نئی پڑوسن: بھابھی، میں اور میرے بچے آپ کے اور آپ کی فیملی کے بہت مشکور ہیں۔ آپ لوگوں کی وجہ سے، میرا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کو دیکھ کر، خصوصاً آپ کی بچیوں کو دیکھ کر میری بچیوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی ہے۔
بھابھی: یہ تو اچھی بات ہے کہ نیکی کے کاموں میں ہم دوسروں سے ریس کریں۔
نئی پڑوسن: میری بچیاں نماز بالکل نہیں پڑھتی تھیں، جب میں یہاں شفٹ ہوئی تو دیکھا کہ آپ کی بچیاں کالج و یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں لیکن اس کے باوجود پابندی سے نماز بھی پڑھتی ہیں تو مجھے بڑا رشک آیا۔ میں نے اپنی بیٹیوں کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ دیکھو، پڑوسیوں کی بچیاں یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اس کے باوجود نماز پڑھتی ہیں، جبکہ تم لوگ گھر میں آرام سے بیٹھی ہو لیکن نماز نہیں پڑھتیں۔
بھابھی: پہلی بات تو یہ کہ تعلیم اور خصوصاً ساتھ میں دینی تعلیم ہو تو انسان کو شعور بخشتی ہے۔ نماز تو فرض ہے ہر حالت میں، اس سے غافل رہ کر بندہ خدا سے دور ہوجاتا ہے۔
***
رضیہ کو جب پتا چلا کہ اس کی دیورانی کم آمدنی میں سے بھی خیرات، زکوٰۃ اور صدقہ دیتی ہے تو اسے بھی اس کا خیال آیا۔ شوہر سے تذکرہ کیا لیکن اس نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں اس نے دیورانی سے کہا کہ مجھے تو آپ کی اس خوبی پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی یہ سب کرتی ہیں۔ مہمان کی تواضع کرتی ہیں، غریبوں کی مدد کرتی ہیں، زکوٰۃ نکالتی ہیں۔ میرے شوہر تو اس سلسلے میں میرا ساتھ نہیں دیتے۔
دیورانی نے بڑی حیرت سے رضیہ کو دیکھا اور کہا: کیا تم زکوٰۃ بھی نہیں نکالتیں! تمہارے پاس تو سونے کا خاصا زیور ہے؟
رضیہ: میں کیا کروں، میرے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ یہ تو تمہارے دیور کا کام ہے کہ وہ زکوٰۃ نکالیں۔
دیورانی نے اسے اپنی دوست کی کہانی سنائی جس کے پاس سال کے آخر میں نصاب کے مطابق زکوٰۃ کے لیے رقم ناکافی تھی، اس نے اپنے زیورات میں سے سونے کی بالیاں نکالیں اور نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کی، کیونکہ زیور عورت کا ہے تو اُس پر اس کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے، چاہے شوہر سے رقم لے کر نکالے یا دوسری صورت میں ایک آدھ زیور بیچ کر اس رقم سے زکوٰۃ ادا کرنی پڑے، لیکن ہر صورت میں زکوٰۃ فرض ہے۔
دیورانی کی بات سن کر رضیہ سوچ میں پڑ گئی۔
دیورانی: بھائی صاحب تمہیں کچھ جیب خرچ ماہانہ دیتے ہیں؟
رضیہ: ہاں۔۔۔ لیکن؟
اس رقم میں سے ماہانہ کچھ بچت کرلیا کرو اور سال کے آخر میں یا ہر مہینے تھوڑا تھوڑا کرکے زکوٰۃ کی ادائیگی کرلیا کرو۔
رضیہ کو بھابھی کا مشورہ پسند آیا۔ اس طرح ایک اچھے کام کی ابتدا اس نے کی جس سے اسے سکون بھی حاصل ہوا۔ وہ اکثر دیورانی سے کہتی کہ یہ سب میں نے آپ کے ساتھ ریس کرنے کی وجہ سے سیکھا ہے۔
***
شاہدہ خود پڑھی لکھی نہیں تھی لیکن اس کی دیورانی ایک پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ خاتون تھی، جو نہ صرف گھرداری بڑے اچھے انداز میں سنبھال رہی تھی بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اس نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ بچے ماں کی دلچسپی کی وجہ سے تعلیم میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے تھے۔ شاہدہ کو اپنی دیورانی پر بڑا رشک آتا، وہ چاہتی تھی کہ وہ بھی اسی کی طرح زندگی گزارے اور اس کے بچے بھی اسی طرح کامیابی حاصل کریں، لہٰذا اس نے اپنے بچوں کو دیورانی کے بچوں کے ساتھ مقابلے پر اکسانے کی کوشش کی۔ آخر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئی اور بچوں نے بھی اپنے کزنز کو اپنا آئیڈیل بنا لیا اور تعلیم حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگ گئے۔ یہی نہیں بلکہ ان بچوں نے اپنے کزنز کے زندگی گزارنے کے طریقے بھی اپنانے کی کوشش کی۔
***
میں نے بہت سے لوگوں کا تجزیہ کیا ہے جو نیکی کے کاموں اور اچھے عمل کرنے کے سلسلے میں دوسروں کی تقلید کرتے ہیں جو کہ ایک مثبت سوچ و عمل ہے۔ نماز، روزہ کی پابندی، مہمانوں کی خاطر مدارات، لوگوں سے خوش اخلاقی اور نرمی سے گفتگو کرنا، اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا، بہوؤں کے ساتھ یا سسرال والوں کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرنا، محنت ومشقت کرکے منزلِ مقصود پر پہنچنا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسبانی کرنا، غریبوں و ضرورت مندوں کی وقت پر مالی مدد کرنا۔۔۔ یہ وہ امور ہیں جن میں دوسروں کے ساتھ ریس کرنا یا ان پر رشک کرنا جائز ہے، کیونکہ اس سوچ و عمل سے انسان نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں جس کی ریس جائز نہیں۔
***
عابدہ ایک خوشحال گھرانے کی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی جس نے بہت سی امیدیں دل میں بساکر سسرال میں قدم رکھا، لیکن جلد ہی اسے احساس ہوا کہ اس کے تمام خواب چکناچور ہوگئے ہیں۔ شوہر کی معمولی تنخواہ، ساس سسر، ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ۔۔۔ یہ سب اس کے خواب نہ تھے۔ شوہر کے پاس گاڑی کے بجائے ایک پرانا اسکوٹر تھا۔ اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ شاید سمجھوتا کرلیتی، لیکن جب اس نے اپنی نند کو دیکھا جو ایک بہت بڑی کوٹھی میں بڑی شان و شوکت سے رہتی ہے، گھر میں دو دو گاڑیاں، کام کے لیے نوکر چاکر ہیں تو اسے اپنی نند سے بڑی ریس ہوئی کہ یہ اس نچلے متوسط گھرانے کی لڑکی ہے جو اتنے ٹھاٹھ باٹ سے زندگی گزار رہی ہے اور میں اس حالت میں ہوں! اسے نہ ساس سسر کا جھنجھٹ ہے۔ آزادی سے جہاں چاہے آئے جائے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ اس ریس کی وجہ سے اسے نند سے جلن اور حسد ہونے لگا۔ جیسے ہی اسے دیکھتی اس کا پارہ چڑھ جاتا۔ بہانے بہانے سے شوہر سے لڑتی جھگڑتی، نئی نئی فرمائشیں کرتی جنہیں پورا کرنا اس کے شوہر کے بس کا کام نہیں تھا۔ یہ لڑائی جھگڑے بڑھتے گئے۔ نند نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ میری وجہ سے یہ ڈسٹرب ہوجاتی ہے۔ اس نے ماں کے گھر آنا کم کردیا۔ عابدہ کو صرف نند سے ہی نہیں بلکہ اپنی بہت ساری کزنز اور سہیلیوں کے ساتھ بھی ریس تھی جو شاہانہ زندگی گزار رہی تھیں۔ اب اکثر وہ شوہر اور ساس سے لڑ جھگڑ کر ماں کے گھر آجاتی کہ آپ نے مجھے کس جہنم میں دھکیل دیا ہے، میں وہاں نہیں رہوں گی جہاں مجھے ایک ایک خوشی کے لیے ترسنا پڑرہا ہے۔ میری نند اور سہلیاں اتنے عیش میں زندگی گزار رہی ہیں۔ میرے بھی یہی خواب تھے، مجھے یہ سب کیوں حاصل نہ ہوسکا! خصوصاً وہ جب نند کو دیکھتی تو اس کا جی چاہتا کہ اس کا خون پی لے۔
اس ریس، حسد، جلن کی وجہ سے اس کا اپنا سکون بھی غارت ہوگیا، شوہر اور ساس سسر بھی ڈپریشن کا شکار ہوگئے۔ آخر اس نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کردیا۔ سب نے سمجھایا لیکن مال کی ہوس، طمع، حسد اور کینے کی وجہ سے وہ سمجھوتا نہ کرسکی۔ آج بارہ سال اس واقعے کو گزر چکے ہیں، وہ ماں اور بھائیوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کا بچہ بھی باپ کے ہوتے ہوئے دوسروں کے گھروں پر پرورش پا رہا ہے۔
***
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، میں نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں جہاں خواتین نے اپنے آس پاس کی خواتین کی خوشحالی شان و شوکت اور دولت سے ریس کی اور اپنے گھونسلوں کو اجاڑ دیا۔ مجھے بچپن میں اماں کی بتائی ہوئی وہ کہاوت آج بھی ازبر ہے کہ دوسروں کے محلوں کو دیکھ کر ان سے ریس کرکے اپنے کچے آشیانے کو ٹھوکر مارنا سراسر بے وقوفی اور بربادی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس ایک ریس کی وجہ سے جلن، حسد، بغض، عداوت، لالچ، طمع، کینہ جیسی خصلتیں وجود میں آتی ہیں، اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں یہ خصلت عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
کسی خاتون سے اس کی دوست نے پوچھا کہ تمہاری بھابھیاں، دیورانیاں، نندیں اور بہنیں سب پُرآسائش زندگی گزار رہی ہیں سوائے تمہارے، کیا تمہیں ان کا عیش و آرام اور سُکھی زندگی دیکھ کر ریس نہیں آتی؟ اس عورت نے اس کا بڑا پیارا جواب دیا: ’’میں اوپر والوں کو نہیں دیکھتی کہ مجھے ان سے ریس ہو، ہاں نیچے والوں کو ضرور دیکھتی ہوں جس کی بدولت اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں، اس طرح مجھے اپنی تکلیفوں کا احساس بھی کم ہونے لگتا ہے۔‘‘
دیکھا جائے تو آج ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم فوراً سامنے والے سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کاش یہ سب ہم کو بھی مل جائے، یا میں بھی ایسا ہی بن جاؤں۔ نوجوان نسل کی بے حیائی، جدید فیشن۔۔۔ یہ سب اسی ریس کی وجہ سے ایک بھیانک وبائی صورت اختیار کرتے گئے۔ ملک کی بڑی بڑی نامور یونیورسٹیوں کا اندرونی حال ہم سے چھپا ہوا نہیں ہے جسے جدید ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ چادر کی جگہ دوپٹہ نے لی، اور اب وہ رہا سہا دوپٹہ بھی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی غائب ہوگیا ہے۔ شادی بیاہ میں بے ہودہ رسمیں، بے جا اسراف۔۔۔ یہ سب ایک دوسرے سے رشک کی بنا پر ہی وجود میں آتے ہیں۔ ایک خاتون نے اس ریس کی وجہ سے اپنی بیٹی کے جوانی کے قیمتی سال ضائع کردیے۔ اس کے دیور کی بیٹی کی شادی بڑے خوشحال اور امیر گھرانے کے اکلوتے صاحبِ جائداد فرزند سے ہوئی۔ اسے دیور کی لڑکی سے بڑی جلن ہوئی کہ یہ میری بیٹی سے کم خوبصورت ہے۔ میری بیٹی ایک امیر باپ کی خوبصورت بیٹی ہے، اس کا رشتہ دیور کی بیٹی سے بھی اچھا ہونا چاہیے، یا کم از کم اُس جیسا تو ہو۔ اس طرح اُس نے کئی رشتے رد کردیے۔ ایک دن شوہر نے سمجھایا کہ اللہ کی بندی ہر ایک کا اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے، اُس بچی کا نصیب اُس کو مل گیا، اُس سے ریس کرنا یا اُس سے بغض رکھنا غلط روش ہے۔ تم اُس بچی سے ریس کی وجہ سے لالچ اور طمع کا شکار ہوگئی ہو، یہ نہ ہو کہ تم اس لالچ، طمع اور ریس کی وجہ سے اور خوب سے خوب ترکی تلاش و جستجو میں مزید وقت گنوا دو، اور ایک دن ہم سب کو پچھتانا پڑے۔
***
دینِ اسلام میں رشک کرنا یا ریس کرنا صرف نیکی اور اچھے کاموں کے لیے جائز ہے۔ برائی میں ریس کرنا یا دولت اور فیشن میں ریس کرنا، اللہ کی تقسیم پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ بڑا منصف ہے۔ شکل و صورت، مال و دولت، صحت سب اس کی دین ہیں، اور وہ اپنے بندوں کو انصاف سے نوازتا ہے۔ ایسا ناممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ہر چیز سے محروم کرے۔ لہٰذا ان مادی چیزوں کے لیے دوسروں کو دیکھ کر طلب کرنا اور خدا سے نالاں ہونا یا اس کی تقسیم پر سمجھوتاز اور صبر نہ کرنا گناہ ہے اور شرکِ مخفی کے مترادف ہے۔ لہٰذا آپؐ اور صحابہ کرامؓ کے طریقہ کار کے مطابق ہر معاملے میں عمل کرنے کی کوشش کرنا لازمی ہے۔ صحابہ کرامؓ اچھائیوں اور نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسروں سے ریس کرتے اور رشک کرتے تھے، اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاریخِ اسلام میں کئی ایسے واقعات درج ہیں، خصوصاً حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ میں بڑا سخت مقابلہ رہتا تھا، مثلاً جہاد کے موقعوں پر حضرت عمرؓ یہ سمجھتے تھے کہ میں اپنا بڑا مال اس کارِ خیر میں دے رہا ہوں، جبکہ وہاں جاکر معلوم ہوتا کہ حضرت ابوبکرؓ نے تو اپنے گھر کا تمام مال و اسباب جہاد کے خرچے کے لیے نذر کردیا۔ صحابہ کرامؓ میں اس بات میں آپس میں مقابلہ رہتا تھا کہ نیکیوں اور کارِ خیر میں ہمارا حصہ زیادہ سے زیادہ ہو۔ یہی حال عبادات میں بھی رہتا تھا۔ اپنی اولاد کو ان اعلیٰ ہستیوں کی مثالیں دے کر ان جیسا عمل کرنے کی ترغیب دلائیں، نہ کہ شوبز کے افراد کو ان کے لیے آئیڈیل کا تصور دیں۔ ترقی کے لیے آگے بڑھیں لیکن اللہ اور رسولؐ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔ ان حدود میں رہ کر بھی انسان ترقی کرسکتا ہے۔ آج ہمارے اردگرد بھی ایسے کئی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دنیا اور آخرت کو بھی سنوارنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ ہماری ترجیح رب کو راضی کرنا ہے نہ کہ بندوں کو۔ ایک بچی نے اپنی جدید یونیورسٹی کی دوستوں کی وجہ سے عبایا کو خیرباد کہہ دیا کہ کہیں وہ مجھے دقیانوسی یا پینڈو نہ سمجھیں، جبکہ اسے چاہیے تھا کہ عبایا کے اندر رہ کر اپنے آپ میں شرم و حیا اور اخلاق کی وہ خوبیاں پیدا کرتی کہ باقی بچیوں کے سامنے رول ماڈل بن جاتی۔ رب العزت ہمیں اپنے اردگرد بسنے والے نیک بندوں پر رشک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان جیسا بننے کی صلاحیت عطا کرے، آمین۔