دس سوالات

427

سروے ٹیم:نمرہ ابراہیم قرۃ العین ‘ سعدیہ
ہر رائے رکھنے والا اپنی رائے پر اصرار بھی کرتا ہے۔ یہ بھی درست نہیں کہ آپ ہر وقت جو سوچ رہے ہوں لوگ آپ کی فکر سے سوفیصد متفق ہوں۔ اس لیے لوگوں کی آراء کو جاننا بھی بہت ضروری ہے اور اپنی رائے سے رجوع کرنا ضروری ہوتو اس میں بھی جھجھکنا نہیں چاہیے۔
حلقہ خواتین جماعت اسلامی کے تحت قائم ویمن اینڈ فیملی کمیشن کا سروے نیٹ ورک سماجی حقائق اور تبدیلیوں کے حوالے وقتاً فوقتاً سروے کا اہتمام کرتا ہے تاکہ ہم عوام کی آراء کی روشنی میں جان سکیں کہ اس وقت معاشرے کا مائنڈ سیٹ کیا ہے۔ لوگ سماجی تبدیلیوں کو کس حوالے دیکھ رہے ہیں اور سماجی شعور کی آبیاری کے لیے ہم کن خطوط پر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں۔
اس وقت جو سماجی تبدیلیاں ہم دیکھ رہے ہیں ان میں ایک کیرئیر کی دوڑ بھی شامل ہے۔ کچھ عرصہ قبل شائد اس حوالے سے لوگ اتنا فکرمند نہ تھے جنتا اب ہیں۔ پروفیشنل تعلیمی اداروں کے امتحانات ہوں یا مالیاتی وتجارتی اداروں کی اسامیاں ہردو جگہ خواتین سبقت لے جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہم نے دو بڑے شہروں لاہور اور کراچی کی دوسو خواتین سے ایک سروے کیا جس میں تعلیم یافتہ خواتین اور طالبات شامل تھیں۔
ہم نے ان سے جاننا چاہا!!
٭… لڑکیوں کی شادی کس عمر میں ہونی چاہیے؟
٭…کیا کیرئیرکی دوڑ میں لڑکیوں کی عمر زیادہ نہیں ہوجاتی؟
٭…کیا والدین لڑکیوں کی تعلیم کو اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی لڑکوں کی تعلیم کو؟
دو سو افراد میں سے 75% کی رائے یہ تھی کہ لڑکیوں کی شادی بیس برس کی عمر کے بعد ہونا چاہیے۔ 65% خواتین کی رائے یہ تھی کہ لڑکیوں کے کیئریئر کو اہمیت دینا چاہیے جب کہ 35% سمجھتی ہیں کہ اچھا رشتہ آنے پر شادی کردینا چاہیے۔ جبکہ 75% خواتین سمجھتی ہیں کہ کیرئیرکی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے لڑکیوں کی عمریں زیادہ ہوجاتی ہیں اور اکثر اچھے رشتے بھی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ جبکہ 55% خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ آج کے دور میں بھی والدین لڑکیوں کی تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی لڑکوں کی تعلیم کو۔ جبکہ 45% خواتین اس سے متضاد رائے رکھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے معاشرے میں۔
اس سروے کی روشنی میں ایک مجموعی سانچہ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کہ خواتین کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ کیئرئیر کی دوڑ میں لڑکیوں کے اچھے رشتے بسااوقات نکل جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ لڑکیوں کے کیئریئر کو اہمیت دینا چاہیے۔ اور ہم دیکھیں تو معاشرے میں عملاً ہوبھی یہی رہا ہے کہ والدین چاہتے بھی ہیں کہ مناسب رشتہ آجانے پر شادی کردیں مگر نہ لڑکی آمادہ ہوتی ہے نہ سماج میں اس عمل کو پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر لڑکی کی تعلیم کا سلسلہ بوجہ شادی منقطع ہوجائے اور وہ بوجوہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے تو چاہے وہ جتنی اچھی بیوی، بہو یا خاتونِ خانہ ثابت ہوجائے لڑکی اور اس کے گھر والوں کو گاہے بہ گاہے لوگ یہ احساس دلاتے ہی رہتے ہیں کہ لڑکی کی تعلیم ادھوری رہ جانا اس کے ساتھ ظلم ہے۔ چاہے لڑکی کو شوہر کتنا ہی خوش رکھے مگر سماج اسے بھرپور ذہنی پسماندگی کی طرف دھکیلتا ہے کہ تم نامکمل ہو۔ اس لیے والدین بھی مجبور ہیں کہ اس نفسیات کو سمجھیں اور لڑکیوں کو ان کی تعلیم مکمل کرنے دیں۔ آپ کو سماج میں کتنی مثالیں نظر آئیں گی کہ ایک نہیں دو معصوم بچے دادی اور نانیاں سنبھال رہی ہیں اور ان کی مائیں یا تو یونیورسٹی سے اپنی سند کے لیے تعلیم مکمل کررہی ہیں یا ہائوس جاب کررہی ہیں یا ڈے کیئر سینٹر کی تلاش میں ہیں کہ اپنے ’’فیوچر‘‘ کی مزید پلاننگ کرسکیں۔ ضرورت ہے اس نوجوان نسل کو یہ سمجھانے کی بھی کہ ان کی گود میں جو نسل ہے یہ قوم کا اصل مستقبل ہے۔ اسلام کسی کو صلاحیتوں کے استعمال سے نہیں روکتا لیکن ہر وقت اور عمر کے تقاضے سمجھنا بھی حکمت ہیں۔
بظاہر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کو لڑکوں کے برابر ہی اہمیت دی جاتی ہے مگر تقریباً نصف کے لگ بھگ خواتین کا خیال ہے کہ اب بھی لڑکیوں کی تعلیم کو یکساں اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس میں دیگر معاشرتی اور معاشی عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔ کہیں کہیں خاندانی پس منظر بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ بیٹیوں کی مائیں ایک عجیب نفسیاتی کشمکش سے دوچار ہیں۔
دوسرا سروے ان ہی خواتین سے ہم نے اس عنوان سے کیا کہ سماج تیزی سے جس تبدیلی کی جانب بڑھ رہا ہے اس میں ایک بڑی تبدیلی لڑکیوں کے شام کے تعلیمی اداروں اور کوچنگ سینٹرز کا فروغ ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی بھی گھر میں مغرب کے بعد تنہا لڑکی کے گھر سے باہر رہنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس کو معیوب سمجھنا ختم ہورہا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے جاننا چاہا کہ :
٭…شام کی کلاسوں کے بڑھتے ہوئے رجحان میں لڑکیوں کے خطرات ہیں یا نہیں؟
٭…کیا سماج میں لڑکیاں اتنی محفوظ ہیں کہ اس کی جازت دی جاسکے؟
٭…ان بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات؟
اس ضمن میں 55 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ طالبات کے لیے شام کی تعلیم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔ جب کہ 45 فیصد کا خیال تھا کہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تعلیم لازم ہے اوقات کی قید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا لڑکیوں کی مائیں اتنا تحفظ محسوس کرتی ہیں کہ ان کو رات کے اوقات میں گھر سے باہر چھوڑ کر انہیں اندیشے لاحق نہ ہوں تو نوے فیصد خواتین کی رائے تھی کہ ان کو تحفظات ہیں۔ سماج میں لڑکیاں اتنی محفوظ نہیں ہیں کہ والدین پورے شرح صدر کے ساتھ ان کو Evening Classes کی اجازت دے دیں۔ جب کہ دس فیصد کی آراء یہ تھیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لڑکیاں سمجھدار ہوں ، اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرنا جانتی ہوں، نڈر اور بے باک ہوں تو وہ ہر طرح ہر وقت محفوظ ہیں۔
ان شام کے اوقات میں بڑھتی ہوئی مخلوط تعلیمی سرگرمیوں کے سماج کے لیے نقصانات زیادہ ہیں یا فوائد اس ضمن میں 75 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اس کے سماجی نقصانات زیادہ ہیں جب کہ 25 فیصد کی رائے تھی کہ سماج کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
مذکورہ سروے کی روشنی میں بھی وہی اجتماعی نفسیات آپ کے سامنے آتی ہے جو پچھلے سروے کی روشنی میں آپ دیکھ چکے ہیں۔ 45 فیصد خواتین یعنی ہر دوسری رائے یہ ہے کہ لڑکیاں سہ پہر میں گھروں سے نکلیں اور عشاء کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو ان کے خیال میں یہ کوئی قابل فکر بات نہیں ہے۔ یعنی مواقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔ اگر لڑکیوں کو صبح کی کلاسوں میں داخلہ نہ بھی مل سکا ہو تو انہیں بغیر کسی سماجی دبائو کے شام سے رات تک تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہونا چاہئیں۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ یونیورسٹیز کی سطح پر شام کی کلاسوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود ہمارا مشاہدہ ہے کہ جن لڑکیوں کو صبح کی شفٹ میں داخلہ نہیں ملتا وہ بلا کسی جھجک کے شام کی شفٹ کے لیے اپلائی کردیتی ہیں۔ اور یوں مغرب کے بعدتعلیم کے حوالے سے گھروں سے باہر رہنے والی لڑکیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہاں آپ اس فکری کشمکش کو محسوس کیجیے کہ نوے فیصد خواتین کا خیال ہے کہ لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں۔ سماج میں امن وامان اور اخلاقی حوالے سے وہ اطمینان نہیں ہے کہ لڑکیاں سورج ڈھلنے کے بعد گھروں سے باہر ہوں اور گھر والے پریشان نہ ہوں۔ اور 75 فیصد رائے یہ ہے کہ اس طرح لڑکیوں کے گھروں سے باہر رہنے کے نقصانات زیادہ ہیں بہ نسبت حاصل کردہ فوائد ہے۔
آپ دیکھیے کہ ہر دوسری خاتون جو معاشرے کو غیر محفوظ تصور کررہی ہے مگر اپنی بیٹی کو رات میں گھر سے باہر چھوڑنے پر رضامند ہے۔ وہ سماجی نقصانات کو بھی محسوس کررہی ہے پھر بھی مطمئن ہے کہ ڈگری تو ڈگری ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی قربانی دی جاسکتی ہے۔ ہمیں معاشرے میں عملی صورت حال یہی نظر آرہی ہے کہ لڑکیوں کو آگے پڑھنے کی دھن سوار ہے۔ ان کی اپنی ذات کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ سماج کی مجموعی اقدار پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ وہ اپنی کم سمجھی کے باعث یہ سمجھے سے قاصر ہیں۔
والدین ان کی نفسیاتی کیفیت اور ضد دیکھتے ہوئے ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔ اور نتیجتاً چاہے سماج کی اخلاقیات پر ضرب لگے یا والدین بچیوں کی فکر میں گھلتے رہیں مگر لڑکیوں پر ڈگریوں کا حصول اتنا لازم ہوگیا کہ وہ والدین اور سماج کو ہر خطرے سے دوچار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور والدین یہ خطرات برابر مول لے رہے ہیں اور شام کی کلاسز اور کوچنگ کلاسز میں بالخصوص بڑے شہروں میں بتدریج اضافہ نظر آرہا ہے اور معاشرے کے وہ مہذب گھرانے جو اندھیرا ہونے پر لڑکوں کے بھی گھر سے باہر رہنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اب ان کے گھروں کی بیٹیاں بھی گھروں سے باہر ہیں۔ اور ہم اس کو سماجی تبدیلی سمجھ کر قبول کررہے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ جن کی بیٹی ایونگ شفٹ سے ماسٹرز کررہی تھی ان کی بے چینی قابل دید ہوتی تھی۔ کہتی ہیں جو وین لڑکیوں کو لے کر آتی تھی میری بیٹی اس وین کی آخر لڑکی ہوتی تھی۔ باقی سب کے گھر ہم سے قبل آتے تھے اور ہمارا گھر نسبتاً سنسان علاقے سے گزر کر آتا تھا۔ کہتی ہیں جوں جوں اندھیرا بڑھتا جاتا تھا میری بے چینی وحشت میں بدلتی جاتی کہ اے اللہ میری بیٹی کی حفاظت فرما۔ طرح طرح کے اندیشو ں نے مجھے ذہنی مریضہ بنادیا اور اس کے فائنل تک آتے آتے مجھے مجبوراً ڈپریشن کی دوائیں لینا پڑیں۔ مجھے خواب بھی ایسے ڈرائونے نظر آنے لگے میں نے مارے خوف کے اخبار تک پڑھنا چھوڑ دیا کہ قتل اور اغوا کی وارداتیں میرا لہو خشک کردیتی تھیں۔
یہ تو کسی ایک ماں کے احوال ہیں، یہ سماجی تبدیلیاں ہم میں سے کس کو کس طرح متاثر کررہی ہیں یہ سب کچھ ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور محسوس بھی کررہے ہیں۔ ہماری سماجی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
اگلے سروے میں ہم نے سوال کیے کہ
٭…کیا سوشل میڈیا استعمال کیے بغیر آپ کا دن گزر سکتا ہے؟
٭…آپ کے خیال میں سوشل میڈیا کا استعمال تعلیم کے لیے زیادہ ہے یا تفریح کے لیے؟
٭…کیا اس طرح ہم گلوبل ولیج کا حصہ بن رہے ہیں یا تنہائی کا شکار ہورہے ہیں؟
٭…کیا اس میڈیا کے کثرت استعمال سے خود پسندی اور نفسیاتی مسائل جنم نہیں لے رہے؟
بہت دلچسپ صورتحال سامنے آئی، 200 افراد سے کیے گئے اس سروے میں 75 فیصد کا خیال تھا کہ وہ سوشل میڈیا کے بغیر بھی دن گزار سکتی ہیں ۔ جب کہ 25 فیصدکا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ سوال کہ سوشل میڈیا کا استعمال تفریح کے لیے زیادہ ہورہا ہے یا تعلیم کے لیے تو دونوں آراء برابر تھیں۔ یعنی 50 فیصد خواتین کا خیال تھا کہ اس کا استعمال تفریح کے لیے جب کہ نصف کا خیال تھا کہ اس کا استعمال فروغِ تعلیم کے لیے ہے۔ 95 فیصد آراء اس ضمن میں آئیں کہ سوشل میڈیا کا استعمال وقت کا ضیاع ہے۔ جب کہ صرف پانچ فیصد کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ 75 فیصد خواتین کی رائے تھی کہ سوشل میڈیا کے استعمال نے ہمیں گلوبل ولیج کا حصہ بنادیا ہے۔ جب کہ 25 فیصد کی رائے تھی کہ ہم احساس تنہائی کا شکار ہورہے ہیں۔ اس میڈیا کے کثرت استعمال سے خود پسندی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں اس حوالے سے 85 فیصد خواتین کی رائے تھی کہ خود پسندی اور نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں جب کہ 15 فیصد کی رائے تھی کہ ایسا نہیں ہے۔
یہ سروے جو پڑھی لکھی خواتین اور طالبات سے کیا گیا یہاں بھی اجتماعی دانش کی ایک عجیب صورتحال آپ کے سامنے آتی ہے۔ ایک طرف یہ سمجھا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا صرف تفریح کے لیے نہیں ہے بلکہ تعلیم کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ جب کہ دوسری طرف کثرت آراء اس طرف ہیں کہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال خود پسندی اور نفسیاتی مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ لوگ اس پر خوش ہیں کہ وہ اس طرح گلوبل ولیج کا حصہ بن رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار اسی وجہ سے ہورہے ہیں۔ ایک طرف آپ گلوبل ولیج کا حصہ بن گئے دوسری طرف خود پسندی کا شکار نفسیاتی مریض۔ تو کیا کسی گلوبل ولیج میں نفسیاتی مریضوں کے لیے کوئی جگہ ہوگی؟ خواتین کی اکثریت نے تسلیم کیا کہ احساس تنہائی بڑھا رہا ہے اس حوالے سے۔ خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی شرح بھی ہمارے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہم اپنی نسلوں کو کیوں تنہائی کے غاروں میں دھکیل رہے ہیں؟ کسی بھی چیز کا مضرر رساں استعمال یقینا انفرادی واجتماعی حوالوں سے صحت مند علامت قرار نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا اس سروے کی روشنی میں اپنی اور اپنی نسلوں کی بقا ہماری توجہ کی مستحق ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے بچائیں اور ایک صحت مند قوم کی تعمیر میں ہم میں سے ہر ایک اپنا فرض پہنچانے اور ذمہ داری نبھائے۔

حصہ