مرنجاں مرنج بہت عام سی اصطلاح ہے، اردو میں اکثر استعمال ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب اور محلِ استعمال کیا ہے، اس کے بارے میں ہمیں بھی تردد رہا۔ لغت کے مطابق تو یہ ’’مرنج مرنجاں‘‘ ہے جب کہ اردو میں اس کی ترتیب بدلی ہوئی دیکھی، یعنی مرنجاں پہلے آتا ہے اور مرنج و مرنجاں کے بیچ میں ایک وائو بھی رکھا ہوا ہے، لیکن اردو میں عام طور پر وائو کے بغیر اور مرنجاں مرنج ہی استعمال ہوتا ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے وہ شخص جو ہر حالت میں خوش رہے۔ جیسے یہ مصرع
انسان میں مرنج و مرنجاں عزیز ہے
قرآن کریم کے ترجمے کے حاشیے میں ایک لفظ ’’خنّے‘‘ نظر سے گزرا۔ یہ خُنّا کی جمع ہے۔ عربی میں بفتح اول و بغیر تشدید دوم۔ اردو میں پہلے حرف پر پیش ہے۔ اب تو یہ لفظ سننے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ سید مودودیؒ نے جب استعمال کیا تھا اُس وقت یہ عام فہم ہوگا۔ خُنّا بہکنا کا مطلب ہے اترانا، تکبر کرنا، خفا ہونا، مغرور ہونا۔ بے ہودہ اور فحش بات کو بھی کہتے ہیں۔ مرد ابلہ، زن بدمزاج، مسخری عورت کو بھی کہتے ہیں۔ عموماً تکبر کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اب تو متروک ہی ہوچکا ہے اور ایسے لفظ کے احیا کی ضرورت بھی نہیں۔
محترم پروفیسر مفتی منیب الرحمن اردو، عربی، فارسی پر پورا عبور رکھتے ہیں اور ان کے مضامین پڑھ کر ہم بھی اپنی اردو صحیح کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کے ایک مضمون میں ’’دونوں اطراف‘‘ دیکھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ’اطراف‘ کے ساتھ ’دونوں‘ نہیں آنا چاہیے کیونکہ اطراف کا مطلب ہی دونوں طرف ہے۔ چنانچہ صرف ’اطراف‘ لکھ دینا کافی تھا۔ تحریک انصاف کے متحرک صدر نشین عمران خان حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے مقدمہ چلوانے پر بہت زور دے رہے ہیں، لیکن وہ تلفظ تو درست کرلیں۔ سندھ میں ایک جلسے میں وہ بار بار ’’حدیبہ‘‘ کہہ رہے تھے اور ایک ’ی‘ کھا گئے۔ یہ ’حدے۔ بیہ‘‘ ہے۔ تاریخِ اسلام میں صلح حدیبیہ بہت معروف ہے۔ شیخ رشید ہی سے صحیح تلفظ پوچھ لیتے۔
’لیت و لعل‘ عربی کے الفاظ ہیں اور اردو میں ٹال مٹول کے معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔ عوامی مفاد میں منصوبے ہوں یا اہم مقدمات، ’لیت و لعل‘ بہت عام ہے۔ لیکن یہ ہے کیا؟ عربی میں ’لیت‘ کا مطلب ہے ایسی چیز کی آرزو کرنا جس کا حصول ناممکن ہو۔ اور ’لعل‘ ایسی آرزو جس کا حصول ممکن ہو۔ یہ دونوں تمنا کے کلمے ہیں۔ ٹال مٹول کے علاوہ بہانہ، وعدہ وعید، آج کل کرنا وغیرہ۔ دونوں کلمے مونث ہیں۔ جیسے اس شعر میں واضح ہے:
جاں اے جاں یہاں جاتی ہے
کس کو یہ لیت و لعل بھاتی ہے
اور لعل بمعنیٰ قیمتی پتھر تو معلوم ہی ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو کچھ لوگ جواہر لال لکھتے ہیں، یہ سوچ کر کہ لعل تو عربی کا لفظ ہے۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جواہر بھی تو عربی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت سے ہندو ادیبوں اور شاعروں کے نام عربی اور فارسی میں تھے اور اب بھی ہیں۔ مثال کے طور پر فراق گورکھپوری، جوش ملسیانی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، کرشن بہاری نور، مالک رام جن کا کہنا تھا کہ مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اردو نہیں۔ اور پنڈت ہری چند اختر جن کو لوگ پاکستان کا جھنڈا کہتے تھے (ہری یا ہرا، چاند اور ستارہ)، اور مرزا غالب کے شاگرد ہرگوپال تفتہ۔ ایسے بے شمار شاعر اور ادیب ہیں جن کا تخلص عربی یا فارسی سے لیا گیا ہے۔ عربی و فارسی کے کچھ نام ایسے ہیں جو آج بھی ہندوئوں اور سکھوں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان میں اقبال اور انور زیادہ مقبول ہیں۔ اردو کو ہندی کے قالب میں ڈھالنے کے لیے عربی و فارسی کے الفاظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت کے مشکل الفاظ شامل کردیے گئے۔ پنڈت نہرو بہت اچھی اردو بولتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب جو زبان وجود میں آئی ہے وہ تو میری سمجھ میں بھی نہیں آتی۔
لانڈھی سے ایک قاری جناب فیصل کا کہنا تھا کہ یہ جو آصف نام ہے اس میں بولنے میں ’ص‘ کے نیچے زیر آتا ہے لیکن ایک لغت میں ’ص‘ پر زبر بھی دیکھا۔ انہوں نے جانے کون سی لغت دیکھ لی تھی! ہر اردو لغت میں آصِف بروزن آمر، قابل ہے۔ آصف حضرت سلیمان ؑ کے وزیر کا نام تھا، پھر اس کا اطلاق ہر وزیر پر ہونے لگا جیسے آصف الدولہ جو اودھ کے فرماں روا تھے اور ان کے نام سے لکھنؤ میں امام باڑہ آصف الدولہ قائم ہے۔ آصف جاہ بھی لقب ہے۔ بہرحال اس نام میں ’ص‘ بالفتح نہیں ہے۔
اردو ایک ملی جلی زبان ہے جس میں عربی، فارسی کے علاوہ ترکی، ہندی، بلکہ پرتگالی تک کے الفاظ شامل ہیں۔ جس میز پر ہم بیٹھ کر لکھ رہے ہیں وہ پرتگال سے آئی ہے۔ دوسری زبانوں سے صرف الفاظ ہی نہیں آئے ہیں بلکہ اردو میں ان کا تلفظ بھی بدلا ہے اور مفہوم بھی۔ اب یہ الفاظ اور ان کا تلفظ اردو کا اثاثہ ہے۔ اہلِ فارس نے فارسی کا تلفظ ہی بدل کر رکھ دیا، یا یوں کہیے کہ وہ نہیں رہا جو برعظیم پاک و ہند میں سکھایا، پڑھایا جاتا ہے۔ فارسی کے کئی الفاظ ایسے ہیں جو اردو میں عام فہم ہیں لیکن وہی الفاظ جب کوئی ایرانی بولتا ہے تو مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ اسی طرح عربی میں بھی ہے۔ مدارس یا کالجوں سے عربی پڑھ کر نکلنے والا عرب ممالک میں جاکر چکرا جاتا ہے، لیکن جلد ہی اس الجھن پر قابو پالیتا ہے کیونکہ بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ عربوں نے ایک کام عجیب کیا ہے کہ ’ث‘ کو اپنی زبان سے بالکل ہی خارج کردیا ہے، اور چونکہ اس کی ادائیگی مشکل لگی تو اسے ’ت‘ سے بدل دیا۔ مثلاً اہلِ عرب جو لمبا سا کرتہ پہنتے ہیں اُسے ’توب‘ کہتے ہیں جب کہ یہ ’ثوب‘ ہے۔ کچھ پاکستانی اسے توپ کہنے لگے ہیں۔ عالمِ عرب میں اتنی توپیں ہوں تو کہیں باہر سے اسلحہ خریدنے کی ضرورت ہی نہیں۔ سعودی عرب میں ’کثیر‘ بھی ’کتیر‘ ہوگیا ہے۔ لیکن علماء کرام صحیح تلفظ ادا کرتے ہیں اور بولنے ہوئے ’ث‘، ’س‘ کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔