برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں(قسط نمبر108)

472

سازشوں کا تسلسل قادیانیت کا پردہ چاک
نجیب ایوبی
(ساتواں حصہ)
وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُن کے قاتل اور اُن کے خلاف سازشوں کا تانا بانا تیار کرنے والے آزاد اور مختارِکُل بن بیٹھے تھے۔ ملک میں عملی طور پر طاقت اور جبر کا نظام قائم کیا جارہا تھا۔ عوام ایک عجیب سی بے یقینی سے دوچار تھے۔ حکومت مخالف اخبارات اور جرائد پر مؤقف کے اظہار پر پابندی لگائی جا چکی تھی۔ جماعت اسلامی کے ترجمان جرائد ان پابندیوں کا براہِ راست نشانہ بنے۔ ان رسالوں کے ڈیکلریشن منسوخ کردئیے گئے۔ ان جرائد کے مدیران اور ناشر گرفتار کیے جا چکے تھے۔ غلام محمد اور اس کی کابینہ میں شامل بیوروکریسی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔ اقتدار پر قبضے اور استحکام و دوام حاصل کرنے کی کشمکش عروج پر تھی۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے پہلے ہی پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کردیا گیا تھا، جس کی زد میں جماعت اسلامی ہی آئی۔ اور سیاسی فیصلوں کی جگہ بیوروکریسی کے احکامات پر عمل درآمد کیا جانے لگا۔ مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقائے کار کی پہلی گرفتاری میں بھی بیوروکریسی کا عمل دخل تھا۔ جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور سہ روزہ پرچے ’’کوثر‘‘ کو پنجاب سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کردیا گیا۔ اسی موقع پر مولانا مودودیؒ کی گرفتاری بھی ہوئی جس کی کچھ تفصیل پچھلی اقساط میں آچکی ہے۔
درحقیقت حکومت کو جماعت اسلامی سے جو اصل پریشانی تھی وہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی نے باضابطہ طور پر اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ کردیا تھا۔ یہ مطالبہ امیر جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کراچی کے جہانگیر پارک میں ایک بہت بڑے جلسہ عام میں کیا تھا۔ جس کے بعد سے امیر جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے دیگر قائدین کے بارے میں حکومتی ناپسندیدگی کا لیبل لگا دیا گیا۔
اسلامی نظام کے قیام کے اس مطالبے کے جواب میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا بیان اگلے روز اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا جس میں جلی حروف میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، اور بتایا گیا تھا کہ ان کی حرکات اور سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے اور ان پر نگاہ رکھنے کے لیے خفیہ پولیس اہلکار مامور کیے جاچکے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ بیان لیاقت علی خان کا تھا بھی کہ نہیں؟ امکان اس کا بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح کا بیان بیوروکریسی اور سازشی عناصر کے اپنے ذہن کی پیداوار ہو۔ مگر نواب زادہ لیاقت علی خان یا اُن کے ترجمان کی جانب سے اس کی تردید بھی نہیں کی گئی۔
اب یہ سازش تو طشت ازبام ہو ہی چکی تھی کہ بیوروکریسی کسی بھی طور پر مولانا مودودیؒ یا ان کی جماعت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ چونکہ حکومت خود جماعت اسلامی کی مخالفت پر کمربستہ تھی، لہٰذا حکومتی ذرائع اور اخبارات کے ذریعے مولانا مودودیؒ پر بہتان طرازی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا بھرپور استمعال شروع ہوا۔ اسلامی نظام کے مطالبے سے خائف حکمران اور بیوروکریسی اس بات پر یکسو تھے کہ جماعت اسلامی کے عوام میں بڑھتے ہوئے نفوذ اور اثرات کو کسی بھی طور پر روکا جائے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے ترجمان اخبار اور رسالوں پر پابندی بھی لگ چکی تھی۔ من گھڑت منفی حکومتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے جماعت اسلامی کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
چنانچہ اس کی ایک صورت یہ نکالی گئی کہ عوام میں جاکر انفرادی سطح پر جماعت کے وضاحتی مؤقف اور اسلامی نظام کے قیام کے مطالبے کو پہنچایا جائے۔ ہر بڑے شہر میں عوامی جلسوں کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں حکومت بوکھلا اٹھی۔ تاہم اس کا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ حکومت میں شامل پاکستان کے مخلص اراکینِ اسمبلی جماعت اسلامی کا مؤقف قانون ساز اسمبلی میں اٹھانے میں کامیاب ہوئے۔
اسی موقع پر ایک کتابچہ ’’قراردادِ مقاصد کے بعد حکومت اور ملت کی نئی ذمہ داریاں‘‘ عوام کے سامنے لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو گرفتار کرکے ملتان کی جیل میں نظربند کردیا گیا۔ اس ظلمِ ناروا کے باوجود جماعت اسلامی اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھی۔ جب مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقائے کار جھوٹے الزامات سے بری ہوکر رہا کردئیے گئے تب بھی تسلسل کے ساتھ اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ جاری رہا۔ جماعت اسلامی پر آزمائشوں کا یہ دور ابھی اپنے پہلے مرحلے میں ہی تھا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا، جس پر جماعت اسلامی کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی ہوا اور اصل قاتلوں کی گرفتاری اور اُن کے خلاف تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
غلام محمد گورنر جنرل بن چکا تھا اور خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ یہ دور بھی جماعت اسلامی اور اسلام پسندوں کے لیے کم آزمائش کا نہیں تھا۔ قراردادِ مقاصد کو سیکولر لابی نے اپنی مرضی سے بنانے کی کوششیں جاری رکھیں، مگر عوامی مطالبے اور علمائے کرام کی کوششوں نے حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ اس مسودے پر نظرثانی کرے اور اصل شکل میں منظور کروائے۔
مگر اسی اثناء میں بیوروکریسی اور گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے جماعت اسلامی کے آٹھ نکاتی مطالبے کو سبوتاز کرنے کا کام بھی تیز تر ہوگیا۔ حکومتی ایما پر کچھ علماء کو ساتھ ملا کر قادیانی مخالف ہنگامے کروائے گئے تاکہ قانونی اور دستوری جدوجہد کو پُرتشدد بنادیا جائے۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں قادیانی مسئلے پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کروایا گیا۔ خاص طور پر لاہور شہر کو مرکز بنایا گیا۔ ان پُرتشدد ہنگاموں میں بہت سے قادیانی قتل کیے گئے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ان ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے نام پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے لاہور کی حدود میں مارشل لا لگایا گیا۔ اسکندر مرزا کے حکم پر ہر داڑھی والے کو گولی مار دینے کا آرڈر بھی جاری کیا جا چکا تھا۔ پھر جزوی مارشل لا کی آڑ لے کر جماعت اسلامی کے اکابرین اور قائدین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا، حالانکہ اس سازش اور ہنگاموں میں جماعت اسلامی کا پُرتشدد کردار تھا ہی نہیں، مگر اس کے باوجود ہنگاموں کو بنیاد بناتے ہوئے گرفتاریاں شروع کردی گئیں، جبکہ یہ بات واضح اور ریکارڈ پر تھی کہ مولانا مودودیؒ نے فکری محاذ پر دستوری جدوجہد کو ہی جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔
قادیانی مسئلہ اگرچہ علامہ اقبال کی زندگی میں ہی اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ منظرعام پر آچکا تھا، اور اس خطرے کو بھانپتے ہوئے21 جون 1936ء کو علامہ اقبال نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو (جو قادیانیوں کے بہت بڑے بہی خواہ تھے اور اسی ہمدردی کے صلے میں سر ظفراللہ خان قادیانی نے گورداسپور میں قادیانیوں میں پاکستان کے ساتھ شامل نہ ہونے کے حق میں دستخطی مہم بھی کامیابی کے ساتھ چلائی اور یوں گورداسپور پاکستان میں شامل ہونے سے رہ گیا) اپنے مکتوب میں لکھا کہ ’’میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ’احمدی‘ اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔‘‘
اس بات کی ضرورت علامہ اقبال کو اس لیے پیش آئی کہ اُس زمانے میں قادیانی رسالوں بالخصوص ’’الفضل‘‘ میں جگہ جگہ انگریز حکومت کے ساتھ وابستگی اور وفاداری کا یقین دلایا جارہا تھا۔ ایک موقع پر جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں احمدی افراد کے ساتھ علامہ اقبال کے مکالمے شروع ہوئے تب علامہ اقبال نے مزید دلچسپی کے ساتھ ’’احمدیت‘‘ کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مسئلے کی سنگینی سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جانا اشد ضروری ہے۔ آپ نے باور کروایا کہ احمدیت کس طرح سے مسلمانوں کے اجتماعی وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے سب سے پہلے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور اسلام کے بارے میں ان کے رویّے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس فرقے کے بانی (مرزا غلام احمد، جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا) نے ملتِ اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ اور اپنے مقلدین کو تازہ دودھ سے تشبیہ دی ہے، اور اپنے مقلدین کو مسلمانوں سے دور رہنے، مل جول رکھنے سے اجتناب، عام مسلمانوں کے ساتھ قیام نماز میں عدم شرکت، نکاح و طلاق وغیرہ کے معاملات میں بائیکاٹ، اور سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ ’احمدیوں‘ کے سوا تمام مسلمان کافر ہیں، کا اعلان کیا ہے۔ یہ سب ان کی علیحدہ حیثیت کے ثبوت ہیں۔‘‘
یہی بات امیر جماعت اسلامی نے اگست 1935ء میں اپنے رسالے ترجمان القرآن رسائل و مسائل میں ایک خط کے جواب میں اس طرح لکھی کہ ’’کلام الٰہی سے یہ بات ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنا علم الٰہی کی تکذیب ہوگی۔ اور علم الٰہی کی تکذیب کا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا جو اللہ کو سچا اور اس کے علم کو حقیقی مانتا ہے۔‘‘
اس بحث کی وضاحت ترجمان القرآن میں اس طرح کی کہ جولائی1951ء میں ترجمان القرآن میں ’’خاتم النبیین کے بعد دعوائے نبوت‘‘ کے عنوان سے ایک مکتوب کے جواب میں مولانا نے لکھا کہ ’’جب قرآن اور احادیثِ صحیحہ سے یہ ثابت ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ دعوائے نبوت کرنے والا کون ہے اور کیا لایا ہے! چنانچہ یہ بحث غیر ضروری اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہے۔‘‘
(حوالہ جات: ’’جہدِ مسلسل‘‘۔ تحقیق و تالیف محمود عالم صدیقی۔ ’’تاریخ جماعت اسلامی‘‘۔ آباد شاہ پوری۔ روزنامہ انجام 26 مئی 1948ء)

تبصرہ/صائمہ رضوان صاحبہ
نجیب ایوبی صاحب …السلام علیکم
ہمیشہ کی طرح پراسرار اور معلوماتی تحریر ۔پڑھ کر بہت معلومات ہوئیں۔اور آزادی کی قدر بھی ہوئی ۔ خاص کر یہ جملہ دل پر اثر کرگیا کہ “مسٹر غلام محمد کی طاقت کا راز سیاست دا نوں کی کمزوری ہے “۔
واقعی موجودہ صورتحال میں سیاست دا نوں کی طاقت کا سرچشمہ عوام کی کمزوری ہے ۔
لیاقت علی خان کی کاوشیں اور پھر ان کی شہادت کا پڑھ کر افسوس بھی ہوا اور فکر بھی ، کہ ایسے ہی جاں نثاروں نے اپنی جان دیکر ملک کی حفاظت کی ہے ۔
بچوں کو اسکول میں تقریر کے لیے جو موضوعات دئیے جاتے ہیں ان کی تیاری میں آپ کے مضامین اور تحریروں سے بہت مدد ملتی ہے ۔
اللہ نے جو صحت دی ہے آپ نے اپنی تحریروں میں اس کا کھل کر اظہار کیا ہے ۔
میں نے آپ کی تحریر کا ریفرنس بہت سے طلباء و طالبات کو دیا کیونکہ ان کا سب کو تاریخ کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

حصہ