افغانستان میں امن کا امکان ہنوز گہرے بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا منظرنامہ بھی اطمینان بخش نہیں۔ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ بھارت بھی پوری طرح افغان حکومت پر اثرانداز ہے۔ درحقیقت امریکہ قابض کی حیثیت سے وہاں موجود ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے حلفِ صدارت کے بعد امریکہ سے شرمناک معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کسی طور پر ایک آزاد ملک و قوم کے شایانِ شان نہیں۔ افغان اپنی آزادی و خودمختاری کو ہر مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ حریت کا جذبہ اُن کے ایمان و عقیدے کا حصہ ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال خطے میں بے چینی اور اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے جو ایک اور بڑی جنگ اور تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ بھارت اور افغانستان کا بغل گیر ہونا کم از کم پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ چین اور روس اس تناظر میں عدم تحفظ کا احساس رکھتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے حالات کی سنگینی پر جو اظہار خیال کیا ہے، وہ گہرے غور وفکر کا متقاضی ہے۔ ان کے بقول ’’امریکہ کا بھارت کے ساتھ لاجسٹک اور میری ٹائم معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ دونوں ممالک بڑے دفاعی شراکت دار کے طور پر ابھرے ہیں اور بھارتی بحریہ کے علاوہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب امریکی افواج بحرہند میں موجود ہیں۔‘‘
چین کا راستہ روکنے کی تدابیر ہورہی ہیں۔ روس بھی مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک پہنچنے کے لیے بحرہند تک رسائی ناگزیر سمجھتا ہے۔ جنوبی چین کے سمندر کی 90 فیصد تجارت اس حصے میں منتقل ہورہی ہے۔ اور بھارت کو چین کی بحرہند تک رسائی قبول نہیں، اس کے علاوہ سی پیک کے ذریعے پاکستان بھی معاشی طور پر مستحکم ہوگا۔ چنانچہ اس کشمکش سے ایک نئی اُلجھن اور کے اشارے مل رہے ہیں۔ بھارت خطے میں بالادستی کی دوڑ میں لگا ہے۔ امریکہ بھی چین کے پر کاٹنا چاہتا ہے، اور چاہتا ہے کہ پاکستان اس کے زیرِ دست ہی رہے۔ افغانستان میں بیٹھ کر تخریب کاری و زور آزمائی اس کے لیے مشکل نہیں۔ یاد رکھا جائے کہ افغانستان میں امن اور ایک آزاد و خودمختار قومی حکومت کا قیام نہ صرف پاکستان، ایران، روس، چین بلکہ امریکہ کے مفاد میں بھی ہوگا۔ روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق کانفرنس میں شرکت سے امریکہ انکار کرچکا ہے۔ 14 اپریل کو ہونے والے اس اجلاس سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کا مؤقف سامنے آیا ہے کہ کانفرنس میں مدعو کرنے سے قبل واشنگٹن کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی تھی، اور یہ کہ امریکہ روس کے مقاصد سے بے خبر ہے۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو روسی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ اس ضمن میں واشنگٹن کو بھی اعتماد میں لیا جاتا تاکہ افغانستان میں قیام امن کے امکانات روشن ہوں۔ روس نے اس کانفرنس میں امریکہ، پاکستان، چین، افغانستان، ایران اور بھارت کو مدعو کیا ہے۔ امریکہ نے افغان طالبان اور افغان حکومت میں مصالحت کی خواہش کا اظہار کیا ہے، یہ بات امریکہ کے وزیر خارجہ ایکس ٹلرسن کہہ چکے ہیں۔ روس اور چین افغانستان کے حوالے سے امریکہ کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ یقیناًبھارت کے وہاں بیٹھنے سے پاکستان کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔ روس کے افغان طالبان سے مراسم قائم تو گئے ہیں مگر پاکستان ہی اس ذیل میں بہتر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، افغان مزاحمت کی طوالت اب امریکہ کے مفاد میں نہیں رہی۔ حزبِ اسلامی افغان حکومت سے معاہدہ کرچکی ہے۔ جب امریکہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مصالحت کی بات کرتا ہے تو اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ ہے۔ دراصل اس حقیقت کا تسلیم نہ کیا جانا امن اور بات چیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ افغانستان میں روسی افواج کے انخلاء کے بعدسوویت یونین کو شکست دینے والی جہادی تنظیموں کی نمائندہ حیثیت تسلیم کی جاتی تو آج افغانستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اسی نمائندہ حیثیت کو منوانے کی خاطر گلبدین حکمت یار نے نیویارک میں ہوتے ہوئے بھی امریکی صدر ریگن سے ملاقات نہ کی۔ روس پسپا ہوا تو امریکہ نے گلبدین کا راستہ روکنے کے لیے روس اور افغانستان میں اس کے پروردہ رہنماؤں اور جنرلوں سے سازباز کرلی، اور اس عمل میں پاکستان امریکہ کا معاون بنا رہا۔ پہلے مجددی جیسے کمزور شخص کو عبوری صدر بنایا گیا، اس کے بعد پروفیسر برہان الدین ربانی عبوری صدر بنائے گئے، اور احمد شاہ مسعود کو وزارتِ دفاع کا اہم قلمدان حوالے کیا گیا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی کمزور شخص تھے۔ دراصل فیصلوں کی کنجی احمد شاہ مسعود کے پاس تھی، وہ طاقتور اور بااختیار تھے۔ چنانچہ ربانی اور احمد شاہ مسعود کے بھارت سے روابط بن گئے۔ گلبدین حکمت یار وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کابل نہ جاسکے۔ ایک خوفناک جنگ چھڑگئی جس میں شمال کی قوتیں اور کمیونسٹ باقیات ایک طرف، اور حزب اسلامی دوسری طرف کھڑی تھی۔ حزبِ اسلامی کے مراکز پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی جاتی جو بھارتی پائلٹ اڑاتے تھے۔ افغانستان کے بعض ہوائی اڈوں میں جہازوں کی دیکھ بھال بھی انڈین پائلٹ اور ماہرین کرتے تھے۔ گلبدین حکمت یار کی جماعت کے امریکہ، چین، ایران، روس، اور پاکستان سے تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہوگئے، کیونکہ اُس افغان حکومت کی باگیں اب کسی اور کے ہاتھ میں تھیں۔ احمد شاہ مسعود اور جنرل رشید دوستم نے لسانی تعصب کو اتحاد کا ذریعہ بنایا۔ انہی دنوں ایک اجلاس میں رشید دوستم، محمود بریالئی (سابق افغان صدر ببرک کارمل کا بھائی )، احمد شاہ مسعود اور چند دیگر دوست و حلیفوں نے ایک اجلاس میں افغانستان کی سیاسی صورت حال پر یوں اظہار کیا کہ اب ہمارے اور آپ کے درمیان یہ بات مشترک ہے کہ آئندہ افغانستان کی حکومت اور سرکاری اداروں کے دروازوں پر جب کوئی دستک دے گا تو اندر سے ’’سوک یے‘‘ کے الفاظ سننے کو نہیں ملیں گے۔ مطلب یہ کہ کابل میں پشتونوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔ ’’سوک یے‘‘ کے الفاظ پشتو کے ہیں جس کے معنی ’کون ہو‘ ہے۔ یعنی شمال کی ان مجاہد اور کمیونسٹ دور کی جماعتوں اور شخصیات نے جان لیا تھا کہ گلبدین حکمت یار کا راستہ روکا جا چکا ہے۔ پاکستان کی تب کی حکومتیں بھی فہم و ادراک سے عاری تھیں اور فوج کے اندر بھی کوئی باتدبیر شخص نہ تھا۔ محض طالبان کا چند سالہ دورِ حکومت پاکستان کے لیے اطمینان کا رہا۔ پرویزمشرف نے امریکی اتحاد کا حصہ بن کر پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا۔ افغانستان امریکی مقبوضہ بن گیا اور بھارت کو افغانستان میں ہر طرح کی آزادی مل گئی۔ امریکہ نے بھارت کے لیے افغانستان میں موقع تخلیق کیا تاکہ بھارت اپنا علاقائی ایجنڈا آگے بڑھا سکے اور پاکستان کو روکا جائے۔ اور بھارت کے لیے افغانستان وسط ایشیائی ممالک کے وسائل تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کو عالمی سطح پر بڑی طاقت کا رُتبہ مل جائے۔ بھارت افغانستان میں دوست حکومت کا خواہاں تھا۔ وہ پاکستان کو بدنام کرکے خود کو علاقائی امن کا علَم بردار ثابت کرنے کی سعی کرتا رہا ہے اور افغانستان میں اثر ورسوخ یا پاکستان کا افغانستان میں اثرونفوذ ختم کرنا چاہتا ہے۔ ماضی میں بھارت اور روس نے مل کر افغانستان کو پاکستان سے دور رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ پاکستان میں چند سیاسی جماعتیں اور شخصیات اس مقصد میں اپنا پورا حصہ ڈالتی رہیں۔ وہی منظر آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی مرکزیت نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔ دونوں ممالک کے معاشی اور سیاسی مفادات باہم جڑے ہوئے ہیں۔ ثقافتی اور دینی اقدار ایک ہیں۔ برطانوی ہند کے مسلمان اکابرین سے افغان حکمرانوں کا تعلق اور محبت والہانہ تھی۔ خود علامہ اقبال ؒ کی غازی امان اللہ خان اور نادر شاہ سے انتہا درجے کی عقیدت تھی۔ جب امان اللہ خان کے خلاف افغان عوام اُٹھے، شورش برپا ہوئی تو علامہ اقبال ؒ نے اپنے طور پر احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی۔ اقتدار حبیب اللہ یعنی بچہ سقہ جیسے لٹیرے کے پاس آگیا تو نادر شاہ نے اپنی جلاوطنی ترک کرکے افغانستان جانے کا فیصلہ کرلیا، جاتے ہوئے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر علامہ اقبال ؒ نے انہیں لاکھوں روپے پیش کیے جو لاہور کے عوام نے علامہ اقبال کی اپیل پر جمع کیے تھے، خواتین نے زیورات تک دے دیئے۔ علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو ان کی قبر کے لیے کتبہ نادر شاہ نے بھیجا۔ ظاہر شاہ تک کو اقرار کرنا پڑا کہ ’’پاکستان اور افغانستان کا مقدر مشترک ہے‘‘۔ یہ بات سابق شاہ نے1986ء میں کہی۔ حتیٰ کہ ظاہر شاہ نے 1957ء میں پاکستان اور افغانستان کی کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو افغانستان کو اس سے دور رکھنے کی سازشیں شروع ہوئیں۔1947ء میں افغانستان روسی حلقۂ اثر میں چلا گیا۔ کابل نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے پر تحفظات و خدشات کا اظہار کیا، افغانستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہ کیا۔ اس نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اس شدت سے اُٹھایا کہ جیسے یہ لکیر پاکستان نے کھنچوائی ہو۔ پاکستان کی پشتون جماعتوں نے اس ایشو پر سیاست کی بساط بچھا لی۔ تقسیم سے پہلے ڈیورنڈ لائن کے ایشو کے خاتمے کا مطالبہ پس منظر میں تھا کیونکہ افغانستان کانگریس کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ اُس وقت یہ امید تھی کہ شاید شمال مغربی سرحدی صوبہ ہندوستان کے حصے میں دیا جائے۔ جب ہند کی تقسیم یقینی دکھائی دی تو1946ء میں حکومتِ افغانستان نے برطانوی ہند کو ڈیورنڈ لائن کی بابت مراسلہ بھیجا، جس میں انگریز حکومت کو توجہ دلائی گئی کہ 1893ء کا معاہدہ انگریزوں کے نکل جانے کے بعد خودبخود ختم ہوجائے گا، لہٰذا اس معاہدے کے تحت لیے گئے افغان علاقے پھر سے افغانستان کے تصرف میں دیئے جائیں۔1946ء کے انتخابات کے نتیجے میں ہندوستان میں مرکز میں عبوری حکومت قائم ہوچکی تھی اور امور خارجہ کا قلمدان جواہر لال نہرو کے پاس تھا۔ نہرو نے افغان حکومت کے اس مطالبے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور افغان حکومت پر واضح کردیا کہ ڈیورنڈ لائن دونوں ممالک کے درمیان قانونی سرحد ہے۔ یعنی نہرو نے افغان حکومت کا دعویٰ بلاجواز قرار دے کر مسترد کردیا اور کہا کہ افغان حکومت اپنے دعوے میں تاریخ کا ہرگز حوالہ نہ دے۔ اگر بات تاریخ کی کی جائے تو افغانستان کو اپنی موجودہ مملکت کے ایک وسیع علاقے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، کیونکہ ماضی میں ہندوستانی سرحد ڈیورنڈ لائن سے بہت دور مغرب میں ہوا کرتی تھی۔ نہرو نے متحدہ ہندوستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے سرحدی لکیر کے مسئلے پر افغان حکومت کی کلاس لی۔ چونکہ اُس وقت تک شمال مغربی سرحدی صوبہ (خیبرپختون خوا) کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اور کانگریس کو یقین تھا کہ یہ علاقہ بھارت کا حصہ بنے گا، مگر جیسے ہی ریفرنڈم ہوا تو کانگریس کا مؤقف تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگی اور ڈیورنڈ لائن سے متعلق بھارت کی پالیسی بدل گئی اور افغان حکومت کی پشتونستان اسٹنٹ کی حمایت ہونے لگی۔ گویا ظاہر شاہ کے دور سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ افغان فورسز نے سرحدوں کو پار کرکے باقاعدہ مہم جوئی کی۔ ان کو پشتونستان کے مسئلے پر پاکستان میں پشتون قوم پرست جماعتوں کی حمایت و تعاون حاصل تھا۔31 اگست یوم پشتونستان قرار دیا گیا، جو 1948ء سے سرکاری سطح پر منانا شروع کیا گیا۔ اس دن کی پاکستان کے اندر بھی زبردست تشہیر کی جاتی تھی۔ کابل میں ایک چوراہے کو ’’پشتونستان‘‘ چوک کے نام سے موسوم کیا گیا جس پر سال کے بارہ مہینے آزاد پشتونستان کا پرچم لہرایا جاتا۔ 30 مارچ 1955ء کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر ہجوم کا حملہ کرایا گیا، عمارت تباہ کردی گئی اور وہاں پشتونستان کا پرچم لہرایا گیا۔ اس طرح پاکستانی سفارت خانے پر حملوں کا کلچر عام ہوا۔ ظاہر شاہ اپنی حکمرانی میں کمزور شخص تھے۔ وہ سیر و تفریح کے شوقین تھے۔ ان پر سردار داؤد چھائے ہوئے تھے۔ داؤد خان 1953ء تا 1963ء افغانستان کے وزیراعظم رہے۔ ظاہر شاہ ان سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے افغان آئین میں ایک شق شامل کردی گئی جس کی رو سے شاہی خاندان کا فرد حکومتی منصب حاصل نہیں کرسکتا۔ گویا یہ شق سردار داؤد کو اقتدار کے ایوان سے دور رکھنے کی خاطر شامل کی گئی۔ مگر سردار داؤد نے ظاہر شاہ ہی کو اقتدار سے محروم کردیا۔ انہیں روس اور افغانستان کی کمیونسٹ لابی کی حمایت حاصل تھی جو ظاہر شاہ کی حکومت میں مضبوط ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سردار داؤد نے سوویت یونین کے لیے افغانستان کے دروازے ’’وا‘‘ کردیئے۔ ظاہر شاہ اور سردارداؤد کے ادوار میں ’’الحادی‘‘ نظریات کا پرچار شروع ہوا، جس کے خلاف اسلامی تحریک اُٹھی، جسے سنگ دلانہ طریقے سے کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔ کئی سربرآوردہ شخصیات قتل ہوئیں، ہزاروں افراد جیلوں میں ٹھونسے گئے۔ کئی جلاوطن ہوگئے۔ اُس زمانے میں ہزاروں افغان عوام نے پاکستان ہجرت کی۔ سردار داؤد نے پاکستان کے اندر کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کو پاکستان کے خلاف متحرک کیا۔ بلوچ پشتون علیحدگی کی تحریکیں منظم کی گئیں۔ پشتون بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں کو افغانستان میں پناہ دی گئی۔ دراصل ظاہر شاہ اور سردار داؤد پاکستان کی بائیں بازو کی جماعتوں کے فریب میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اس فریب کو سقوطِ ڈھاکا یا عوامی لیگ کی کامیاب بغاوت کے بعد مزید تقویت ملی، اور یہ یقین دلایا گیا کہ بنگلہ دیش کے بعد پاکستان کی حکومت ایک اور مزاحمت برداشت نہیں کرسکے گی۔ چونکہ مشرقی پاکستان میں بھارت براہِ راست میدانِ جنگ میں کودا تھا، اس لیے یہی خوش فہمی انہیں مغربی پاکستان میں ہوچلی تھی۔ پشتون علیحدگی کی تحریک حقیقی نہیں تھی، اس کی پشت پر بھارت کا ذہن تھا جس نے افغان حکومت کو بھی اندھیرے میں رکھا۔ روس کی دوستی پر خدا سے زیادہ بھروسا کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سردار داؤد اور پشتون علیحدگی پسندوں کو عبرتناک سبق سکھایا۔ بھٹو نے افغان اسلامی جماعتوں کی رہنمائی کی۔ رفتہ رفتہ سردار داؤد پر حقائق منکشف ہونا شروع ہوگئے۔ وہ سمجھ گئے کہ روس کا افغانستان سے معاملہ بالادست و زیردست کا ہے۔ افغان خودمختاری سوالیہ نشان بن گئی تھی۔ سردار داؤد کے خلاف افغان کمیونسٹوں کی ریشہ دوانیاں الگ سے جاری تھیں۔ اس طرح سردار داؤد نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ سابقہ پالیسیوں سے رجوع کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے7 تا 11جون 1976ء کابل کا دورہ کیا ۔ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی پر مبنی تعلقات کے امکانات روشن ہوگئے۔ معطل فضائی سروس بحال ہوگئی۔ اس کے بعد اکتوبر1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے کابل کا دورہ کیا۔ سردار داؤد نے پاکستان کا چار روزہ دورہ کیا۔ باہمی دلچسپی کے اہم امور زیر بحث لائے گئے۔ اس دورے کے ڈیڑھ ماہ بعد سردار داؤد کو اہلِ خانہ سمیت قتل کردیا گیا۔ ایوانِ صدر کی حفاظت پر مامور 1500 سے زائد فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہ فوجی بِغاوت تھی۔ فضائیہ کا کنٹرول ماہر روسی ہوا بازوں کے ہاتھ میں تھا۔ طویل مقابلے کے بعد فسادی سردار داؤد کے پاس پہنچ گئے۔ امام الدین نامی ایک اہلکار نے سردار داؤد کو خود کو حوالے کرنے کا حکم دیا۔ سردار داؤد ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے، انہوں نے جواب میں کہا کہ وہ ملحدوں کے اس مختصر ٹولے کے آگے سرنڈر نہیں کریں گے۔ سردار داؤد کی پستول سے فائر کی گئی گولی امام الدین کے بازو میں لگی۔ جواب میں سردار داؤد پر گولیوں کی بوچھاڑکردی گئی۔ سردار داؤد نے آخری وقتوں میں محسوس کرلیا تھا کہ افغانستان محفوظ نہیں، اور اُنہوں نے ’’پشتونستان‘‘ا سٹنٹ کو بھی لپیٹنا شروع کردیا تھا۔ یہ دور پاکستان سے دوستی اور خیرسگالی کا تھا جسے حقیقت بننے نہیں دیا گیا۔ یہی زمانہ تھا جب سردار داؤد اور روس کے درمیان بداعتمادی پروان چڑھی۔ 1977ء میں سردار داؤد اور روسی صدر برژنیف کے درمیان ماسکو میں ہونے والی ملاقات بہت تلخ ماحول میں ہوئی۔ سردار داؤد نے دوران گفتگو میز پر یہ کہہ کر مُکّا مارا کہ ’’افغان قوم اپنے معاملات اور فیصلوں میں خودمختار ہے‘‘۔ یقیناًروسی صدر کو داؤد کا یہ انداز و ردعمل ناگوار گزرا، روس نے افغانستان پر شب خون مارنے میں جلدی کردی اور 27 اپریل 1978ء کو فساد اور خون آشامی برپا کی۔ اس مردم کُش کمیونسٹ انقلاب کی خوشی میں پاکستان میں بھی رقص و سرود کی محفلیں سج گئیں۔ حالانکہ اُس دن انقلاب نے افغانستان کی خودمختاری اور آزادی درگور کردی تھی۔ پاکستان کی سلامتی کے بھی نئے خطرات نے گھیر لیاتھا۔ جنرل ضیاء الحق نے نورمحمد ترہ کئی کے نام خط میں مبارکباد بھیجی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے اور پاکستان اچھی ہمسائیگی کے اصولوں پر عمل پیرا رہے گا۔ جنرل ضیاء الحق اور نور محمد ترہ کئی کے درمیان کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں غیر جانب دار ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ملاقات بھی ہوئی۔ ضیاء الحق چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان ابہامات کا خاتمہ ہو۔ چونکہ نور محمد ترہ کئی سوویت یونین کی طاقت کے خمار میں مبتلا تھے، اس لیے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کا تمسخر اُڑایا۔ روسیوں نے نور محمد ترہ کئی کو اُستاد کے خطاب سے نوازا تھا، پھر اسی استاد پر غصہ بھی نکال رہے تھے، کیونکہ حالات کی خرابی میں اضافہ ہی ہورہا تھا۔ سوویت یونین کے لیے مسائل بڑھ رہے تھے۔ آخرکار ’’اُستادِ کبیر نور محمد ترکئی‘‘ جن کے ذریعے افغانستان پر ’’فسادِ کبیر‘‘ مسلط کیا گیا، قتل کردیئے گئے۔ اُن کے بعد حفیظ اللہ امین صدر بنے۔ حفیظ اللہ امین اگرچہ افغان عوام کی مزاحمت کے آگے کامیاب نہ تھے، تاہم جس خوف نے روسی منصوبہ سازوں کو حفیظ اللہ امین کو فوری طور پر ہٹانے اور انہیں ہلاک کرنے پر مجبور کیا وہ ان کی پاکستان سے بناؤ کی تیز رفتار کوشش اور روسیوں کے اثر و نفوذ کو ختم کرنا تھا۔ حفیظ اللہ امین اگرچہ مارکسسٹ تھے لیکن معروضی حقائق کا انہیں جلد ادراک ہوگیا۔ امین افغان فوج میں بھی زبردست اثرو رسوخ کے حامل تھے۔ انہوں نے پاکستان سے تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی لی۔ جنرل ضیاء الحق سے نومبر 1979ء اور ماہ دسمبر میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، سوویت افواج کی افغانستان میں براہِ راست مداخلت سے انکار کیا، اور روسی مشیروں کے افغانستان سے جلد انخلاء کا عندیہ دیا۔ وہ مجاہدین سے بھی صلح کی نیت رکھتے تھے تاکہ حکومت مخالف جنگ رک جائے۔ امین نے روسی افواج کی مداخلت کے معاہدے کو نظرانداز کیا،کہ روس کو انقلاب کی حفاظت کے لیے فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ آغا شاہی جنرل ضیاء الحق کے دور میں امورِ خارجہ کے مشیر تھے، ان کا 29 دسمبر کو کابل کا دورہ طے تھا۔ اس حوالے سے بنیادی تیاریاں ہوچکی تھیں۔ یعنی 29 دسمبر کو مذاکرات کے بعد طے شدہ امور و معاملات کا اعلان کیا جانا تھا۔ روس نے حفیظ اللہ امین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کی جانب پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور راتوں رات پاکستان کے افغانستان پر حملے کا فسانہ گھڑلیا۔ حفیظ اللہ امین کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان نے امریکی افواج کی مدد سے افغانستان پر قبضے اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور بحر ہند میں موجود امریکی بحری بیڑا پاکستان کے ساحلوں پر پہنچ گیا ہے اور پاکستان کی افواج بھی تیار کھڑی ہیں۔ روسی سفارت خانے نے حفیظ اللہ امین کو گمراہ کرنے کے لیے من گھڑت رپورٹ تیار کی اور انہیں امریکی و پاکستانی افواج کی نقل و حمل کی سیٹلائٹ تصاویر دکھائیں۔ روسی سفارت خانے کا اصرار تھا کہ پاکستان سے مذاکرات محض چند دن کے لیے ملتوی کیے جائیں اور دارالحکومت کابل کی حفاظت کے لیے فی الوقت تھوڑی سی روسی فوج طلب کی جائے۔ یوں حفیظ اللہ امین نے پاکستان کو آگاہ کردیا کہ کابل ایئرپورٹ برفباری کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں۔ اس طرح آغا شاہی کابل نہ جاسکے۔ اُدھر روسی افواج اور اسلحہ کابل ایئر پورٹ پر اترنا شروع ہوگیا۔ روسی افواج نے کابل ایئرپورٹ اور دارالحکومت کے اہم مقامات اپنے انتظام میں لے لیے۔ حفیظ اللہ امین کی حکومت کے اہم اور بااعتماد افراد دھوکے سے مختلف مقامات پر غیر محسوس انداز میں یرغمال بنالیے گئے۔ حفیظ اللہ امین کو منصوبے کے تحت پہلے ہی شہر کے اندر واقع صدارتی محل سے قصرِ دارالامان منتقل کیا جاچکا تھا۔ یہ مقام شہر سے باہر تھا تاکہ فوجی کارروائی کے دوران عوام میں کوئی اشتعال پیدا نہ ہو۔ پیش ازیں روسی فوجی حکام کی قصرِ دارالامان میں امین سے ملاقات ناکام رہی۔ اس ملاقات میں روسی فوجی حکام نے امین کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ روس سے افغانستان میں باقاعدہ فوجی مداخلت کی درخواست کریں۔ اگرچہ روسی افواج پہلے ہی پیش قدمی شروع کرچکی تھیں، ایوانِ صدر کا محاصرہ ہوچکا تھا۔ ملاقات کے دوران حفیظ اللہ امین کو مارنے کی
(باقی صفحہ 45)
کوشش ناکام ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل وکٹر پاپوٹن حفیظ اللہ امین کے محافظ کی گولی سے مارا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بعد میں ہونے والی جھڑپ میں مارا گیا تھا، جس کی لاش کی حوالگی کا روسی فوجی حکام نے مطالبہ بھی کیا تھا۔ بہرحال قصرِ دارالامان پر ہونے والے حملے کا حفیظ اللہ امین اپنے مختصر سے حفاظتی دستے کے ساتھ دو گھنٹے تک مقابلہ کرتا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ امین کا سترہ سالہ بیٹا مارا گیا، بیٹی زخمی ہوگئی اور بالآخر ایک روسی جنرل نے آکر حفیظ اللہ امین کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ حفیظ اللہ امین کی نعش غائب کردی گئی۔ قصرِ دارالامان چھلنی چھلنی ہوگیا۔ انقلابِ ثور کے دوران ہونے والی قتل و غارت کے باعث کابل کے عوام پہلے ہی خوف اور عدم تحفظ کا شکار تھے۔ حفیظ اللہ امین کے خلاف روسی آپریشن کے دوران کابل کے شہری بھاری اسلحہ کی گھن گرج سن رہے تھے، مگر بے بسی سے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ روس نے ببرک کارمل کو صدارت کی کرسی پر بٹھادیا۔ امین کو سی آئی اے ایجنٹ، پاکستان کا دوست اور افغانستان کا فسطائی سمیت پتا نہیں کن کن القابات سے نوازا گیا۔ ببرک کارمل نے کہا کہ حفیظ اللہ امین چین اور امریکہ کی ہدایت پر افغانستان کے پشتون علاقے پاکستان کے حوالے کرنا چاہتا تھا، وہ وطن فروش تھا۔
افغان جہادکو ناکامی سے دوچار کرنے میں پاکستان کا کردار بھی مخفی نہیں۔ افغانستان میں گلبدین حکمت یار کی حکومت بننے نہیں دی گئی، حالانکہ گلبدین حکمت یار شخصی و گروہی حکومت کے اول دن سے قائل نہ تھے۔ وہ آغازِ جہاد سے آج تک انتخابات کے نتیجے میں بننے والی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں۔ طالبان کی حکومت ختم کرنے اور ہزاروں لاکھوں افغانوں کے قتل عام میں پاکستان امریکہ کے شانہ بہ شانہ تھا۔ ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب پاکستان نے بھی کیا ہے۔ اب اگر امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مصالحت ہو تو اس کے لیے پہل امریکہ کی جانب سے ہونی چاہیے۔ امریکہ اپنے اور نیٹو فورسز کے انخلاء کا ٹائم فریم دے تاکہ افغانستان میں ایک آزاد و خودمختار قومی حکومت کی تشکیل کا راستہ کھلے، اور یہ سرزمین کسی کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ طالبان کی نمائندہ حیثیت قبول کرنا ہوگی۔ کابل پر ماتحت گروہ کی حکومت مسئلے کا حل نہیں۔ ملا اختر منصور ایک وژنری رہنما تھے، ان کی سیاسی حالات پر گہری نظر تھی۔ ملا اختر منصور نے روس اور ایرانی حکام سے راہ و رسم بڑھالی تھی۔ امریکہ بہرحال انہیں راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ شاید پاکستان بھی ملااختر منصور کی اپروچ سے خوف زدہ تھا۔ سوویت یونین کے صدر برژنیف نے کہا تھا کہ روس اپنی جنوبی سرحد کی حفاظت کے لیے افغانستان میں داخل ہوا تھا۔ تو کیا روس امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں اب اپنی جنوبی سرحد محفوظ سمجھتا ہے؟ اگر نہیں تو افغانستان ایک اور بھیانک جنگ کا مرکز بننے جارہا ہے۔ ضروری ہے کہ امریکہ سمیت تمام ممالک افغانستان میں قومی حکومت کے قیام میں مدد کریں اور افغان حکومت کو بھی یہ حقیقت اب سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان و افغانستان کے مفادات باہم جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت ایک فریبی ملک ہے جس نے افغانستان کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے۔ ظاہر شاہ مرحوم کس قدر اچھے نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ’’پاکستان اور افغانستان کا مقدر مشترک ہے۔‘‘
nn