دین انسان کو انسان بناتا ہے۔ حسن ہر چیز کی صفت ہے اور خداوند تعالیٰ نے ہر چیز کو حسین پیدا کیا ہے، لیکن حسین انسان اور حسین لباس میں فرق ہے۔ حسین انسان اور حسین بدن میں فرق ہے۔ حسین سبزہ و باغات اور حسین انسان میں فرق ہے۔ سب چیزیں خلقت کے اعتبار سے حسین ہیں، لیکن انسان اپنے خُلق کے اعتبار سے حسین ہے۔ قرآن نے حُسنِ یوسف علیہ السلام کا جو واقعہ بیان کیا ہے، اس میں حُسنِ یوسفؑ ، حسین چہرے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یوسفؑ کے حُسن کا راز قرآن کے اس واقعے میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیزِ مصر کی زوجہ نے اپنے اوپر لگنے والی تہمتوں کی صفائی پیش کرنے کے لیے عورتوں کے درمیان سے گزارنے کا نقشہ ترتیب دیا، تو اُس وقت تمام عورتوں کے ہاتھ میں پہلے سے سیب اور چھری پکڑا دی اور ان عورتوں کو سیب کاٹنے کے لیے کہا۔ جب عورتیں سیب کاٹنے میں مصروف ہوگئیں، تو عزیزِ مصر کی زوجہ نے حضرت یوسفؑ کو ان کے درمیان سے گزرنے کو کہا، اور جیسے ہی حضرت یوسفؑ ان کے درمیان سے گزرے تو سب عورتیں حضرت یوسفؑ کے حُسن میں اس طرح سے غرق ہوئیں کہ ان کو اپنی انگلیوں کے کٹنے کا بھی احساس نہ ہوا، حالاں کہ حضرت یوسف علیہ السلام پہلی دفعہ ان عورتوں کے سامنے سے نہیں گزرے تھے، اس سے پہلے بھی ان خواتین کے سامنے آتے جاتے تھے، لیکن اُس وقت کسی عورت نے اپنا ہاتھ نہیں کاٹا۔ قرآن میں غور و فکر اور تدبر کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حسین شکل و صورت کو دیکھ کر ہاتھ نہیں کاٹے تھے، بلکہ اُس دن ان کو حضرت یوسف علیہ السلام کی حسین سیرت نظر آگئی تھی، کیوں کہ یہ عورتیں صورت تو روز دیکھتی تھیں، لیکن آج انہوں نے ان کی حسین سیرت بھی دیکھ لی تھی، اور جب یہ حسین سیرت سامنے آئی تو ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہی وہ جوان ہے، جس کے لیے گناہ میں پڑنے کے سارے مواقع بھی موجود تھے، گناہ کی دعوت بھی تھی اور کوئی دیکھنے والا بھی نہیں تھا، لیکن اس وقت میں حضرت یوسف علیہ السلام آنکھیں بند کرکے خوفِ خدا کے ساتھ یہ کہیں کہ خبردار، یوسف کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ یہ وہ سیرت تھی کہ جس کا ان عورتوں نے مشاہدہ کیا تھا اور پھر اس کے بعد انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہا۔ حضرت یوسفؑ کا یہ جمال خَلق کا جمال نہیں تھا، بلکہ یہ خُلق کا جمال تھا، جو حضرت یوسف علیہ السلام نے خود اپنے اندر پیدا کیا تھا۔
علم ہی کے ذریعے انسان ذرّوں سے حرکت شروع کرتے ہوئے کہکشاؤں تک جا پہنچتا ہے۔ لیکن علم کو فخر، گھمنڈ بنالے تو اسی راستے پر چلتے ہوئے منزل گم کربیٹھتا ہے۔ آج ہمیں معاشرے میں جو ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان ہیں، علما، سیاست دان، صحافی اور دیگر افراد نظر آرہے ہیں، کیا یہ انسان بھی ہیں؟ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں مولانا رومؒ کی حکایت بیان کی ہے کہ ایک بہت ہی بامعرفت باباجی دن کے وقت سورج کی روشنی میں چراغ لے کر گھوم رہے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا: بابا جی، دن کے وقت چراغ لے کر کیا ڈھونڈ رہے ہو؟
بابا جی نے جواب دیا: انسان ڈھونڈ رہا ہوں۔
لوگوں نے کہا کہ ہم نے بہت ڈھونڈا، لیکن نہیں ملا۔
بابا جی نے کہا: جو نہیں ملا، اسی کو تو ڈھونڈ رہا ہوں۔
حالاں کہ انسان تو انسانوں کے درمیان ہی موجود ہوتے ہیں۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کا مذاق نہیں اُڑاتے، ان کے دلوں پر طنز کے نشتر نہیں چلاتے، بدزبانی نہیں کرتے، بدتمیزی نہیں کرتے، کسی نشے کو اختیار نہیں کرتے، نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ یہ میری ’’دوا‘‘ ہے اور اس کے بغیر میں جی نہیں سکتا، یا اس کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی بندے بندوں پر ظلم نہیں کرتے اور ہمیشہ اللہ کے غضب سے ڈرتے ہیں!!
nn