مدیحہ صدیقی
زندگی کی حقیقت کو جانا تو ہے
پر میں کمزور تھا ٹوٹ کر گر گیا
بجلیوں کے مقابل کھڑا تھا شجر
بس ہوا جو چلی ٹوٹ کر گر گیا
تھا بلندی پر جانے کا تم کو جنوں
چند لمحوں میں حوصلہ ٹوٹ کر گر گیا
جب بہاروں کی امید دھندلا گئی
بیچ رستے میں دل ٹوٹ کر گر گیا
ہاں بہت ناز تھا اپنی تقریر پر
ڈھیر الفاظ کا ٹوٹ کر گر گیا
٭٭٭