شیخ جاوید ایوب
(دوسرا اور آخری حصہ)
علیحدہ کالونیوں میں کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ :
کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ اہم اور سب سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ بی جے پی، جس نے جموں میں اچھا انتخابی فائدہ اٹھایا، خود اس کو بھی اسمبلی میں اس مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ قصبے قائم کرنے کی پالیسی کے ساتھ برسرِاقتدار آئی ہے۔ اس پالیسی نے ریاست، عوام اور سیاسی جماعتوں میں ایک ردعمل پیدا کیا ہے۔ جو لوگ بھارت کے ساتھ وابستگی چاہتے ہیں اور جو آزادی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ان میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ سید علی گیلانی نے اس منصوبے کو مسترد کرکے اسے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اگرچہ پی ڈی پی نے بھی اسرائیلی انداز میں پنڈتوں کی کسی بھی قسم کی آبادکاری کے خصوصی اہتمام کو مسترد کردیا ہے، مگر بی جے پی اور پی ڈی پی اتحادی سیاست کے ذریعے ریاست میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی جانب بڑھا جارہا ہے، جس میں بڑے شہروں کو ہدف بنایا جانا پیش نظر ہے۔
یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ کشمیری مسلمان اپنے ہم وطن پنڈتوں کی واپسی کے خلاف نہیں ہیں، کیوںکہ وہ کشمیر کا ایک حصہ ہیں، لیکن جس طریقے سے ان کی آبادکاری کا منصوبہ مسلط کیا جارہا ہے، اس طریقے کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس تنازع میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ: ’’کشمیری، تارکین وطن کی اپنی وادی میں آبادکاری کے لیے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے بلیوں کے آگے کبوتر ڈالنے کا معاملہ ہو‘‘۔ محبوبہ مفتی کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ یہ باتیں مسلمانوں کے لیے واضح طور پر توہین آمیز اور نفرت انگیز الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی کشمیری پنڈتوں کو ’کبوتروں‘ کی طرح نشانہ نہیں بنایا، اور جنھوں نے انفرادی طور پر کبھی کسی کو نشانہ بنایا تو کشمیری قیادت نے نہایت سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔
نئی صنعتی پالیسی:
یہ پالیسی انڈسٹری اینڈ کامرس ڈپارٹمنٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی ہے اور ریاستی انتظامی کونسل نے 15مارچ 2016ء کو اس کی منظوری دی ہے۔ یہ کونسل گورنر این این وہرا کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ بظاہر اس پالیسی کا مقصد ہر سال 2 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا ارادہ ہے۔ لیکن پالیسی کے اصولوں کے پیچھے یقینی طور پر کچھ ایسے چھپے ہوئے سازشی عناصر موجود ہیں جو نئی صنعتی پالیسی کے جھانسے میں، غیر ریاستی لوگوں کو زمین حاصل کرنے کی گہری سازش کررہے ہیں، تاکہ وہ نام نہاد 90 سالہ لیز پر فیکٹریاں لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی بستیاں بھی آباد کرتے چلے جائیں۔
اس حوالے سے آسیہ اندرابی صاحبہ نے کہا ہے کہ: ’’بھارتی صنعتی پالیسی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار دولت کے بل بوتے پر کشمیر میں پنجے گاڑ کر، یہاں کی آبادی کا تناسب بدل ڈالیں۔ مزید یہ کہ بھارتی سرمایہ دار اور سرمایہ پرست، افرادی قوت بھی بھارتی ریاستوں سے لائیں گے، جس کے نتیجے میں یہاں کا تہذیب و تمدن، روزگار اور آزادی، سبھی کچھ بھارتی کنٹرول میں چلا جائے گا اور یہاں غربت و ذلت کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی پر عمل درآمد :
جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی (ٹیکس) کا نفاذ ریاست کے بھارت کے ساتھ انضمام کے عمل کی نشان دہی کرتا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے اس موقع پر کہا کہ ’’حکومت کے اس اقدام سے کشمیر کے بھارت میں انضمام کا خواب پورا ہوگیا ہے‘‘۔ ایک دوسرے موقع پر انھوں نے کہا کہ: ’’جموں و کشمیر کا جی ایس ٹی نظام کا حصہ بننا سیاسی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ یہ ریاست کے باقی ملک [بھارت] کے ساتھ انضمام کا اشارہ ہے اور جی ایس ٹی دراصل ایک عمل کی انتہا ہے‘‘۔ جب کہ شاما پرشاد مکرجی نے ریاست کے بھارت کے ساتھ مکمل انضمام پر بات کی۔ تاہم، اس کے برعکس بھارت کے ممتاز دانشور اے جی نورانی نے جی ایس ٹی کو ’آرٹیکل 370 کی عصمت دری‘ قرار دیا۔
جی ایس ٹی نے ریاست سے ہر طرح کی معاشی خودمختاری چھین لی ہے۔ آرٹیکل370 ریاست کو محصول اور ٹیکس کی وصولی کا اختیار دیتا ہے، لیکن اب یہ اختیار ریاست کو حاصل نہیں ہے۔ عبدالرحیم راتھر، سابق وزیرخزانہ نے ریاست اور مرکزی حکومت کے اعلان کو رَدکرتے ہوئے کہا کہ: ’’نئے ٹیکس نظام کے تحت نئی دہلی کو جی ایس ٹی کے ذریعے سیلزٹیکس جمع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جو کہ دوسری صورت میں جموں و کشمیر حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہوتا ہے‘‘۔
جی ایس ٹی میں توسیع کا سادہ مطلب جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات نئی دہلی کے حوالے کرنا ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے کی میکاولین وضاحتیں کی ہیں۔ ڈاکٹر حسیب درابو ریاستی وزیرخزانہ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم آرٹیکل 370 کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں‘‘، اور یہ انھی خطوط پر گفتگو تھی جیساکہ بی جے پی کے نظریے کے حامی بات کرتے ہیں۔
آرٹیکل 53-اے کو حذف کرنے کی حکمت عملی
جموں و کشمیر کا آئین اپنے تیسرے حصے میں مستقل رہائشی اور اس کے اختیارات اور مستقل رہائشی کے حقوقِِ ملکیت وغیرہ کی تعریف کرتا ہے۔ مستقل رہائشی کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ آئین آرٹیکل9 کے تحت ریاستی اسمبلی کو تمام اختیارات دیتا ہے، جس کے تحت اسمبلی ریاستی شہری کی تعریف میں کوئی بھی تبدیلی لاسکتی ہے۔ آرٹیکل 9 درج ذیل امور کی وضاحت کرتا ہے، جیسے:
-1 ریاست کے مستقل شہری کی وضاحت کرنا یا تعریف میں تبدیلی کرنا، افراد کی نوعیت (کلاسز) جو بھی ہیں یا ہوں گی،
-2 مستقل شہریوں کو خصوصی حقوق یا اختیار عطاکرنا،
-3 مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق یا اختیارات کو مقررہ ضابطے کے تحت چلانا یا ان میں تبدیلی کرنا۔ یہ اسمبلی سے تب منظور کیے جائیں گے، جب انہیں اسمبلی کی دوتہائی اکثریت کی تائید حاصل ہوگی۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے حقوق نہ صرف بھارتی حکومت نے تسلیم کیے ہیں، بلکہ ان کے تحفظ کے لیے آرٹیکل53-A آئین کا حصہ بھی ہے۔ یہ آرٹیکل ایک آئینی شق ہے، جو جموں و کشمیر کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق بہ سلسلہ ملازمت، ناقابلِ انتقال جائداد کا حصول، آبادکاری اور اسکالرشپ کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر میں صدر راجندرا پرشاد کے حکم سے14مئی 1954ء کو نافذ کیا گیا۔ قانونی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل کو حذف کیا گیا تو جموں و کشمیر تمام خصوصی مراعات بشمول اسٹیٹ سبجیکٹ لا، جائداد کا حق، ملازمت کا حق اور آبادکاری کا حق کھو دے گا۔ بھارتی انتہاپسند قوم پرستوں کے مطابق بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کو مسخ کرنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ بی جے پی کے مشن44 کا ہدف کشمیریوں کے خصوصی استحقاق کے اس دستاویزی ثبوت سے نجات حاصل کرنا ہے۔
جموں و کشمیر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ طورپر اس تحریک کے خلاف اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل 53-A کو منسوخ کیا گیا تو جموں و کشمیر میں بغاوت ہوسکتی ہے (روزنامہ گریٹر کشمیر، یکم اگست2017ء)۔ اسی طرح وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو سختی سے متنبہ کیا ہے کہ اگر آرٹیکل53-A کو حذف کیا گیا تو وادی میں ترنگے کو بلند کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اپوزیشن، حکمران جماعت پی ڈی پی، علیحدگی پسند اور عوام آرٹیکل53-A کی تنسیخ پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔
آرٹیکل 53-A کی منسوخی نے مرکز اور ریاست میں شدید بحث کھڑی کردی ہے۔ زیریں سطح پر بہت سے حقائق نے کشمیر کے تشخص پر سخت یورش کو ثابت کردیا ہے۔ مثلاً ’پرمننٹ ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ‘ (PRC) سے متعلق افواہوں نے ریاست کے عوام میں یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ گڑبڑ ہے۔ ’اسٹیٹ سبجیکٹ انکوائری کمیشن رپورٹ‘ کے مطابق تقریباً 1300 پی آر سی سرٹیفکیٹ زیرغور ہیں جو کہ حیران کن ہے۔ اے کیو پرے نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں انھوں نے پی آر سی سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے اور جائداد ضبط کرلینے کی منظوری دی ہے۔ اے کیو پرے نے کہا کہ یہ حیران کن ہے کہ غیر ریاستی IAS کے غیرمتعلقہ افسر پی آر سی سرٹیفکیٹ جاری کررہے ہیں جو کہ قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جس روز سے رسمی معاہدے کے تحت بھارت نے ریاست کا انتظام سنبھالا ہے، مرکزی بھارتی قیادت کی خواہش ہے کہ جیسے دوسری ریاستیں بھارت میں ضم ہوگئی ہیں اسی طرح کشمیر بھی بھارت میں مکمل طور پر ضم ہوجائے۔ خودمختاری میں فرسودگی کا عمل اس طریق کار کی زندہ مثال ہے۔ عوام محض اس شبہ کے اظہار کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے علیحدگی کے تشخص کو منسوخ کرنے کا ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ دستورِ ہند سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے لیے بھارت میں واویلا زوروں پر ہے اور اس کو حذف کرنا بی جے پی حکومت کے کارڈوں میں سے ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں کشمیر کے تشخص کے خلاف اس بھرپور یورش کو روکنے کے لیے متحد ہوتی ہیں؟ یا کشمیر امرناتھ پارٹ ٹو کی طرف بڑھ رہا ہے؟