نئے شاعر… شمائلہ بہزاد

347

اسامہ امیر
نوجوان نسل کی خوب صورت لب و لہجے کی شاعرہ شمائلہ بہزاد 13 فروری 1987ء کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں، آپ نے شاعری کا آغاز 2009ء میں کیا، آپ کی شاعری کا اولین محرک مطالعہ بنا جو کہ خاصا خوش آئند بھی ہے، آپ کے پسندیدہ شعرا میں غالب، ن۔ م۔ راشد، جون ایلیا، احمد فراز، ناصر کاظمی، ثروت حسین، رئیس فروغ، احمد مشتاق، افتخار عارف، خورشید طلب، پروین شاکر، بہزاد برہم، عاطف توقیر، فریحہ نقوی، نیلوفر افضل شامل ہیں۔ آپ کی پسندیدہ صنف غزل اور آزاد نظم ہے، مگر نظم سے زیادہ متاثر ہیں اور نظم کو ترجیح بھی زیادہ دیتی ہیں۔ آپ نظم کے ساتھ ساتھ غزل کو اپنے ڈھنگ سے پیش کرنے کے ہنر سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ آپ کے اشعار جدید حساسیت کے آئنہ دار ہیں۔ آئیے چلتے ہیں مختصر انتخاب کی طرف:
زندگی تھک گئی بدن پہنے
کب تلک دوڑتی تھکن پہنے
٭
تکلف اور بناوٹ کو خدارا چھوڑئیے صاحب
تواضع حد سے بڑھ جائے تو چائے کیا مزہ دے گی
٭
سب مکیں تالا لگا کے چل دیے
ایک سایا تھا جو گھر میں رہ گیا
٭
مر جاتے تو اچھا ہوتا
اک دعویٰ تو سچا ہوتا
٭
مجھے عجب سا گماں ہے مجھ سا کوئی نہیں ہے
جو ہو تو لائو کہاں ہے مجھ سا، کوئی نہیں ہے!
٭
تم نے دیکھا ہے کبھی بارش میں جنگل بھیگتا
کس قدر شفاف ہوجاتی ہے ناں آب و ہوا
٭
تر و تازہ ہوئی مٹی مری بس ایک لمحے میں
ہنر اب آزمائو اور کرو کوزہ گری صاحب!
٭
خواب کی کشتی ادھار مانگ کے
نیند کے دریا کو پار کر لیا
٭
ایک سچی مسکراہٹ کے لیے
خود تراشے زندگی کے ہونٹ بھی
٭
دستِ طلب اٹھا تو کوئی پھول آ گرا
کاسہ مرے وجود کا مہکا ہوا سا ہے
٭
نیم وا آنکھوں سے مجھ کو دیکھ کر
گل ہوا جاتا ہے اک بوڑھا چراغ
٭
یہ نام میں تسبیح کے دانوں پہ پڑھوں گی
کہ اس سے مری آبرو منسوب ہوئی ہے
٭
سفر گماں ہے راستہ خیال ہے
چلو گے میرے ساتھ کیا خیال ہے
٭
دھواں ہوا میں اڑ گیا شمائلہ
سخن ترا بجھا ہوا خیال ہے

حصہ