آج اور کل

386

مریم فیصل
میرے آج میں باقی نہیں اتنی سی بھی مروت
میرے کل نے میرے آج کو ڈبو دیا
کسی انتہائی بدذوق شاعر کا شعر لگتا ہے۔ بلکہ بدذوق نہیں، کسی تلخ شاعر کا۔ لیکن ذرا اس شاعر کے شعر میں غوطہ مار کر تو دیکھیں، اس شعر کی گہرائی میں ڈوب کر تو دیکھیں، اس تخلیق کار کی تخلیق کے پیچھے وجہ تو تلاشیں…
ایسا کیا ہے اس شاعر کے کل میں جو آج اُسے رنجیدہ کررہا ہے! یا پھر وہ کل صرف اس شاعر کا ہی نہیں بلکہ اس کے مخاطبوں کا کل ہے! شاید نہیں یقینا ایسا ہی ہے۔ یہ ہمارا کل ہی ہے جو آج بے سکونی بن کر ہمارے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔
کل تھیں گھر گھر جو رونقیں
کل تھیں گھر گھر جو راحتیں
آج میسر نہیں وہ چاہتیں
آج زندہ نہیں وہ محبتیں
کسی کہنے والے نے کتنا سچ کہا ہے، ماضی کے دریچوں کو یوں سمجھیں کہ کھول کر رکھ دیا ہے۔ ماضی سے جھانکتی وہ دادا دادی کی تصویریں، وہ پھوپھو اور خالائوں کا پیار، وہ بچپن کی لڑائیاں، وہ کاغذ کی کشتیاں، یہ سب تصویریں یکدم دل و دماغ پر حاوی ہوگئیں۔ لیکن یہ کیا! یہ حال کی رنجشیں، یہ حال کی کدورتیں اور حال کی مصروفیات… انہوں نے تو اس در کو بند ہی کردیا۔ آج کی نسل دادا دادی کی گود نہیں چاہتی، یہ نسل خالائوں کے لمس کی متلاشی نہیں ہے۔ انہیں تو دوستوں کے ساتھ ہینگ آئوٹ (Hang Out) کرنا ہے، انہیں تو موبائل اور آئی فونز (i-phones)چاہیے۔
لیپ ٹاپ دلا دیں، ٹیب دلا دیں
اماں بابا! ایک موبائل ہی دلا دیں
اور ماضی سے جھلکتی وہ تصویریں زمین بوس ہوگئیں، پیار واٹس ایپ (Whatt’s app) کی نذر ہوگیا۔ وہ بچپن کی لڑائیاں، کدورتیں بن کر دل کے میموری کارڈ میں save ہوگئیں۔ اور وہ کاغذ کی کشتیاں ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔ گویا آج کی مصروفیات اور ایجادات نے آج کے، کل کے اور آنے والے کل کے سب رشتوں کو برائے نام کردیا۔
میرے رشتوں کو میرے احساس کی ضرورت ہے
میرے دوستوں کو میرے وقت کی ضرورت ہے
تیری ایجادات نے میرے وقت کو مجھ سے چھین لیا
میرے احساس کو، میرے جذبات کو LCDکی نذر کردیا
میرا آج بے سکون، چڑچڑا اور بے ربط ہے۔ میرے کل میں جو نظم و ضبط تھا، میرے کل میں جو سکون اور محبت تھی وہ میرے آج میں نہیں ہے۔ کل جو جوان جوش و جذبے سے بڑھے، کل جو بچے کچھ کرنے کی لگن لیے ہوئے تھے، وہ لگن آج ناپید ہے۔ کل جو قوم محبِ وطن تھی وہ آج جذبات سے عاری ہیں۔
آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی نے سب کچھ سکھا دیا۔ عورتوں کو، بچوں کو، جوانوں کو، بوڑھوں کو غرض سب کو ’’دنیا داری‘‘ سکھا دی۔ ’’زندگی‘‘ گزارنے کا ڈھنگ سکھا دیا۔ لیکن زندگی ’’جینے‘‘ کا گُر بھلا دیا۔ رشتے نبھانے بھلا دیے۔
دل ٹوٹے ہیں، دل اداس ہیں
نہ رشتے ہیں نہ وقت پاس ہے

حصہ