افروز عنایت
اپنے بڑوں سے یہ سنتے آرہے تھے کہ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت پلنے والے بچے زیادہ پُراعتماد، بااخلاق اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں خاندان میں رہنے والے ہر فرد کی شمولیت ہوتی تھی، یعنی ہر ایک اپنا اپنا کردار بخوبی انجام دیتا تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف وہ گھرانہ پُرامن اور خوشگوار ماحول میں زندگی گزارتا تھا بلکہ بچوں کی بہترین تربیت بھی ہوجاتی تھی۔ دادا، دادی، چاچا، پھوپھیاں، ماں باپ سب کا حصہ شامل ہوتا تھا۔ اگر چچا یا دادی وغیرہ بچوں کو کسی بدتمیزی پر سمجھاتے یا ڈانٹتے تو ماں باپ برا نہ مانتے، بلکہ فخر محسوس کرتے کہ ہمارے بچوں کو اپنا پن حاصل ہے، سب ان کی بھلائی چاہتے ہیں، جب گھر کے افراد بچوں کو پیار و محبت دے رہے ہیں تو یقینا اُن کا یہ حق بھی بنتا ہے کہ وہ ان کی اصلاح کریں۔ اس طرح بچوں کو بھی یہ بات ذہن نشین ہوجاتی کہ یہ ’’سب‘‘ ہمارے اپنے ہیں اسی لیے والدین کے ساتھ ساتھ یہ سب ہمارا خیال رکھ رہے ہیں۔ بچوں کے دل میں ’’اپنے گھر والوں‘‘ کے لیے احترام، ادب اور لحاظ ہوتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چلتے۔ خاندان کے بزرگوں کا ادب و احترام اور ان کی خصوصی دیکھ بھال دیکھتے تو خود بھی وہی کرتے۔
یہ ہم بہن بھائیوں کی خوش نصیبی تھی کہ ہمیں دادا کی صحبت نصیب ہوئی۔ اماں بابا کو دادا کا ادب و احترام اور ان کی خدمت کرتے دیکھا، اور ہمیں بھی اماں اور بابا نے یہی حکم دیا۔ دادا گھر میں ہوتے تو ہمیں زور سے بولنے یا زور سے قہقہے لگانے کی اجازت نہ ہوتی۔ دادا کی عیدی تو ہم آج تک نہیں بھولے۔ جب عید کے دن وہ سب کو اپنے سامنے بلاکر ایک ایک روپیہ ہمارے ہاتھ میں رکھتے تو اماں ہمیں کہتیں ’’یہ بڑی ’’برکت والی‘‘ عیدی ہے کہ اس میں تمہارے دادا کی محبت شامل ہے‘‘۔ اور بارہا اماں نے ہمیں کہا ہوگا کہ تم لوگ خوش نصیب ہو کہ بزرگوں کی صحبت اور نگرانی میں پرورش پارہے ہو۔ وقتاً فوقتاً دادا کی ڈانٹ بھی پڑتی تو اماں اس بات کو سراہتیں کہ میرے بچوں کو دادا کی تربیت بھی حاصل ہے۔ یہی نہیں مرحومہ دادی جو اماں کی پیدائش سے کافی سال پہلے وفات پاچکی تھیں اُن کی تعریف بھی سنہری الفاظ میں کرتیں کہ وہ نام کی ہی ’’سردار‘‘ نہیں تھیں بلکہ وہ واقعی چھوٹی عمر میں اس خاندان کی سردار تھیں جو اُس زمانے میں بھی پڑھی لکھی اور اسکول میں استانی تھیں، میری بچیاں اپنی دادی پر گئی ہیں جنہوں نے اپنی دادی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درس و تدریس کا شعبہ اپنایا ہے۔ اماں کے انہی الفاظ کی وجہ سے ہم دادی کی غائبانہ شخصیت سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی مغفرت کے لیے دعاگو بھی رہے۔
پاکستان میں آج بھی مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے، لیکن ایسا ماحول اور رویّے بہت کم نظر آتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں ددھیال والوں کی محبت اور تربیت حاصل ہو۔ مجھے ایک بچی نے بتایا کہ اگرچہ سسرال کا ماحول زیادہ خوشگوار نہیں، لیکن ایک بات سے میں بہت مطمئن اور خوش ہوں کہ میرے بچوں کو دادا، دادی کی صحبت، محبت اور تربیت حاصل ہے جس کے لیے میں زندگی بھر ترستی رہی۔
ماں باپ کو اولاد کی اس طرح تربیت کرنی چاہیے کہ اپنے بزرگوں کی محبت اور احترام اُن کے دلوں میں قائم رہے، بچوں کے سامنے ان بزرگوں کی برائی یا غیبت سے پرہیز کرنا چاہیے، اگر خدانخواستہ اختلافات بھی ہوں تو بچوں کے سامنے ان اختلافات کو بیان کرنے سے گریز کرنا لازمی ہے۔ چند دن پہلے ایک محفل میں میرے نزدیک دو خواتین جو آپس میں سمدھن تھیں، بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک دس سالہ بچی آئی اور ہنستی ہوئی ہاتھ ملانے کے لیے ان دونوں کی طرف بڑھی۔ بچی کی دادی نے خوشی سے آگے ہاتھ بڑھایا لیکن فوراً پیچھے کرلیا کیونکہ وہ بچی نانی سے گلے مل کر ہاتھ ملاکر فوراً پلٹ گئی۔ بعد میں بچی کی دادی نے بڑے افسردہ لہجے میں کہا کہ بیشک میری بہو اور میرے درمیان کچھ زیادہ خوشگوار تعلقات نہیں، لیکن میں ’’ان بچوں‘‘ سے بہت محبت کرتی ہوں، انہیں ویک اینڈ پر اپنے گھر بھی بلانا چاہتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں ہم سے بے تعلق رہتے ہیں! ان خاتون کی بات سن کر بے اختیار مجھے ایک خاتون اور اُن کے بچے یاد آگئے۔ اُن خاتون کے ساتھ سسرال کا رویہ انتہائی تلخ اور دردناک رہا، بے سروسامانی کی حالت میں گھر سے نکال دیا، جبکہ اُس وقت نہ شوہر کی ملازمت تھی اور نہ چھت۔ جیسے تیسے کرکے انہوں نے اپنے حالات سنوارے، لیکن ان خاتون نے اپنے بچوں کے سامنے کبھی سسرال والوں کی برائی نہ کی بلکہ انہیں ان رشتوں کا احترام اور صلۂ رحمی کی تلقین کرتی رہیں، جس کی وجہ سے بچوں کے دل میں بھی ددھیال والوں کے لیے برائی یا نفرت پیدا نہیں ہوئی۔ اب جب بچے جوان ہوچکے ہیں تو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بے شک ہماری والدہ کے ساتھ بہت زیادتی اور ناانصافی ہوئی جس کا ہمیں احساس بھی ہے، لیکن ہمیں اپنی اس ’’عظیم ماں‘‘ کی تربیت بھی حاصل ہے، اس تربیت کی وجہ سے ہمیں اپنے ددھیالی رشتوں کا لحاظ و احترام ہے، جس پر ہم قائم رہیں گے۔
اسی طرح ایک خاتون نے جن کی بچی جماعت ہشتم کی طالبہ تھی، ایک مرتبہ رو کر بتایا کہ میری بیٹی بڑی خودسر اور بدتمیز ہوگئی ہے، میرا بالکل کہنا نہیں مانتی، ہمیشہ دادی اور پھوپھی کے کمرے میں گھسی رہتی ہے۔ ان کے بے جا لاڈ پیار اور طرف داری کی وجہ سے وہ مجھے اپنا دشمن سمجھنے لگی ہے، دادی اسے میرے خلاف بھڑکاتی ہیں، میں بہت پریشان ہوں۔ مذکورہ بالا رویہ چاہے ماں باپ کا ہو یا دادا دادی وغیرہ کا، بچے کی تربیت میں منفی رویوں کو جنم دیتا ہے، بچے رشتوں کا تقدس فراموش کردیتے ہیں۔ آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں، بچوں کے سامنے تذکرہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہی بچے پھر بڑے ہوکر اپنے بڑوں سے بدگمان ہوجاتے ہیں، ان کے دل میں بزرگوں کا ادب و احترام نہیں رہتا۔ بچوں کی اصلاح کے لیے مثبت رویوں کا ہونا لازمی ہے، جیسا کہ میں نے اوپر ایک واقعے میں بیان کیا ہے۔
آخر میں صرف یہی کہوں گی کہ بڑے خوش نصیب ہیں وہ بچے جنہیں بزرگوں کی توجہ، محبت اور تربیت حاصل ہو۔ کہاوت ہے کہ جو بویا وہی کاٹا۔ آج اگر ہم اپنے بچوں کی صحیح طرح تربیت اور رہنمائی کریں گے تو کل جب ہم بزرگ بنیں گے تو یہی بچے ہمیں عزت اور مان دیں گے۔