی تھی تو ان کو دیکھنے کے لیے سینکڑوں لوگ ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود تھے، اتفاقاً میں بھی وہاں موجود تھا جو اس منظر کا چشم دید گواہ ہوں۔‘‘
گلڈ کے صدر اور آغا صاحب کے شاگردِ رشید جلیس سلاسل نے آغا صاحب سے متعلق دو اہم واقعات سنائے۔ پہلا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ نوائے وقت کے ایڈیٹر حمید نظامی صاحب نے شورش کاشمیری صاحب سے کہا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کے وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین پنجاب کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور آزادیٔ صحافت پر پابندی کا قانون نافذ کرنے کے لیے ایڈیٹر بھرتی کرنے کراچی جارہے ہیں، کیونکہ کراچی میں اپریل 1950ء میں ایڈیٹروں کی تنظیم کا سالانہ اجلاس ہے، اس سے قبل وزیر اطلاعات ایڈیٹروں سے آزادیٔ صحافت پر پابندی کے لیے سیفٹی ایکٹ کے نفاذ کے لیے منظوری لیں گے، آپ بھی چلیں، ہم اس کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ آغا صاحب بھی کراچی آگئے جہاں حمید نظامی کی خواہش پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناکر ایڈیٹروں سے مزار قائداعظم پر حلف لیا گیا کہ وہ آزادیٔ صحافت کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں کریں گے۔ آغا شورش نے حلف اٹھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم مزاروں پر حلف نہیں اٹھاتے لیکن اپنے وعدے کے پابند رہیں گے۔ وزیر اطلاعات سے جب ایڈیٹروں کی میٹنگ ہوئی تو زیادہ تر ایڈیٹر بک گئے، ان میں حلف اٹھانے والے بھی شامل تھے۔ صرف حمید نظامی اور شورش کاشمیری نے اپنے حلف اور وعدے کی پاسداری کی۔ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر (مولانا اختر علی خان) بھی حلف اٹھانے کے باوجود بک گئے۔ حمید نظامی، شورش کاشمیری، فیض احمد فیضؔ اور عطا اللہ ہاشمی کو نہ خریدا جاسکا۔ حمید نظامی اور فیض احمد فیضؔ نے اس سیفٹی ایکٹ کی مخالفت میں زبردست تقاریر کیں، جس کا مقصد آزادیٔ صحافت پر پابندی لگانا تھا۔ دوسرے دن ایڈیٹروں کے سالانہ اجلاس میں انتخابات ہوئے اور پیر علی محمد راشدی (صدر) اور اختر علی خان (جنرل سیکریٹری) منتخب ہوگئے۔ ان ایڈیٹروں کی اکثریت بقول شورش صاحب رکشہ ڈرائیوروں اور پان فروشوں کی تھی جو نام نہاد ایڈیٹر تھے۔ یہ ایڈیٹر نہ ہوتے تو جیب کترے ہوتے۔
انہوں نے دوسرا واقعہ سنانے سے قبل جو تاریخی پس منظر بیان کیا وہ یہ ہے کہ ’’وزیراعظم بھٹو کے دور میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ جو اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہتھے چھٹیوں پر اپنے گھر واپس جارہے تھے، جب ٹرین ربوہ اسٹیشن پر رکی تو مسلح قادیانیوں نے ان پر ڈنڈوں، لاٹھیوں سے حملہ کردیا، یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی، آغا شورش نے اس کی تفصیلی رپورٹ ’’چٹان‘‘ میں شائع کی اور فوری طور پر علماء کرام کا اجلاس بلالیا جس میں تمام مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی اور تحفظِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے تنظیم قائم کی، اس کے بعد شورش صاحب چند ساتھیوں کے ساتھ وزیراعظم بھٹو سے ملے اور قادیانیوں کا کچا چٹھا کھولا اور شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر وزیراعظم بھٹو کے پیر پکڑ لیے۔ بھٹو صاحب نے فوراً ان کو پکڑ کر کھڑا کیا تو شورش صاحب نے اپنا دامن وزیراعظم کے سامنے پھیلا کر کہا ’’یہ فاطمہؓ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی ہے، اس میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھیک ڈال دیجیے، قادیانی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، حرمت پر حملہ آور ہیں، ان کو غیر مسلم اقلیت آئینی طور پر قرار دے کر رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سرخرو ہوجایئے، اس کے بدلے میں میری تمام نیکیاں لے لیجیے‘‘۔ وزیراعظم بھٹو نے جواباً کہا کہ میں اُسی وقت کچھ کرسکتا ہوں جب علماء کرام عوام الناس کو ان کی اصلیت سے آگاہ کریں۔ آپ عوام کو زیادہ سے زیادہ قادیانیوں سے متعلق لٹریچر فراہم کریں۔ پھر وزیراعظم بھٹو نے علامہ تاج محمود سے جو اُس وقت بھٹو صاحب سے ملنے والے وفد میں شورش صاحب کے ساتھ تھے، کہا کہ ’’میں نے قادیانیوں کو اُس وقت غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا جب شورش نے ان قادیانیوں کی اصلیت بیان کی تھی، میں نے محسوس کیا کہ قادیانی مجھ کو اور میرے اجداد کو بھی کافر سمجھتے ہیں، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ شورش نے مجھ پر جادو کردیا تھا اور یہ صرف شورش ہی کرسکتا ہے۔‘‘ اس پس منظر کے بعد جلیس صاحب نے جو کہا وہ تاریخی انکشاف کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب جو واقعہ میں بیان کررہا ہوں اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اور یہ واقعہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناکر حلفیہ بیان کررہا ہوں۔ یہ 7 ستمبر 1974ء سے قبل کا واقعہ ہے۔ شورش صاحب کراچی آئے تو رکن قومی اسمبلی مولانا ظفر احمد انصاری ان سے ملنے ہوٹل جبیس (صدر) آئے۔ اُس وقت میں بھی وہاں موجود تھا۔واضح رہے کہ میں اُن دنوں ’’چٹان‘‘ کا کراچی میں وقائع نگارِ سیاسی تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے شورش صاحب سے کہا کہ میں آپ کے لیے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ضروری پیغام لے کر آیا ہوں۔ شورش صاحب نے کہا کہ بتایئے کیا پیغام ہے۔ مولانا نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کرچکا ہوں لیکن اس کے اعلان سے قبل آغا شورش ملک سے باہر چلے جائیں۔ شورش صاحب یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگئے اور بلند آواز اور تلخ لہجے میں بولے کہ میں ملک سے باہر ہرگز نہیں جائوں گا، قادیانی سمجھیں گے کہ میں جان بچا کر بھاگ گیا، میں اسی ملک میں رہوں گا خواہ میں قتل کردیا جائوں، میرے تمام بچے قتل کردیے جائیں۔ میں اور میری اولادیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے تحفظ کی خاطر قربان ہوجائیں گی لیکن یہ قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، یہ تو میرے اور میری اولاد کے لیے اعزاز ہوگا۔ جب شورش صاحب اپنے دلی جذبات کا اظہار کرچکے اور خاموش ہوئے تو مولانا ظفر احمد انصاری پھر گویا ہوئے کہ بھٹو صاحب آپ کو آپ کی جان کے خطرے کی وجہ سے نہیں باہر بھیجنا چاہتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ میرے اس کام کا کریڈٹ آغا شورش صاحب لے لیں گے۔ آغا صاحب نے جب یہ سنا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور لب کشا ہوئے کہ مولانا صاحب آپ بھٹو صاحب سے جاکر کہہ دیں کہ شورش کو کریڈٹ وریڈٹ سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ فکر نہ کریں، اگر وہ میرے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو آئینی تحفظ دے دیں اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں تو میں خود اس کا کریڈٹ بھٹو صاحب کو دوں گا، بلکہ کبھی بھی تحریر اور تقریر میں ان کی مخالفت نہیں کروں گا اور ان کے وزرا اور حمایتیوں کے خلاف ’’چٹان‘‘ میں بھی کچھ شائع نہیں کروں گا۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وزیراعظم بھٹو صاحب قادیانیوں کو آئینی طور پر قومی اسمبلی سے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیں۔ میرے اور بھٹو صاحب کے درمیان ہونے والے اس سودے کا کسی کو پتا نہیں چلے گا‘‘۔ جلیس صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’پھر آپ سب جانتے ہیں وزیراعظم بھٹو صاحب نے اپنا وعدہ پورا کیا اور شورش صاحب نے اپنا عہد نبھایا، اور وزیراعظم بھٹو اور ان کے حواریوں کی مخالفت ہمیشہ کے لیے ترک کردی، کچھ دنوں کے بعد میں نے چٹان سے استعفیٰ دے دیا۔‘‘
دورانِ تقریب راقم کو مدیر اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی کی مس کال آئی (الطاف صاحب ان دنوں آنکھوں کے عارضے میں مبتلا ہیں، قارئین سے گزارش ہے کہ ان کی صحت یابی کے لیے دعائوں میں یاد رکھیں) جواباً میں نے فون کیا تو انہوں نے خیر خیریت پوچھی۔ میں نے بتایا کہ میں اس وقت جمعیت الفلاح میں ہوں جہاں شورش صاحب کے صد سالہ جشنِ ولادت کے سلسلے میں تقریب جاری ہے۔ انہوں نے فرمایا ’’میری جانب سے بھی جلیس سلاسل کو تقریب کے انعقاد پر مبارک باد دیں، تمام حاضرین کو میرا سلام کہہ دیں۔ شورش صاحب بڑے آدمی اور بڑے جرأت مند صحافی تھے۔ میں کراچی میں ہوتا تو ضرور شرکت کرتا‘‘۔ گلڈ کی سیکرٹری جنرل محترمہ نسیم انجم نے خطبۂ بسم اللہ میں گلڈ کا تعارف اور شورش صاحب کی صحافتی و ادبی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور کہا کہ کراچی یونیورسٹی، فیڈرل اردو یونیورسٹی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبۂ صحافت، شعبۂ ادب، شعبۂ تاریخِ عمومی کے اساتذہ، طلبہ و طالبات سے پی ایچ ڈی کرایا جائے۔ جمعیت الفلاح آغا شورش کاشمیری یادگاری لیکچر کا ماہانہ انعقاد کرسکتا ہے۔ آغا شورش کاشمیری کے انتقال کے فوراً بعدکراچی کے ماہرینِ تعلیم، ادبا، شعرا نے حکومتِ سندھ سے مطالبہ کیا تھا کہ کراچی کی سابقہ گرومندر سے لسبیلہ تک جانے والی سڑک کو شورش کاشمیری کے نام سے منسوب کیا جائے۔ تقریب سے ڈاکٹر معین الدین احمد نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ پروفیسر شاہین حبیب صدیقی، زیب النساء زیبیؔ، خلیل احمد خلیل ایڈووکیٹ نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ راقم نے اظہارِ تشکر کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں سامعین کے علاوہ نصیر احمد سلیمی، سید مظفرالحق، قمر محمد خان، فرحت اللہ قریشی، محفوظ النبی خان، مجید رحمانی، شاہد محی الدین، غزالہ حبیب، یاسمین حبیب، پروفیسر فائزہ احسان، محمد علی قریشی، مطاہر حسین صدیقی، محمد انیس قریشی، ریحان فاروقی، کاشف علی ہاشمی اور ابوبکر صمدانی بھی موجود تھے۔ تقریب کی نظامت پروفیسر شازیہ ناز عروج نے کی، جبکہ تلاوت کی سعادت قاری محمد ادریس اور نعتِ مبارک کی سعادت عبدالاحد نے حاصل کی۔ بزرگ رہنما اور تحریک پاکستان کے کارکن آزاد بن حیدر علالت کی وجہ سے تشریف نہ لاسکے، پروفیسر خیال آفاقی بھی علالت کے باعث نہ آسکے۔ آخر میں پاکستان کے استحکام اور اکتوبر کے زلزلہ زدگان کے متاثرین کی فلاح کے لیے دعائے خیر کی گئی۔