ڈاکٹر محمد رفعت
انسانی شخصیت کی درست معرفت کے لیے اُس کی ماہیت سے متعلق دو اہم صداقتوں اخلاقی حس اور آزادیٔ انتخاب کا ادراک ضروری ہے۔ ان میں سے پہلی صداقت کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان صالح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ فطری طور پر ہر انسان کا وجدان اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ اس کا ایک رَب ہے، جس نے اُسے تخلیق کیا ہے اور جو تنہا عبادت کا مستحق ہے۔ اسی طرح اُس کی فطرت اپنے خالق کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی رکھتی ہے۔ انسان فطری طور پر یہ بھی جانتا ہے کہ سچائی، دیانت داری، حیا اور عدل و انصاف اچھی خصلتیں ہیں اور انسانی شخصیت کا حسن اِن اوصافِ حسنہ کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ ان اچھی صفات کے برعکس کذب، بددیانتی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی ناپسندیدہ ہیں اور انسانی شخصیت کے اندر بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ انسان کی اس فطرتِ صالحہ کا زندہ مظہر، انسانی ضمیر ہے جو نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے اور نیکی کی طرف انسان کو مائل کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو ’’نفسِ لوامہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
(ترجمہ)’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی، اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) اُس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔‘‘ (القیامہ:1۔3)
مسلمان اہلِ علم انسانی شخصیت (یعنی نفسِ انسانی) کے سلسلے میں مسلسل غور کرتے رہے ہیں، اس لیے کہ نفس کا تزکیہ (جس کے معنی اصلاح اور نشوونما کے ہیں) دین میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ نفسِ انسانی میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ترقی کے مدارج کے سلسلے میں قرآنی ارشادات سے استفادہ کرتے ہوئے، اہلِ علم نے تین درجات کا تذکرہ کیا ہے، چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’اگر انسان کا نفس لہو ولعب (کھیل کود) کی جانب ہو، اس کو نہ نیکی کی طرف رغبت ہو اور نہ نیک کام میں اس کا جی لگے تو ایسے نفس کو ’’نفسِ امارہ بالسوء‘‘ کہتے ہیں۔ (2) اگر نیک و بد اور حسن و قبح کا احساس کرے، کبھی کبھی برائی کا مرتکب ہو بیٹھے لیکن فوراً ہی متنبہ ہوکر اپنی خطا کا معترف ہو اور صدورِ عصیان پر اپنے آپ کو ملامت کرے تو ایسے نفس کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں۔ (3) اگر نفس، نیکی کا شائق اور بدی سے بیزار ہو، عبادت و ریاضت پر مائل، صبر و تحمل کا خوگر اور حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہو تو ایسے پاک نفس کا نام نفسِ مطمئنہ ہے۔‘‘
سورہ قیامہ کی مندرجہ بالاآیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
’’یہاں نفسِ لوامہ کی قسم کھا کر اشارہ فرمایا کہ اگر فطرت صحیح ہو تو خود انسان کا نفس، دنیا ہی میں برائی اور تقصیر پر ملامت کرتا ہے۔ یہی چیز ہے جو اپنی اعلیٰ اور اکمل ترین صورت میں قیامت کے دن ظاہر ہوگی۔‘‘
جناب صلاح الدین یوسف اِن آیات کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’(بیدار نفس) بھلائی پر بھی (ملامت) کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائیوں پر بھی، کہ اُن سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں، اُن کے نفس انھیں ملامت کرتے ہیں۔ تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس، ملامت کریں گے۔‘‘
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سورہ قیامہ کی مندرجہ بالاآیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس ضمیر میں لازماً بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے۔ اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اُسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ اُس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو، وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔
یہ (احساس) اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نِرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اُس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ قیامہ، حاشیہ:2)
انسان کے اندر ضمیر اور اخلاقی حس کی موجودگی اتنی واضح اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے۔ البتہ اس اخلاقی حس کی توجیہ کے سلسلے میں غیب کے قائلین اور غیب کے منکرین کے درمیان بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو سوچنے والے خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور غیبی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اُن کے نزدیک اخلاقی حس اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے اور انسان کا شرف و امتیاز، اخلاقی حس کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے:
’’کیا ہم نے اُس (انسان) کو دوآنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی) کے دونوں نمایاں راستے اُسے نہیں دکھا دیے؟‘‘(البلد:10۔8)
’’اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اُس پر الہام کردی۔ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا جس نے اُسے دبا دیا۔‘‘(الشمس:10۔7)
’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘(التین:4۔1)
مندرجہ بالاآیتیں، سورہ التین کی ابتدائی آیتیں ہیں۔ سورہ التین کے مضامین کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے انسانی ساخت کے اخلاقی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’انسانوں میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں: ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں جہاں اُن سے زیادہ نیچ، کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی۔ دوسرے، وہ جو ایمان و عملِ صالح کا راستہ اختیار کرکے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو ان کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔‘‘(تفہیم القرآن، دیباچہ سورۃ التین)