ایک زمانہ تھا جب کراچی کے مسائل پاکستان کے اربابِ اختیار کو پریشان کردیا کرتے تھے۔ حکومتی ارکان ہوں یا اپوزیشن ارکان۔۔۔ سب کا دل کراچی کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ یہاں سڑکوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ بڑی شاہراہیں ہوں یا اونچی عمارتیں۔۔۔ محلوں میں بنے پارکوں سے لے کر ساحلِ سمندر تک سب اپنی مثال آپ تھے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے۔ محبتیں بانٹتے اس شہر کی وہ حسین یادیں ہر اُس شخص کے ذہن ہوں گی جس نے اُس زمانے کا کراچی دیکھا ہے۔ جب میرے بزرگ ماضی کی وہ باتیں جو اس شہر سے وابستہ ہیں، مجھے بتاتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں نمی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی آنکھوں کا نم ہونا کراچی سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے یہاں ہر محکمہ اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرتا۔ لوگ سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے اور نہ کسی بنیادی سہولت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے۔ تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں خوب اچھی طرح نبھاتے۔ اگر ہم صرف بجلی کے ترسیلی نظام کو جو اُس وقت نافذ تھا، دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کی بندش کیا ہوتی ہے اُس زمانے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہوتی لوڈشیڈنگ سے کراچی کے عوام ناآشنا تھے۔ اُس وقت مین ہائی ٹینشن سے صارفین کے گھروں تک بہترین تانبے کے تاروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی دی جاتی، جس سے لائن لاسز نہ ہونے کے برابر ہوتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلنے لگا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب کچھ ختم کیا جانے لگا تو بے جانہ ہوگا۔ نہ جانے کس کے کہنے پر اور کس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اربابِ اختیار نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔ میرا مقصد سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنا نہیں، اور نہ ہی میں کراچی اور اسلام آباد کے درمیان تفریق پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف اُن مسائل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو اس فیصلے کے بعد حکمرانوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں پیدا ہوئے، جس نے اس شہر کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ تقریباً ہر محکمے کی تباہی کی ایک داستان ہے جسے اگر لکھنے بیٹھا جائے تو برسوں لکھ کر بھی ختم نہ ہوں۔ دوسرے محکموں کے مقابلے میں ’کے۔ الیکٹرک‘ کے شکنجے میں جکڑے عوام کا حال کیا ہے، اس کی تفصیل متعدد مرتبہ میں اپنے مضامین میں تحریر کرچکا ہوں۔ اِس مرتبہ اس ادارے پر لکھنے کا ارادہ صرف اس لیے کیا کہ گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے جو اقدامات اٹھائے گئے، انہوں نے ’کے۔ الیکٹرک‘ کے چہرے پر پڑے اس نقاب کو اتار پھینکا ہے جس کے پیچھے ’کے۔ الیکٹرک‘ برسوں سے وہ مکروہ کھیل کھیلنے میں مصروف تھا جس پر کسی سیاسی جماعت نے کوئی آواز نہ اٹھائی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی کے اس اہم مسئلے کو۔۔۔ جو خالصتاً عوامی مسئلہ ہے، جس انداز میں اٹھایا اور ہمت کرتے ہوئے اس سفید ہاتھی کو جو غریبوں کو روندتا جا رہا ہے، للکارا۔۔۔ وہ کراچی کے غریب عوام کے دل کی آواز ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے ’کے۔ الیکٹرک‘ کی بدمعاشیوں پر دی جانے والی احتجاجی کال پر حکومتِ سندھ نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پورے ملک نے دیکھ لیا کہ عوامی حقوق کی جدوجہد کرتے ان کارکنان و رہنماؤں کے ساتھ کس طرح پولیس گردی کی گئی۔ بجائے اس کے کہ حکومت ناجائز بلنگ پر کچھ کرتی، یوں محسوس ہوا جیسے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی نہیں ’کے۔ الیکٹرک‘ کی حکمرانی ہو۔ پولیس و انتظامیہ کا اتنا کھل کر ’کے۔ الیکٹرک‘ کے کالے کرتوں کی حمایت میں آنا، صاف بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی نے جن نکات کو اٹھایا وہ درست ثابت ہوئے، مثلاً حافظ صاحب کے بقول ’کے۔ الیکٹرک‘ سابقہ دور میں ایم کیو ایم اور اب پیپلز پارٹی کو عوام سے ناجائز طور پر لوٹی ہوئی رقم سے پورا حصہ ادا کرتی ہے۔ حکومتِ سندھ نے جس انداز میں ردعمل دیا وہ صاف بتاتا ہے کہ حافظ صاحب کی باتوں میں سو فیصد سچائی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی نے ہر وہ طریقہ جس کے بل پر عوام سے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں، عوام کو بتادیا۔ اسی سلسلے میں’کے۔ الیکٹرک‘ کے مرکزی آفس پر دھرنا بھی دیا گیا۔ میں نے جب جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے دیے گئے نکات پڑھے تو بہت حیرت ہوئی، یعنی اگر ’’اٹھو آگے بڑھو کراچی‘‘ کے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے میں کراچی کے شہری مطالبات کو دیکھیں تو ان میں ایک سے 300 یونٹ تک بلوں میں ظالمانہ اضافے کی بات ہے، اووربلنگ اور لائن لاسز کا ذکر ہے، عوام کی لوٹی ہوئی دولت جو ناجائز طور پر لی گئی، اس کی واپسی کا مطالبہ بھی ہے۔
قارئین! میٹررینٹ 11 ارب روپے، ڈبل بینک چارجز 13 ارب روپے، کلاء بیک 17 ارب روپے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز 62 ارب روپے اور ملازمین کے نام پر 35 ارب روپے ایسی لوٹی گئی رقم ہے جس کو منظرعام پر لانا جماعت اسلامی کراچی کا بڑا کارنامہ ہے۔ سندھ کے عوام کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے طرزِ حکمرانی نے شہری دیہی تفریق کے سوا کچھ نہ دیا۔ خاص کر کراچی کے عوام میں محرومیوں نے جنم لیا۔ جب کوئی علاقہ زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوجائے تو اس کا سدباب مشکل ہوتا ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کے اقدامات کسی سچائی سے کم نہیں۔ اب کراچی کے عوام کو یہ امید ہوچلی ہے کہ کوئی ہے جو ان کی دادرسی کرسکتا ہے۔
قارئین! ’کے۔ الیکٹرک‘ انتظامیہ کی بدمعاشیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر ماہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ورکرز گاڑیوں میں بیٹھ کر علاقوں میں اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے دشمن ملک کی فوج مقبوضہ علاقوں میں گشت کیا کرتی ہے۔ ان ورکرز کی چال ڈھال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’کے۔ الیکٹرک‘ ورکرز کم، بھتہ خور زیادہ لگتے ہیں۔
یہاں میں ایک باریک نکتہ جو میں نے محسوس کیا (شاید میری سوچ غلط ہو) بتانا چاہتا ہوں۔ اگر غور سے K.E جو کہ بجلی کے تمام دفاتر اور بلوں پر لکھا گیا ہے، کو دیکھا جائے تو انسان ایک عجیب سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی K کے ساتھ لکھا گیا E بالکل ترشول کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ ہندو معاشرے میں اس ترشول کی حیثیت کون نہیں جانتا! انڈین فلموں میں یہ ترشول کسی کو قتل کرنے کے کام بھی آتا ہے۔ لوہے سے بنے تین خنجر نما اس ترشول سے اگر انسان کا قتل ہوسکتا ہے، تو اسی جیسے لکھے E سے غریب عوام کو K.E معاشی طور پر قتل کرتی جا رہی ہے۔ اسی سے جُڑے میرے دوسرے شک کو دیکھا جائے تو میری بات کی سچائی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ اسی رنگ سے تحریر کیا گیا ہے جو ہندوستان کے جھنڈے اور ہندو مذہب کا رنگ ہے۔ جبکہ ہندو معاشرے میں مذہبی لباس بھی اسی رنگ کا ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی جیسے حساس شہر میں کہیں کسی ایجنڈے کے تحت تو ایسے حالات پیدا نہیں کیے جارہے جس سے دل برداشتہ ہوکر محبِ وطن عوام کو ملک سے نفرت کی طرف دھکیلا جائے! ’کے۔ الیکٹرک‘ انتظامیہ کی جانب سے عوام پر کیے جانے والے اس ظلم کو دیکھتے ہوئے شک ہوتا ہے کہ یہ بھی کہیں ان طاقتوں کی آلہ کار تو نہیں جو ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتی ہیں! ویسے بھی اس شہر سے آئے دن ’را‘ کے ایجنٹوں کی گرفتاری بتاتی ہے کہ اس ملک میں ’را‘ کس قدر سرگرم ہے۔
دنیا میں اگر کسی ملک میں ایسے حالات ہوں جو ہمارے ملک میں ہیں تو حکومتیں بڑی مستعد ہوجایا کرتی ہیں۔ سرحدوں سے لے کر اداروں تک نگاہ رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، ان حالات میں احتیاط ضروری ہے، خاص کر کراچی جیسے شہر میں، جہاں ملک کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں۔ خدارا اَنا کو چھوڑ کر یہاں کے عوام کو ’کے۔ الیکٹرک‘ کی ظالمانہ پالیسیوں سے نجات دلائی جائے، ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے عوام کو کچھ نہ کچھ سہولتیں مل سکیں۔ ایسے اداروں کو جو عوام سے دو وقت کی روٹی چھیننے میں لگے ہوئے ہیں، پابند کیا جائے۔ اگر عوام کے ذمے کسی ادارے کے جائز واجبات ہیں تو بے شک طریقہ کار کے مطابق جس سے لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو، وصول کیے جائیں۔ دھونس اور دھمکی سے افراتفری میں ہی اضافہ ہوگا، امن و امان نہیں آسکتا۔ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محکموں کے خلاف جو ظالمانہ پالیسیاں بنا رہے ہیں، ایک زبان ہوکر عوام کے مسائل پر بات کریں۔ ہر سیاسی جماعت خاموشی توڑے گی تب ہی اداروں کے چنگل سے نجات مل سکتی ہے، بصورتِ دیگر عوام کی امنگوں کے مطابق نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔
اپنی تحریر کی ابتدا میں کراچی کے دارالحکومت ہونے کے زمانے کی یادیں لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حکومتوں نے دارالحکومت کی منتقلی کے بعد اگر کراچی کے اداروں پر دھیان دیا ہوتا تو آج یہ وقت نہ آتا۔ حکمرانوں کی جانب سے کراچی کو نظرانداز کیے جانے کے بعد یہی نتائج برآمد ہونے تھے جو ہمارے سامنے ہیں۔
nn