وفا نہیں جن کو اپنے رب سے

347

قدسیہ ملک
ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت سے مشاہدات کرتے ہیں۔ کوئی مشاہدہ ہمارے تجربے کی مرہونِ منت ہوتا ہے تو کوئی مشاہدہ ہمارے تجزیے اور افعال کی وجہ سے ان مٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ بچے کا دنیا میں آنے کے بعد پہلا مشاہدہ اس کا بھوک لگنا ہے جس کے باعث وہ روتا و بلکتا ہے۔ کچھ مشاہدات اور تجربات ایسے ہوتے ہیں جو انسانی ذہن کے لاشعور میں چلے جاتے ہیں۔ کبھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محو ہوجاتے ہیں، یا پھر بہت عرصے بعد اسی طرح کے کسی تجربے سے وہ لاشعور میں بسے ہوئے پرانے مشاہدات، واپس ذہن میں شعور کی جانب جگہ پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی خاص شے سے بچپن کی کچھ پرانی یادیں وابستہ ہوتی ہیں جو اس خاص شے کے سامنے آتے ہی ہمیں یاد آجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاندان کو دیکھ کر ہمیں اپنے بچپن میں دادی کے ہاتھوں کے بنے ہوئے پان یاد آجاتے ہیں، جن میں پان کے اندر وہ کھوپرا، چینی،کتھا، الائچی ڈال کر اوپر سے لونگ سے بڑی خوبصورتی و نفاست سے لپیٹ کر ہمارے حوالے کرتی تھیں۔ آج بھی اگر کوئی بزرگ خاتون پاندان سے پان بناکر کھا رہی ہوتی ہیں تو ہمیں بچپن میں دادی کے پان یاد آجاتے ہیں۔
انسان کی یادداشت قدرت کی ایک ایسی بیش بہا نعمت ہے کہ جس نے آج کے دور میں بھی کمپیوٹر، سافٹ ویئر اور مشینی دنیا کے تمام آلات کو مات دے رکھی ہے۔ بعض سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ ایک انسان اپنی پوری زندگی میں اپنے دماغ کا فقط ایک یا دو فیصد حصہ استعمال کرپاتا ہے۔ مشہور ذہین آدمی آئن اسٹائن نے بھی اپنی زندگی میں اپنے دماغ کا فقط 11 فیصد حصہ استعمال کیا تھا۔ لیکن بعض سائنس دانوں کے نزدیک آئن اسٹائن نے اپنے دماغ کا سو فیصد حصہ استعمال کیا۔ حقیقت کچھ بھی ہو، انسانی دماغ قدرت کی بیش بہا قیمتی و قدرتی عنایات میں سے ایک ایسی نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
دماغ کے سلسلے میں ایک تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نئی چیزیں پڑھنے سے دماغ کی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اردو ڈائجسٹ کے مطابق انسانی جسم کے کئی عجائبات جاننے کے باوجود آج بھی سائنس دان دماغ کے تمام اسرار نہیں جان سکے ہیں۔ 100ارب عصبی خلیوں کی موجودگی میں جب ہم کوئی بات یاد کرنے کی سعی کرتے ہیں تو ہمارے احکامات دماغ میں 5 تا 120 میٹر فی گھنٹہ کی شرح سے دوڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کا وزن صرف 3 پونڈ ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے محققوں کی 2011ء کی تحقیق کے مطابق انسان جب انٹرنیٹ استعمال کرے تو سوچ بچار پہ کم اور یادداشت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ یہ امر دماغ کو کمزور کرتا ہے اور انسان زیادہ تر باتیں بھولنے لگتاہے۔ وزن کے لحاظ سے مردوں کا دماغ خواتین کے دماغ کی نسبت 10 فیصد زیادہ بھاری ہوتا ہے، جس کے سبب مرد اس قابل ہوجاتے ہیں کہ جسمانی کام زیادہ بہتر انداز سے سرانجام دے سکیں۔
یہ تو تھی دماغ سے متعلق آگہی اور کچھ مفید معلومات جو میں نے آپ کے ساتھ شیئر کیں۔ اب چلتے ہیں 20 اکتوبر کے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے محمود عالم صدیقی کے حاصل مطالعہ کی جانب، جو یقینا ہم میں سے بہت سے لوگوں کی نظروں سے گزرا بھی ہوگا۔ اس کے راوی محمد عالم خان ہیں۔ اور یہ تحریر ہفت روزہ ایشیا 4 تا 10 اگست 2016ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ واقعہ بہت بڑا ہے جسے یہاں اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
واقعہ 1973ء کا ہے جب روس میں کمیونزم کا بول بالا تھا۔ بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ اب پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا۔ اس وقت ماسکو میں تمام مساجد کو سرکاری طور پر گوداموں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ ایک دو مساجد کو سیاحوں کے لیے قیام گاہوں میں تبدیل کردیا گیا تھا، صرف دو ہی مساجد اس پورے ماسکو میں بچی تھیں جو کبھی بند اور کبھی کھلی ملتی تھیں۔ میں پاکستان سے ماسکو گیا تھا اس لیے جمعہ کے روز ایک مسجد کی چابی طلب کی جو پڑوس کے مسلمان گھر سے مل گئی۔ راوی کہتے ہیں: میں دروازہ کھول کر اندر گیا تو مسجد کا ماحول بہت خراب نظر آیا۔ میں نے بلند آواز سے اذان دی۔ اذان کی آواز سن کر بوڑھے، بچے، جوان، مرد، عورتیں سب مسجد کے دروازے پر جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو دعوت دی۔ لیکن اندر کسی نے قدم نہیں رکھا۔ خیر راوی نمازِ ظہر کے بعد واپس آنے لگے تو ایک بچہ راوی کے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے ہاں چائے پینے آئیں۔ جب میں ان کے ہاں گیا تو انہوں نے خوب خاطر مدارات و آؤ بھگت کی۔ راوی نے اپنی جیب سے قرآن کا نسخہ نکالا اور بچے سے پڑھ کر سنانے کو کہا۔ راوی کے بقول بچہ ان الفاظ کو انجان نظروں سے دیکھتا۔ کبھی اپنے والدین کو دیکھتا، کبھی راوی کو۔ خیر اسی اثناء میں راوی نے خود سے کلام پاک پر انگلی رکھ کر آیت شروع ہی کی تھی کہ بچہ فرفر سنانے لگا۔ راوی کے نزدیک یہ ایک حیرت انگیز بات تھی، انہوں نے گھر والوں سے استفسار کیا، پتا چلا کہ ان لوگوں کے پاس قرآن موجود نہیں ہے، کیونکہ کسی کے گھر سے قرآن پاک کا ٹکڑا بھی مل جائے تو تمام گھر والوں کو پھانسی کی سزا دی جاتی تھی۔ اس لیے وہ لوگ گھر میں قرآن پاک نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنے بچوں کو ایسے لوگوں کے پاس بھیج دیتے جو بظاہر موچی، درزی، سبزی فروش اور کسان کا کام کررہے ہوتے تھے اور حفاظ بھی تھے۔ والدین بچوں کو مزدوری کے بہانے بھیج دیتے اور وہ انہیں قرآن پاک حفظ کروا دیتے۔ قرآن کا نسخہ نہ ہونے کے باوجود اس محلے کے تقریباً تمام بچے حفاظ تھے۔ اس پر راوی کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے قرآن رکھنے پر تو پابندی لگادی لیکن جو سینوں میں محفوظ ہے بلاشبہ اس پر پابندی نہ لگا سکے۔ تب راوی کو اللہ پاک کے اس ارشاد کے مطلب کا احساس ہوا کہ ’’بے شک یہ ذکر(قرآن) ہم نے نازل کیا، بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھر ے گا جتنا کہ دبادو گے
آج عالمی دہشت گردی کو مسلمانوں اور اسلام سے منسوب کرنا عالمی ایجنڈا بن چکا ہے۔ چین جو پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہونے کا دعویدار ہے اُس کے صوبے سنکیانگ میں مساجد، قرآن، داڑھی اور پردے پر بالکل ایسی ہی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر، عالمی استعماری ایجنڈے کے شکنجے میں سب منہ سے پیر تک جکڑے ہوئے ہیں۔
تجھے خبر ہے مسلمان جہاں ہے تیرا وجود
تُلے ہوئے ہیں مٹانے کو آج سب نمرود
وہ مجوسی و نصاریٰ ہوں یا یہود و ہنود
ہر ایک کا تُو ہی نشانہ ہے قم باذن اللہ
حال ہی میں سعودی عرب کی تمام جامعات سے اخوان المسلمون سے دلی انسیت و محبت رکھنے کے الزام میں دو سو کے قریب پروفیسر و لیکچرار نکالے جاچکے ہیں۔ پاکستان کی جامعات کے حال سے کون واقف نہیں! سیکولر، بے دین اساتذہ کی بھرتی اور تمام محبِ اسلام و محب وطن اساتذہ کی گرفتاریوں اور ملازمت سے بے دخلی کی آئے روز کی دھمکیوں سے سب واقف ہیں۔ اساتذہ کے قتل کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان میں آئے روز گمشدہ افراد کی تعداد میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔ پہلے اس کا دائرہ بلوچستان، وزیرستان اور وانا تک تھا لیکن عافیہ صدیقی کی پراسرار گمشدگی سے لے کر آج تک جتنے افراد گمشدہ کردیئے گئے ہیں وہ نہ کسی عدالتی ٹریبونل کے حوالے کیے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی جیل میں ان کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے۔ لیکن چند ماہ بعد پولیس مقابلے میں بے دردی سے مار دیئے جانے والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بہت سے راز کھول رہی ہوتی ہیں۔ اللہ سب کے پیاروں کی حفاظت فرمائے۔ ترقی یافتہ ممالک جن میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو اوّلین اہمیت دی جاتی تھی، آج مسلم دشمنی پر کمربستہ ہیں۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک نے خود حجاب پر پابندیاں عائد کرکے برما جیسے ترقی پذیر ملک کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم جو کچھ کررہے ہو وہ ٹھیک ہے۔کیا اسلامی دہشت گردی کا نعرہ بلند کرنے والے، اس بدھسٹ دہشت گردی کے خلاف کبھی آواز بلند کرسکیں گے؟
ترک صدر رجب طیب اردوان اپنی قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’عالمی ادارے بالخصوص اقوام متحدہ مظلوم و ناحق قتل ہوتے معصوموں کو حق دلوانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ہماری درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں برما کے مسلمانوں کے لیے جو سیشن رکھا گیا اُس میں صرف ایران کے صدر، پاکستان کے وزیراعظم، بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے شرکت کی، اس کے علاوہ انڈونیشیا کے صدر نے بھی شرکت کی۔ باقی تمام ممالک کی شرکت صرف اقوام متحدہ میں اپنے منتخب نمائندوں تک محدود تھی۔ برما کے مسلمانوں کی مدد کون کرے گا؟ ہزاروں لوگ مرے ہیں، چھ لاکھ لوگ بنگلہ دیش میں مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہم آئے روز ان تمام لوگوں کو دریا پار کرتے زندگی اور موت سے لڑتے دیکھتے ہیں۔ سب یہ کہتے ہیں ہم میانمر میں ہونے والے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ کیا صرف یہی کہنا کافی ہے؟ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتی؟کیا یہ صاف اور واضح قتل عام نہیں؟ میں آپ کو یہ بات واضح کردوں کہ یہ قتلِ عام ہے۔ جو لوگ اسلامی دہشت گردی کی بات کرتے ہیں،کیا وہ کبھی اس عیسائی دہشت گردی پر بات کریں گے، کبھی صہیونی دہشت گردی پر بات کریں گے، کبھی بدھسٹ دہشت گردی کی بات کریں گے؟ کبھی نہیں۔ وہ ہمیشہ بدھا کو ایک اچھے اخلاق والا پیامبر ثابت کریں گے۔ لیکن ہم میانمر میں اپنی آنکھوں سے واضح طور پر بدھسٹ دہشت گردی کو دیکھ رہے ہیں۔ اب وہ لوگ مجھے تنقید کا نشانہ بنائیں گے تو انہیں یہ کام کرنے دیجیے۔‘‘
اس دنیا میں سب کے حقوق موجود ہیں، اگر موجود نہیں تو صرف مسلمان کے حقوق موجود نہیں۔ اس لیے مسلمان اپنے حقوق کے لیے خود ہی پشتی بان بن سکتے ہیں۔ دماغ سے کام کیجیے۔ مسلمانوں کے اندر بہت طاقت ہوتی ہے۔ اسلام کی طاقت، قرآن کی طاقت، رب کی خوشنودی کی طاقت، اطاعت کی طاقت، رب سے وفا کی طاقت… جب ہم اپنے رب سے وفا کریں گے تو یہ دنیا اور اس میں رہنے والے تمام جن و انس ہم سے وفا کریں گے۔ یہ وقت ہے بیداری کا۔ لوگوں میں بیداری کا عنصر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا دورِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
حق نے کی ہیں دہری دہری خدمتیں تیرے سپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے

حصہ