میں کارِ جہاں سے نہیں آگاہ، و لیکن
اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز
کر تُو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور نیا اور نئے دور کا آغاز
معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’’رات کا شہباز‘‘
1۔ اگرچہ میں دنیا کے کاموں سے واقف نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ اہلِ نظر سے کوئی بھید چھپا نہیں رہ سکتا۔
2۔ نیا دستور جاری ہو گیا۔ نیا دور آگیا۔ تُو بھی وزیروں کی خوشامد کرکے کوئی عہدہ، منصب یا جاگیر لے لے۔
یہ نظم 1935ء میں لکھی گئی تھی، جب وہ دستور منظور ہوچکا تھا، جسے ہمارے ہاں صوبائی خودمختاری کا دستور کہا گیا، لیکن اس کے لیے انتخابات 1936ء کے آخر میں ہوئے تھے اور اپریل 1937ء سے وہ جاری ہوا۔ یا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقبال نے اسی دستور کو سامنے رکھ کر یہ شعر کہا، یا یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ شعر دو عملی کے نظام سے متعلق ہے، جو 1921ء سے اپریل 1937ء تک جاری رہا۔ اس میں بھی وزیر ہوتے تھے۔
3۔ البتہ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اگر کوئی شخص اُلّو کو رات کا شہباز قرار دے دے تو یہ خوشامد ہوگی یا حقیقت؟
مراد یہ ہے کہ وزیروں کو عہدے اور منصب کے لحاظ سے تو بہت بڑا سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ امر غور طلب ہے کہ آیا انہیں حقیقت میں وزیروں کے سے اختیارات حاصل ہیں کہ نہیں؟ اقبال کے نزدیک ان کی کیفیت وہی ہے جیسے اُلّو کو رات کے وقت کا شہباز کہہ دیا جائے۔ یہ بظاہر خوشامد ہوگی، اس لیے کہ بہت بڑا لقب دے دیا گیا۔ غور سے دیکھا جائے تو حقیقت ہوگی۔
تہذیب و ثقافت
ماضی میں ہر کام اور ہر اقدام تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا تھا۔ ہر کام خواہ تجارت ہو، خواہ صحافت و سیاست، ہمیں ابتدا سے یہ تلقین کی جاتی تھی کہ تہذیب سیکھو، خوش اخلاق بنو۔ اور تہذیب ہمیں سکھائی جاتی تھی، یہ خود سے نہیں آتی۔ خوش اخلاقی کی ہمیں تعلیم دی جاتی تھی، باادب بننے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ مگر اب معلوم ہوتا ہے جیسے گردوپیش کے اثر سے اس کے مفہوم و معنی کی کڑیاں ٹوٹنے اور بکھرنے لگی ہیں، اور یہ کچھ آج کی بات نہیں ہے، قیام پاکستان سے پہلے، بہت پہلے، اصولوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تھی، اکبر الہٰ آبادی نے 1921ء میں انتقال کیا تھا، انہوں نے کہا تھا:
’’خرابی، بے اصولی، تفرقہ اس کا نتیجہ ہے، تماشائی ہیں’’وہ‘‘، ان کے لیے ’’ہم‘‘ اک تماشا ہیں۔ اگر یہ کہا جاتا تھا کہ ’’وہ باادب ہے‘‘، ’’ہنس مکھ ہے‘‘، ’’ملنے جلنے‘‘ میں اس کا انداز ’’اچھا ہے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ اگر اسی روش پر قائم رہا تو ’’آدمی‘‘ بن جائے گا۔ آدمی بنتے بنتے ’’آدمی‘‘ بنتا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’آدمی تو بہت ملتے ہیں مگر آدمی نہیں ملتا۔‘‘ یعنی ’’آدمی نما‘‘ تو ہے ’’آدمی‘‘ نہیں ہے۔ ’’آدمی‘‘ کو ’’مہذب‘‘ کہتے تھے ’’آدمی نما‘‘ کو نہیں۔ آج کل تہذیب اور ثقافت کے الفاظ رائج تو بہت ہیں، لیکن تہذیب اور ثقافت کے مفہوم و معنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تہذیب کے معنی ہیں ’’سنور جانا‘‘ یعنی جو کیفیت اس کے ’’اندرون‘‘ میں پیدا ہوجانی چاہیے وہ پیدا ہوگئی، یہی مفہوم ثقافت کا ہے۔ تہذیب اور ثقافت دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ جس شخص کے اندر تہذیب و ثقافت پیدا ہوجاتی ہے اسے ’’مہذب‘‘ اور ’’مُثقَّف‘‘ کہتے ہیں، مگر اسے نہ بھولیے گاکہ تہذیب و ثقافت پیدا کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ خودبخود پیدا نہیں ہوجاتی۔‘‘ اکبر الہٰ آبادی کا ایک طنزیہ شعر پھر یاد آیا:
ہوئے اس قدر مہذب، کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جا کر
ثقافت کے اصل مفہوم کو سمجھیے، بانس کا ایک جنگل ہے جسے ’’بنواڑی‘‘ کہتے ہیں، وہاں سے ایک چھڑکاٹ کے لانی ہے اور ایک مضبوط نیزہ تیار کرنا ہے، اگر اس میں لوہے کا ایک خوبصورت سا چمکدار پھل لگاکر آپ نے سمجھ لیا کہ نیزہ تیار ہوگیا تو یہ میدانِ کارزار میں آپ کو صاف دغا دے جائے گا۔ آپ دشمن کا نشانہ بن جائیں گے۔ وہ چھڑ کسی نہ کسی گرہ سے ٹوٹ جائے گی۔ اس کی تہذیب و ثقافت کے لیے ضروری ہے کہ بنواڑی سے کاٹ لانے کے بعد اس کو پانی میں ڈال دیا جائے۔ پانی میں پڑے پڑے اس کے تمام ریشے بھگیں اور پھولیں، اور پھول کر ایک دوسرے سے گتھ جائیں، اس کی گرہیں مضبوط ہوجائیں، پھر اس کی گرہیں چھیلی جائیں، پھر اس چھڑ میں تیل پلایا جائے اور آگ میں تپایا جائے۔ اس طرح مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد ایک خاص انداز کی لچک اس چھڑ کے اندر پیدا ہوجاتی ہے، اس کی تمام گرہیں مضبوط ہوجاتی ہیں اور میدانِ جنگ میں اس کو جس طرح بھی استعمال کریں یہ چھڑ کبھی آپ کو دغا نہیں دے گی۔ اور یہ کیفیت جب اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو اس کو ’’مُثقَّف‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح آدمی جب تہذیب کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے تب ’’آدمی‘‘ بنتا ہے اور اس کو ’’مہذب‘‘ کہا جاتا ہے۔ آدمی تہذیب کی نقل کرلینے سے مہذب نہیں ہوتا۔ نقال کو صرف منافق کہا جائے گا۔ بچے کو آپ نے دیکھا ہوگا، وہ پیدا ہوتے ہی آدمی نہیں بن جاتا۔ وہ توانائیوں کا مجموعہ تو ہوتا ہے مگر توانائیاں اس کے اختیار میں نہیں ہوتیں۔ آنکھیں رکھتا ہے مگر دیکھنا نہیں جانتا۔ اس کی پتلیاں ناچتی رہتی ہیں۔ ماں اس کو بار بار اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جو اشارے کرتی ہے اس کی ناچتی ہوئی پتلیوں کو اپنے چہرے پر جمانے کے لیے کرتی ہے۔ اسے اپنی پتلیوں کو کسی چیز پر جمانا اور دیکھنا خود ہی نہیں آتا، سکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح سننا اور بولنا تک اسے سکھایا جاتا ہے، بلکہ ہر بات اس کو سکھائی جاتی ہے۔ کپڑے پہننا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور چلنا پھرنا اور تمام آداب اس کو سکھائے جاتے ہیں تب وہ آدمی بنتا ہے، اسی کا نام تہذیب ہے، نثقیف ہے، تادیب ہے۔ اعمال کی اچھائیوں کا اسے عادی بنایا جاتا ہے۔ ادب کہتے ہی نفس کی اس مشق و ریاضت کو ہیں جو تعلیم و تربیت اور تہذیب و تادیب کے ذریعے سے آتی ہے۔ ’’ریاض‘‘ کے لفظ سے آپ واقف ہیں۔ ’’اس نے بڑا ریاض کیا ہے تب اس کو گانے کے قواعد پر گرفت حاصل ہوئی ہے‘‘۔ ’’ستار بجانے کا فن اس کو آیا اور اس میں مہارت پیدا ہوئی ہے‘‘۔ آپ جانتے ہیں کہ کوئی آدمی موسیقی کا یا ستار بجانے کا ماہر پیدا نہیں ہوتا، اسی طرح تہذیب بھی ریاض کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ سنورنے اور سنوارنے کی مشق کی جاتی ہے تب حسن ’’نکھرتا‘‘ ہے، یہی حال شعر گوئی کا اور مضمون نویسی کا ہے۔
[’’کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘/ شعبہ ابلاغ عامہ کاجریدہ ’’ابلاغ‘‘، ماہ اشاعت مئی 1996ء]