نیا عزم

294

شاد بی بی
’’صبا، صبا… صبا!‘‘ خالدہ کی مسلسل آوازوں پر بھی صبا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ ’’صبا دیکھو اٹھ جائو، وین نکل جائے گی‘‘۔ لیکن صبا پر امی کی آوازوں کا کچھ اثر نہ ہوا، وہ اطمینان سے اٹھی اور بڑبڑاتے ہوئے چادر ہٹائی اور تیار ہونے لگی۔
صبا کالج میں پڑھنے والی بہت ذہین لڑکی تھی۔ پیپر والے دن جب وہ کالج پہنچی تو کلاس کی جانب بڑھتے ہوئے وہ اسی فکر میں تھی کہ اتنے سارے اسائنمنٹ ہیں کس کو ترجیح دوں، کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ اتنے میں پیچھے سے ’’صبا، صبا‘‘ کی آواز آئی۔ صبا نے مڑ کر دیکھا تو مہرین تھی۔ صبا اس کی طرف بڑھی اور کہا ’’السلام علیکم، کیسی ہو مہرین؟‘‘
’’ٹھیک ہوں، لیکن ذرا سی پریشانی میں ہوں۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا، خیریت؟‘‘
’’ہاں یار خیریت ہے، بس سر نے آزادیٔ پاکستان پر جو اسائنمنٹ بنانے کو دیا ہے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔‘‘
’’میں خود اسی پریشانی کا شکار ہوں، مجھے بھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے ستّر سال ہوگئے ہیں اور اس کی باتیں آج ہم سے لکھوا رہے ہیں۔ چلو چھوڑو، کینٹین چلتے ہیں۔‘‘ صبا بولی۔
’’آج پھر دیر ہوگئی کالج آنے میں، صبا جلدی سے بھاگو کلاس شروع ہوجائے گی، ایک تو اسائنمنٹ کی ٹینشن، اوپر سے روز دیر سے پہنچنا۔‘‘ صبا بڑبڑاتے ہوئے کلاس میں پہنچی… ارے، یہ کیا! کلاس میں تو کوئی بھی نہیں۔ سب کہاں چلے گئے، اور یہ کرسی پر کون سر جھکا کر بیٹھا ہے! جب صبا نے قریب جاکر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ’’قا…قا… قائداعظم آ… آپ یہاں کیسے…؟‘‘ صبا کی حالت ایسی ہوگئی جیسے اس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ تھوڑا ہوش میں آکر پوچھا ’’قائداعظم آپ یہاں کیسے؟ اور آپ اتنے غمگین کیوں ہے؟‘‘ صبا کو معلوم تھا کہ قائداعظم تو اس دنیا میں موجود نہیں، پھر یہ میرے سامنے کس طرح آگئے؟ لیکن صبا نے ان سے سوال کیا ’’آپ کو کیا ہوا ہے؟‘‘
قائداعظم سر جھکا کر بیٹھے تھے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے۔ صبا بھی پریشان ہوگئی اور کہنے لگی ’’آپ مجھے بتایئے تو…‘‘
قائداعظم نے کہا ’’صبا میں تم سے ایک بات پوچھوں؟‘‘
صبا نے کہا ’’جی ضرور پوچھیے۔‘‘
’’قائداعظم نے کہا ’’اگر تم کسی چیز کے لیے اپنی جان کھپا دو، اپنی زندگی اس پر لٹادو، اور اگر وہ کسی کے ہاتھ میں جاکر خراب ہوجائے تو تم کیا کرو گی؟‘‘
صبا نے کہا ’’مجھے بہت غصہ آئے گا… جس چیز کی خاطر میں اپنی جان کھپا دوں، محنت کروں، میں کیسے چاہوں گی کہ کوئی اسے خراب کردے!‘‘
قائداعظم نے کہا ’’اسی طرح یہ پاکستان میں نے اور میرے کچھ عظیم ساتھیوں نے مل کر بہت محنت اور جدوجہد کرکے، مشکلات کا سامنا کرکے اپنے دشمنوں سے چھینا ہے۔ اس پاکستان کی خاطر کتنے بوڑھوں اور نوجوانوں نے قربانیاں دیں، کتنی بہنوں، بیٹیوں کی عزت پامال ہوئی، لیکن آج اس سرزمین کی حالت غیر ہے۔ جس مقصد کے حصول کے لیے یہ سرزمین ہم نے حاصل کی تھی وہ بیج تو اس گلشن میں موجود ہی نہیں ہے۔ میں اور میرے ساتھی آج کل کے حالات دیکھ کر بہت پریشان ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل کن مستیوں میں مگن ہے، انہیں اپنے پاکستان کی ذرا قدر نہیں ہے۔ انہوں نے اس پاکستان کے دو ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔ سیاست اور اس جیسے مزید فتنوں نے اس کو کھوکھلا کردیا۔ بڑی خواہش ہے ہماری کہ نوجوان نسل کو اس پاکستان کی اہمیت کا پتا چلے کہ وہ کس نعمت سے سرفراز ہے، انہیں اپنے پاکستان کی ترقی کے لیے محنت اور جدوجہد کرنی چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ایک مسلم مملکت میں رہتے ہیں، انہیں تمام فرقہ بندیوں کو ختم کردینا چاہیے۔‘‘
صبا ان باتوں کو سن رہی تھی، وہ اپنی باتوں پر شرمندہ تھی اور دل میں ایک عزم کرلیا تھا کہ ان شاء اللہ اب میں اپنے پاکستان کی قدر کروں گی اور قائداعظم کے فرمان کے مطابق اس کی ترقی اور بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گی۔
ہر ایک لمحہ اس کی خاطر کام کرنا ہے
دنیا میں اب روشن اس کا نام کرنا ہے
اتنے میں صبا کے کانوں میں آواز آئی ’’صبا بیٹا بس اٹھ جائو، نیند پوری ہوگئی، وین پھر سے نکل جائے گی۔ جلدی سے اٹھ جائو۔‘‘ صبا فوراً جاگی اور اپنے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے نئے عزم کے ساتھ کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگی۔

٭٭٭

حصہ