مسکرائیے

304

ثروت یعقوب
٭ ادریس احمد:۔ (اپنے دوست لطیف سے) مجھے کوئی ایسا مشورہ دو کہ میں امیر ہو جائوں۔ اور میری زبان پر اللہ کا نام بھی ہو۔
تم بھیک مانگنا شڑوع کر دو۔ (لطیف نے اپنے دوست ادریس احمد سے کہا)
٭٭٭
٭ گاہک (بیرے سے): میں سالن میں اتنی مکھیاں برداشت نہیں کر سکتا۔
بیرا: جناب آپ جتنی برداشت کر سکتے ہیں کر لیں۔ باقی نکال دیں۔
٭٭٭
٭ ایک شخص نے اپنے ملازم کوئی آوازیں دیں مگر وہ نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد لنگڑاتا ہوا آیا تو مالک نے پوچھا۔ اتنی دیر کیوں لگا دی۔
نوکر: جناب میں چھت پر سے گر ڑا تھا۔
مالک: مگر چھت سے گرنے میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟
٭٭٭
٭ ایک صاحب تصویروں کی دکان پر گئے اور ایک تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے۔ ایسی گھٹیا اور بھوت نما تصویریں بیچتے ہو۔ کون خریدے گا؟
دکان دار نے کہا: معاف کریں یہ تصویر نہیں۔ آئینہ ہے۔
٭٭٭
٭ استاد: (شاگرد سے) ایک کہانی سنائو۔ جس کا عنوان ہو۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
شاگرد: جناب! ایک دن میں اپنے دوست کے گھر گیا تو وہ سو رہا تھا بعد میں وہ میرے گھر آیا تو میں سو رہا تھا۔
٭٭٭
٭ حلیم: (حنیف سے) آج لڑکوں پر اتنے کاغذ کیوں پڑے ہوئے ہیں۔ حنیف (حلیم سے) ایک کاغذ اٹھا کر پڑھتے ہوئے۔ یہ تو میونسپل کارپوریشن کے اشتہار ہیں۔ جن میں لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ سڑک پر کچرا نہ پھینکیں۔

حصہ