آئینہ

433

مدیحہ مدثر
ایک انتہائی اہم چیز ہے آئینہ، جو ہماری زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دراصل آئینے کا کام ہے ہمارا اپنا آپ ہمارے سامنے کھول کر رکھنا۔ اب وہ ظاہری ہو یا باطنی، آئینہ تو آئینہ ہے۔ جس قدر ہم اسے دیکھیں گے اسی قدر یہ ہمارا اصل چہرہ ہمارے سامنے کھولتا چلا جائے گا۔ آئینے سے ہم اپنا ظاہری بناؤ سنگھار بھی کرسکتے ہیں، اور یہی وہ کام ہے جو شاید ہمیں سب سے زیادہ پسند ہے، اور آئینے کا استعمال بھی اسی کام کے لیے سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ صبح اُٹھیں تو سب سے پہلے آئینہ، کالج، اسکول، آفس کہیں بھی جانا ہو تو آئینہ دیکھے بِنا جانا ناممکن ہے۔ کسی تقریب میں جانا ہو تو گھنٹوں آئینہ ہمارے سامنے رہتا ہے۔ پھر بھی بار بار جہاں آئینہ مل جائے، بناؤ سنگھار وہیں شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اکثر خواتین کے پرس میں اور مرد حضرات کی جیب میں بھی موجود ہوتا ہے کہ جب موقع ملا، نکالا اور اپنا آپ دیکھنا شروع کردیا۔ لیکن یہ تو صرف ظاہری کام ہے آئینے کا، جو ہم بڑے شوق سے بلکہ زندگی کے لازمی جزوکے طور پر کرتے ہیں۔ اگر آئینہ نہ ملے تو کسی سے ملنے کا دل ہی نہیں چاہتا کہ نجانے چہرہ ابھی کیسا ہوگا، کہیں کوئی داغ دھبہ نہ ہو۔
لیکن اس آئینے کا انتہائی اہم کام ہمارے اندر کی خوبصورتی ہمارے سامنے لانا ہے۔ ہماری شخصیت، ہمارا کردار ہمارے سامنے کھول کر رکھنا ہے۔ ہمارے کردار پر لگے داغ دھبے ہمیں دکھانا، ہمارا سچ اور جھوٹ ہمارے سامنے لانا، ہماری نفرت، ہماری محبت اور ہماری عقیدت سب کھول کر رکھنا اسی آئینے کا کام ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس آئینے کا استعمال کریں۔ لیکن افسوس کہ ہم آئینے کا اصل استعمال کرتے ہی نہیں، اور ظاہری استعمال ضرورت سے زیادہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ہر شخص دوسرے کی غلطیاں گنواتا نظر آتا ہے اور اپنی غلطیاں نہ اسے نظر آتی ہیں اور نہ ہی کسی کے کہنے پر غلطی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ یہی بات ہے، کیونکہ غلطی معلوم ہوگئی تو ہم خود میں سدھار پیدا کریں گے، لیکن ہم آئینہ بھی اپنی پسند کے مطابق استعمال کرنے کے عادی ہیں اور ہر خاص و عام انسان اس خودغرضی میں مبتلا ہے۔ عام زندگی میں دیکھ لیں، ساس بہو کی غلطیاں گنواتی رہے گی، اور بہو ساس میں نقص تلاش کرتی نظر آئے گی، شوہر بیوی کی غلطیاں، تو بیوی شوہر کی… جہاں دیکھ لیں یہی حال ہے۔ سب دوسروں کی غلطیاں گنواتے نظر آتے ہیں، اور جس کی غلطی ہو وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ یہی بات تکرار اور لڑائی کی صورت اختیار کرلیتی ہے لیکن نہ ہم ایک دوسرے کی غلطیاں گنوانا چھوڑتے ہیں اور نہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی صورتِ حال ہمارے حکمرانوں کی ہے، اور کیونکہ کام بڑے بڑے تو غلطیاں بھی بڑی بڑی… اور جتنی غلطی بڑی، اتنی ہی بحث و تکرار زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ منظر خاص کر ٹاک شوز میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے، بلکہ معلوم یوں ہوتا ہے کہ ٹاک شوز کا صرف اور صرف یہی مقصد ہے کہ تمام حکمران بیٹھ کر ایک دوسرے کی غلطیاں گنوائیں اور اپنی غلطیوں کو جھٹلائیں۔ اسی لیے آئینے کی سب سے زیادہ ضرورت ان ٹاک شوز میں نظر آتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ حکمران ان ٹاک شوز کے دوران آئینہ سامنے رکھ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے سے کچھ کہنے سننے کے بجائے آئینے سے نظر ملائیں، اور اس میں نظر آنے والی تمام خامیاں دیکھتے بھی جائیں اور ان کا جواب بھی دیتے جائیں۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم سدھار کی طرف جانا ہی نہیں چاہتے۔ شاید ہم جانتے بھی ہیں کہ ہم غلط کررہے ہیں لیکن اس بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے، اور ہم اپنے جھوٹ کے ساتھ ان خرابیوں کو جنم بھی دیتے ہیں اور ان کی افزائش بھی کرتے ہیں۔ یہ المیہ ہے ہمارا کہ جب کبھی غلطی سامنے آنے لگے تو آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں۔ جیسے شتر مرغ طوفان سے بچنے کے لیے اپنا سر زمین میں چھپا لیتا ہے لیکن طوفان سے بچ نہیں پاتا، ایسے ہی ہم بھی اپنی غلطیوں سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، آئینے سے نظر ہٹا لیتے ہیں، لیکن ہم اپنی غلطیوں کے نقصانات سے بچ نہیں سکتے۔ آج اگر ہمارے حکمران بھی آئینے کا صحیح استعمال کریں تو یقینا اپنی غلطیوں کو سدھار سکتے ہیں۔ لیکن بات وہی آجاتی ہے کہ ہم دوسرے کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنے اندر ضرور تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں ۔ ہم دوسروں کو آئینہ دکھا دکھا کر اپنا وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے، جبکہ ہم وہی وقت اپنے اوپر لگائیں تو بہت کچھ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنی اخلاقی بنیادوں کو بھی خود ہی درست کرسکتے ہیں اور معاشرے کو بھی ہم اپنے آپ کو صحیح رکھنے کے ساتھ ہی سدھار سکتے ہیں۔
پس آئینہ اپنے ساتھ ہمیشہ رکھنا ہے۔ اور وہ آئینہ جو ہمارے اندر کا حال بتادے دراصل وہ ہمارا ضمیر ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا ضمیر جگائیں، اپنے گھر کے معاملات درست کرنے سے آغاز کریں اور ساتھ ہی باہر کے تمام معاملات میل جول، لین دین سمیت ہر عمل کو اپنے آئینے کی مدد سے درست کرنا شروع کریں اور اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں بھی سوچیں۔ ہم ملک کو اچھے حکمران دے سکتے ہیں۔ ان بے ضمیر حکمرانوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم خود صحیح ہیں تو ہم سب کچھ بدل کررکھ سکتے ہیں۔ ہم اپنے حصے کا کام کرڈالیں اور دوسروں کے بارے میں چھوڑیں۔ غلطیوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے لیکن اپنے عمل کی درستی کے ساتھ۔ اور صرف نشاندہی ہی نہیں بلکہ جہاں دوسرا غلط بھی کرتا نظر آئے وہاں ہم صحیح کرنا شروع کریں۔ ہم پہلا قدم معاشرے کے سدھار میں اُٹھانے والے بن جائیں تو یقینا اللہ ہماری منزل ضرور آسان کرے گا اور اچھائی کی راہ میں قدم سے قدم ملانے والے ہمارے ہم قدم بن جائیں گے۔

حصہ