سلمان علی
روشن مستقبل کے نظارو
علم و ہنر کے شاہسوارو
دانش کے زندہ کردارو
شہر وفا کے پہرے دارو
عظمت کے اونچے کہسارو
اُٹھو جوانو بدلو کراچی
اسلامی جمعیت طلبہ بلاشبہ ملک کی سب سے بڑی منظم ، نظریاتی اور طویل تاریخ رکھنے والی اپنی نوعیت کی واحد طلبہ تنظیم ہے ۔پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بحالی ،تعلیمی مسائل کے حل ،طلبہ میں دعوت دین اور غلبہ دین کی جدو جہد میں اس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ستر سالوں پر مبنی ایک طویل سفر ہے جس سے لاکھوں نوجوان مستفید ہوئے ، جمعیت سے حاصل کی گئی تربیت سے معاشرے میں خیر کے علمبر دار بن کر آج بھی کھڑے ہیں۔اسلامی جمعیت طلبہ نے خصوصاً کراچی میں نہایت سخت حالات کا سامنا کیا ہے ،خصوصاً 1988سے 1995کا دور جس نے مزید 2015تک شہر پر اپنی دہشت و بر بریت کے سائے برقرار رکھے۔کراچی کی اپنی روایتی علمی و تہذیبی شناخت اس پورے دور میں کہیں کھو گئی ۔تعلیمی ادارے تباہ ہوتے چلے گئے ، نقل مافیا کا راج ہوا، تعلیم ٹیوشن سینٹرزمیں مقید ہوگئی، سرکاری اسکولوں کا حال بتانے جیسا نہیں رہا، نجی تعلیمی اداروںکا جال بچھ چکا ہے ، سرکاری جامعات کرپشن سمیت دیگر مسائل کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔یہ شہرجو سب کی ماں جیسا تھا، تعلیم ، روزگار ، شناخت بھی دیتا تھا، ایجوکیشن سٹی کہلاتا تھا،ادبی محافل کا مرکز کہلاتا تھامگر آج یہ اپنی شناخت کہیں کھو چکا ہے۔صرف تعلیمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو دوکروڑ کی آبادی والے اس شہرکا تعلیمی و تعمیری ڈھانچہ بری طرح تباہی کا شکار ہے،جس پر خاموشی خود اپنے آپ کو ایک طوفان کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔مجموعی صورتحال دیکھیں تو(یو این ڈی پی کی رپورٹ 2013کے مطابق ) پاکستان کا 146واں نمبر ہے ایجوکیشنل ڈویلپنٹ انڈیکس میں، جبکہ بچوں کے اسکول نہ جانے کی شرح میں پاکستان اس وقت عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے ۔ایک مقامی اخبار کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں 40000گھوسٹ اساتذہ جبکہ چھ ہزار کے قریب گھوسٹ اسکولز ہیں یعنی صرف کاغذات پروجود ہے۔کراچی میں کالجز آخری بار کوئی دس سال قبل نعمت اللہ خان نے بطور سٹی ناظم بنوائے تھے اس کے بعد سے کوئی انٹر میڈیٹ کالج نہیں بنا۔ان سارے مسائل پر عوامی آگہی ، حکمرانوں تک آواز پہنچانے کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے ہمیشہ سے تعلیمی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کی ہے ،ہر سال مختلف عنوانات سے مہمات چلائی جاتی رہی ہیں ۔امسال بھی اسلامی جمعیت طلبہ نے ’اٹھو جوانو بدلو کراچی ‘کے عنوان سے ایک مہم کاآغاز کیاہے، گو کہ یہ تعلیمی مسائل کے حل کے لیے مہم ہے لیکن اس میں کراچی کے نوجوانوکو مخاطب کر کے بھی شامل کیا جا رہا ہے تاکہ یہ نوجوان خود شعوری طور پر اُن مسائل کو سمجھ سکیں اور اُس کے حل میںبھی اپنا کردار ادا کر سکیں ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی بدولت کراچی کو ملے ہیں۔
اس حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ نے کراچی کے تعلیمی مسائل پرایک جامع رپورٹ بھی مرتب کی اور ساتھ ہی اُن کے حل اور بہتری کے لیے ماہرین سے مشورے کے بعدعملی تجاویز بھی مرتب کر کے تیار کیں۔
رپورٹ میں جن مسائل کی نشاندہی کی گئی اُن کے مطابق 51فیصد نوجوان بچے اس وقت حصول تعلیم کے لیے کہیں بھی رجسٹر ڈنہیں ہیں ۔سندھ بھر میں پرائمری اسکولز کی تعداد41724ہے جبکہ 87085اساتذہ کی تعداد یہ بتاتی ہے کہ فی اسکول صرف دو اساتذہ ہیں ۔ہر سال 50%بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح ہے اور جو دی گئی تعلیم کے معیار کا حال ہے اُس کے مطابق 55%طلبہ درست اردو بھی نہیں پڑھ سکتے ۔کراچی کے 23فیصد سرکاری سکولوں میں بجلی ہی نہیں جبکہ 42 فیصد اسکولوں میں پانی اور 30فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء کی بھی سہولت نہیں۔شرح خواندگی مستقل کم ہوتا جا رہا ہے ، ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا فقدان، ہر سال50ہزار طلبہ و طالبات انٹر میڈیٹ پاس کرتے ہیں مگر دستیاب سرکاری جامعات میں صرف دس ہزار کو داخلہ دینے کی گنجائش ہے۔جامعات کے پاس طلبہ و طالبات کے لیے کوئی مناسب ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں جبکہ جامعات کے طلبہ و طالبات کو ہاسٹلز کی حالت تو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔اس ضمن میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے شہر بھر میں طلبہ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تک بھی اس مہم کے مندرجات پہنچائے اور اُنہیں بھی اس بڑے مقصد کے لیے یکسو کیا۔28اکتوبر کو شہر کی سطح پر ’کراچی کنونشن‘ کے نام سے طلبہ کا اجتماع رکھا جس کے لیے تمام تعلیمی اداروں، گلی محلوں میں رابطہ مہم چلائی گئی۔ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا گیا اور تعلیمی اداروںمیں مختلف سرگرمیاں منعقد کی گئیں جن میں تقریری مقابلے، مظاہرے ، اساتذہ و ماہرین تعلیم سے ملاقاتیں کی گئیں۔مہم کے حوالے سے دستیاب ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی کیا ۔ اس ضمن میں کراچی میں طویل عرصے بعد کراچی میں وال چاکنگ بھی دیکھنے کو ملی ۔یہ وال چاکنگ دیواروں سے ہوتی ہوئی شہر کراچی میں ایک خاص سیاسی شناخت رکھنے والی اُس چورنگی پر بھی پہنچی جسے ’مُکا چوک‘ بھی کہتے ہیں ۔اس چورنگی پر کی جانے والی چاکنگ نے کراچی پر 1990 سے قائم خوف ودہشت کے سائے کو بھی شدید ضرب لگائی ۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس عمل کو خاصا موضوع بنایا گیا جس کے نتیجے میں جمعیت کے اس کنونشن کو خاصی ابلاغی رسائی ملی۔ایک جانب سوشل میڈیا کو اس چاکنگ کو شہر گندا کرنے سے تشبیہہ دی گئی تو دوسری جانب اسے شہر کو خوف و دہشت کے راج سے نکالنے کی کوشش اور اعلان قرار دیا گیا کہ اب کراچی کے نوجوانوں کو کسی مسلح دہشت گرد سے خوف کھا کر دبے رہنے کی ضرورت نہیں ۔حالات بدل چکے ہیں، سیاسی قبضوں اور نوگو ایریاز کا دور ختم ہو چکا ہے ،اب جو آپ کو اچھا لگے ،جس کی بات بھلی لگے آپ اُس کا کھل کر ساتھ دیں۔اسلامی جمعیت طلبہ کراچی نے اس مہم کے ذریعہ جو مطالبات حکمرانوں سے کیے ہیں آپ خود اُن کو جانچ کر فیصلہ کریں کہ کیا وہ کوئی سیاسی مطالبات ہیں یا اُن کے پیچھے صرف اس ملک کے روشن مستقل اور اس شہر کو دوبارہ روشنیوں اور علم و ادب کا گہوارہ بنانے کا مقصد ہے، کیونکہ بہر حال ان مطالبات سیمیرے اور آپ کے بچے ہی فائدہ اٹھائیں گے ، وگرنہ کسی اور سیاسی ، سماجی ، دینی تنظیم کے پاس تو اتنا سوچنے کا وقت بھی نہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کی مہم میں شامل مطالبات میں اول الذکر کراچی میں ہر سیکٹر جنرل ، انجینیئرنگ اور میڈیکل کے لیے کم از کم ایک ایک جامعہ کا قیام ہے ، ساتھ ہی کسی ایک کالج کو اپ گریڈ کر کے کسی ٹیکنیکل یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے یا نئی ٹیکنیکل یونیورسٹی قائم کی جائے۔پرائیوٹ اسکولز کی بے قابو فیسوں میں اضافے کے لیے کوئی باقاعدہ اتھارٹی بنائی جائے ۔تعلیمی نظام ایسا بنایا جائے کہ وہ بغیر کسی تفریق کے باآسانی سب کے دائرہ کار میں ہو۔سرکاری کالجز میں صحت مند تعلیمی ماحول پیداکرکے دوبارہ عمومی حالت میں واپس لا کر چھائی ویرانی کو ختم کیا جائے۔سرکاری جامعات میں سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔سرکاری جامعات میں داخلوں کے مطابق مناسب ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے ۔بیرون شہر و ملک سے آنے والے طلبہ و طالبات کے لیے ہاسٹلز کی سہولت کو بحال کیا جائے۔
nn
محترم قا ضی عبدالقادرصاحب مرحوم کی دینی و تحریکی خدمات پر مبنی مضمون کے ضمن میں وضاحت
مؤرخہ 22 اکتوبر 2017 ء روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں والد محترم جناب قاضی عبد القادر صاحب مرحوم کی خود نوشت “یادوں کی تسبیح”سے ماخوذ تحریر کی مختصر وقت میں اشاعت کے حوالے سے آپ نے جو محنت کی اس پر انتہائی ممنون ہوں ۔
مضمون کے آخری حصہ میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ سے تعلق اور تنظیم اسلامی سے وابستگی کے حوالے سے کچھ وضاحت میرے نزدیک بہت ضروری ہے۔ والد صاحب مرحوم زندگی کے تقریباً ۴۴ سال (1973ء-2017ء ) مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور تنظیم اسلامی کے ساتھ ابتدا محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒبعد ازاں حافظ عاکف سعید کی امارت میں تحریک رجوع الی القرآن و اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف رہے۔آپ کی تحریر سے مجھے یہ تاثر ملا کہ شاید ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور تنظیم اسلامی کے ساتھ ان کاتعلق بالکلیہ ختم ہو گیا تھا، جبکہ ایسا نہیں تھا۔ والد صاحب مرحوم کی لاہور سے کراچی منتقلی کی اصل وجہ تنظیم اسلامی کی اساسی فکر یا طریقہ کار کے حوالے سے اختلافات نہیں بلکہ چند دیگر معاملات میں ذاتی اختلاف تھا جس کا ہر شخص کو حق ہے۔ الحمد للہ لاہور سے کراچی منتقل ہونے کے بعد محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ سے تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ بحیثیت رفیق تنظیم “ناظم بیرون پاکستان” کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بیرون پاکستان کے نظم اور رابطے کو فعال کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد اللہ تعالی نے والد صاحب مرحوم سے ایک اور کام لیا۔ آپ کی کاوشوں سے 1975 ء رمضان المبارک کے دوران کراچی میں پہلا دورہ ترجمہ قرآن (لا ل مسجد ناظم آباد) منعقد ہوا جس میں محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ تراویح کے ساتھ ترجمہ اور مختصر تفسیر بیان کرکے قرآن مجید کی تکمیل کی۔ الحمد للہ یہ پودا اب تناور درخت کی شکل اختیار کر تا جا رہا ہے اب اسی نوعیت کے پروگراموں کا انعقاد ہر سال ماہ مبارک میں لگ بھگ 45-50 مقامات پر شہر کراچی میں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور وہ داعی قرآن بن کر قرآنی تعلیمات کی روشنی پھیلانے کا زریعہ بن رہے ہیں۔ یقینا یہ بھی والد صاحب کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا ، ان شاء اللہ۔ زندگی کی آخری سانس تک والد محترم کا تنظیم اسلامی کی فکر ، اسکے مشن اور طریقہ کار پر مکمل انشراح تھا، ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بعد امیر محترم حافظ عاکف سعید صاحب حفظہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور امیر تنظیم سے مسلسل رابطہ میں رہ کر اپنے قیمتی مشوروں سے ا نہیں نوازتے رہے اور دیگر امور میں امیر تنظیم کی معاونت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ والد صاحب مرحوم نے تحریک رجوع الی القرآن اور اقامت دین کے سلسلے میں جو بھی وقت لگایا اس کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر استقامت عطا فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔
خبیب عبد القادر
اکتوبر25 ،2017