ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
ملکی تاریخ کا ایک اہم فیصلہ اس ماہ ہونے جارہا ہے۔۔۔ پاکستان کی شمال مغربی سرحدی قبائلی پٹی کے مستقبل کا فیصلہ۔ نومبر 2015ء میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کی صدارت میں فاٹا اصلاحات تجویز کرنے کے لیے ایک 6رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں درج ذیل شخصیات شامل تھیں: ظفر اقبال جھگڑا (گورنر خیبر پختون خوا)، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ (وفاقی وزیر سیفران)، زاہد حامد (وفاقی وزیر انصاف و قانون)، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ (مشیر قومی سلامتی) اور محمد شہزاد ارباب (سیکرٹری سیفران)۔ اس کمیٹی کے ارکان نے 31 دسمبر 2015ء سے لے کر 2 مئی 2016ء تک تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کیا جن میں باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکرزئی،کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور FRعلاقے شامل ہیں۔ اس دوران تقریباً 3500 قبائلی عمائدین اور مشران سے ملاقاتیں کی گئیں۔ ہر ایجنسی میں سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں، تاجروں، وکلاء، نوجوانوں اور دیگر اہم شخصیات سے ان کی رائے لی گئی۔ ان کے علاوہ کمیٹی نے فاٹا کے منتخب ارکانِ پارلیمنٹ سے چار بار تفصیلی نشستیں کیں جن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 19 قبائلی ارکان شریک ہوئے۔ پارلیمانی ارکان نے متفقہ طور پر سات نکاتی میمورنڈم کمیٹی کو پیش کیا جس کو حتمی سفارشات میں سمویا گیا۔
اس موقع پر مناسب ہوگا کہ اُس آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کا بھی ذکر ہوجائے جو 2 نومبر 2015ء کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق کی میزبانی اور صدارت میں منعقد ہوئی تھی۔ اس اعلامیہ پر ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں کے دستخط ہیں جن میں جماعت اسلامی کے علاوہ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔ البتہ جمعیت علماء اسلام (ف) اس میں شامل نہیں۔ فاٹا سے منتخب ارکانِ پارلیمنٹ نے قومی اسمبلی میں جو 22 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا تھا اس اعلامیہ میں اس کی مکمل تائید کی گئی ہے اور اس کے ساتھ باقاعدہ یہ مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا کی آئینی حیثیت وفاق کے زیرانتظام علاقے فاٹا(FATA) سے تبدیل کرکے صوبہ خیبر پختون خوا کے زیرانتظام قبائلی علاقہ پاٹا (PATA) بنایا جائے۔ اس طرح فاٹا کے لوگوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ملے اور سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ کا دائرۂ اختیار فاٹا تک بڑھایا جائے تاکہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوکر اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی حمایت مل سکے۔ یہ مطالبات بالکل واضح اور زمینی حقائق کے مطابق ہیں۔ لیکن کمیٹی نے ان میں سے 1، 2 نکات کو نظرانداز کیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
23 اگست 2016ء کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو، اور پھر 24 اگست کو قومی سلامتی کمیٹی کو پیش کی۔ وزیراعظم نے ہدایت دی کہ اس رپورٹ کو عام مشتہر کیا جائے اور پھر پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے۔ چنانچہ 9 ستمبر 2016ء کو سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں بحث کے لیے کمیٹی کی سفارشات پیش کیں۔ پھر 27 ستمبر کو سینیٹ کے اجلاس میں پیش کی گئیں۔ بالعموم ارکانِ پارلیمنٹ نے اس رپورٹ پر مثبت خیالات پیش کیے۔
اس دوران میڈیا میں بھی رپورٹ پر مباحثہ شروع ہوا۔ وزارتِ سیفران کی ویب سائٹ پر قبائل کے خیالات جاننے کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کی گئی جس پر فروری 2017ء تک 3000 افراد نے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا، جن میں سے اکثریت نے قبائلی علاقے کے خیبر پختون خوا میں انضمام پر خوشی کا اظہار کیا۔ 3 دسمبر 2016ء ہی کو وزارت نے کابینہ کو ایک سمری بھیجی جس میں ان سفارشات کی منظوری کی سفارش کی گئی۔ چنانچہ 15دسمبر کو یہ سفارشات کابینہ میں زیرغور لائی گئیں جس پر اتفاقِ رائے کے بعد کابینہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان سفارشات پر مزید حمایت اور اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے، جس کے لیے مزید کوششوں کے بعد دوبارہ 2 مارچ 2017ء کو وفاقی کابینہ نے اس پیکیج کی منظوری دی جو درج ذیل ہے:
1۔ اصولی طور پر طے کیا گیا کہ آئندہ 5سال میں فاٹا کو قومی دھارے میں لایا جائے گا اور اس کے لیے تمام اہم فریقوں سے مشاورت کی جائے گی۔ (نوٹ کریں کہ انضمام کی جگہ قومی دھارے کی اصلاح استعمال کی گئی)
2۔ آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کے لوگوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں خیبر پختون خوا کی اسمبلی کے لیے اپنے نمائندے منتخب کریں۔
3۔ ایف سی آر کے قانون کو منسوخ کردیا جائے گا اور اس کی جگہ رواج ریگولیشن قبائلی علاقوں کے لیے نئے قانون کے طور پر بنایا جائے گا، جس کو آئین کی دفعہ 247کے تحت صدر سے منظور کرایا جائے گا۔ اس میں موجودہ اجتماعی ذمہ داری کی شق کو ختم کرکے ہر فرد کو فردِ جرم کا خود ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔
4۔ متاثرینِ آپریشن کی واپسی 30 اپریل 2017ء سے پہلے مکمل کی جائے گی اور 2018ء کے اختتام سے پہلے تعمیرنو کا بیشتر حصہ مکمل کردیا جائے گا۔
5۔ گورنر خیبر پختون خوا کے تحت ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے گی جو 30اپریل 2017ء سے پہلے پہلے فاٹا کے لیے سماجی و اقتصادی ترقی کا 10سالہ ترجیحی منصوبہ تیار کرے گی۔
6۔ این ایف سی سے فاٹا کے ترقیاتی منصوبے کے نفاذ کے لیے مجموعی وفاقی قابل تقسیم ذخیرے سے 3فیصد حصہ مختص کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ یہ رقم موجودہ 21 ارب روپے PSDP کی مختص رقم کے علاوہ ہوگی۔
7۔ فاٹا کے ترقیاتی منصوبے کے لیے مختص 30 فیصد حصے کو بلدیات کے ذریعے بروئے کار لایا جائے گا۔
8۔ فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (FDA) کو چیف آپریٹنگ آفیسر کے زیر کنٹرول لایا جائے گا جو کہ گریڈ 22کا افسر ہوگا جس کا کام تعمیرنو کا اور 10سالہ سماجی و اقتصادی منصوبے پر عمل درآمد اور نگرانی ہوگا۔
9۔ فاٹا کے تمام ایم این ایز اور سینیٹرز پر مشتمل گورنر کی مشاورتی کونسل قائم کی جا سکتی ہے جو کہ گورنر کی ترقیاتی اور انتظامی کاموں میں مدد کرے گی۔
10۔ فاٹا ترقیاتی کمیٹی کا فنڈ قانونی عمل کے ذریعے 40کروڑ روپے سے بڑھا کر 2 ارب روپے اور FDWPکا فنڈ 20کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردیا جائے گا۔
11۔ 2018ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد پارٹی بنیادوں پر فاٹا میں بلدیاتی الیکشن کروائے جائیں گے۔
12۔ بڑے پیمانے پر کرپشن کی روک تھام کے لیے پرمٹ اور راہداری سسٹم کو ختم کیا جائے گا جو کہ درآمدات پر لاگو ہے، اس سے اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم ہوں گی۔
13۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فنڈز اور لوکل باڈیز کے دوسرے اخراجات کا ٹھیک طرح سے آڈٹ ہو، تاکہ اس کے مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔
14۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرۂ اختیار فاٹا تک بڑھایا جائے گا تاکہ فاٹا کے عوام مساوی حقوق سے مستفید ہو۔
15۔ لیویز فورس میں اضافی پوسٹوں کا اجراء فنانس ڈویژن کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا، اور ان کا کام پولیس جیسا ہوگا۔ تباہ شدہ لیویز پوسٹوں کی تعمیرنو ہوگی اور ان کے انفرااسٹرکچر میں مزید اضافہ کیا جائے گا، تاکہ سیکورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سول آرمڈ فورسز میں نئے ونگ کے قیام پر بھی غور کیا جائے گا۔
16۔ ایف سی کی استعدادِ کار اور صلاحیت کو بڑھایا جائے گا اور نئے ونگ بنائے جائیں گے تاکہ سرحدوں کی حفاظت کے کام کو زیادہ مؤثر اور یقینی بنایا جا سکے۔
17۔ فاٹا کے تمام عہدے اپ گریڈ کرکے خیبر پختون خوا کے برابر لائے جائیں گے۔ فاٹا میں کسی پروجیکٹ کے عہدیدار کی تنخواہ خیبر پختون خوا والے سے 20 فیصد زیادہ ہوگی۔
18۔ فاٹا کو کسی موزوں جگہ پر پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک کیا جائے گا۔
19۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان فاٹا میں مزید نئے بینکوں کی برانچوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
20۔ سول عہدیداروں کی ڈپوٹیشن کے حوالے سے صدارتی آرڈر نمبر 197213کو Reviseکیا جائے گا تاکہ گورنر کو فاٹا کے اس تبدیلی کے عرصے کے لیے زیادہ بااختیار کیا جائے اور وہ تبدیلی کے اس دورانیے کے لیے مختلف ذرائع سے اچھے افسروں کو راغب کرسکے۔
21۔ فاٹا کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین کی پیمائش کا نظام لایا جائے گا تاکہ حقوق کا انفرادی کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بنایا جا سکے۔
22۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال اور مائیکرو فنانس اسکیم کی صحیح کوریج کو فاٹا میں یقینی بنایا جائے۔
23۔ فاٹا طلبہ کے کوٹے کو خیبر پختون خوا کے ساتھ ضم ہونے کے بعد بھی دوسرے صوبوں کے تعلیمی اور صحت کے اداروں میں نہ صرف برقرار بلکہ دگنا کردیا جائے گا۔
24۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈائریکٹریٹ قائم کیا جائے گا جو تبدیلی کے اس عمل اور اصلاحات کے عملی نفاذ کی نگرانی کرسکے گا۔
خیبر پختون خوا کی حکومت نے اصلاحات کے اس پیکیج پر جو اعتراضات کیے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ چونکہ ان اعلانات میں 2018ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نشستیں دینے کا وعدہ کیا گیا ہے جب کہ انضمام کے عمل کو مؤخر کردیا گیا ہے جو کہ بڑی عجیب بات ہے۔ بغیر انضمام کے صوبائی اسمبلی میں کیسے ایک علاقے کو نشستیں دی جا سکتی ہیں! ظاہر ہے جو ارکانِ اسمبلی ان نشستوں پر منتخب ہوکر آئیں گے وہ پھر وزیراعلیٰ اور اسپیکر کے انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ خود امیدوار بنیں گے یا ووٹ دیں گے۔ پھر کابینہ میں بھی شامل ہوں گے۔ سالانہ ترقیاتی منصوبے میں بھی حصہ لیں گے، تو یہ سب کچھ قبائلی علاقوں کی صوبے میں شمولیت کے بغیر کیسے ممکن ہوگا؟ اسی لیے صوبائی حکومت نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے انضمام کا فیصلہ یقینی بنائے۔ پھر یہ کہ ترقیاتی بجٹ کا اختیار گورنر کے پاس ہوگا۔ لیویز کی بھرتی وہ کرے گا تو وزیراعلیٰ کیا کر ے گا؟ صوبائی کابینہ کا ایک وفد سرتاج عزیز سے مل چکا ہے اور صوبائی حکومت کے تمام خدشات اور تحفظات اُن کے گوش گزار کردیے ہیں، البتہ وفد میں شامل جماعت اسلامی کے سینئر وزیر عنایت اللہ خان نے مجموعی طور پر اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے اس کو درست سمت میں ایک بڑا قدم قرار دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے بھی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا اصلاحات میں انضمام کی جگہ قومی دھارے میں شامل کرنے کا نکتہ مبہم ہے جس کو دور کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مفاد پرست عناصر فاٹا کی صوبہ خیبر پختون خوا میں شمولیت کے خلاف ہیں کیونکہ وہ فاٹا کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں، اس لیے فاٹا کے انضمام کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے لیے کسی بھی جدوجہد سے دریغ نہیں کرے گی۔ فاٹا کے عوام نے ایف سی آر کے خاتمے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہے اور وہ انضمام کے فیصلے کی تائید کررہے ہیں۔
اپریل اس اہم مسئلے کے حل کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس ماہ سرتاج عزیز پشاور آکر صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیں گے اور 20 اپریل کو قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پیش ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ امید ہے اُس وقت تک اس راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر لی جائیں گی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے اہم اتحادی مولانا فضل الرحمن کو اپنے مؤقف پر نظرثانی کے لیے قائل کرسکے گی۔ جہاں تک قانونی ابہام دور کرنے کا تعلق ہے، وہ پاٹا ریگولیشن کو مزید بہتر بناکر قبائلی علاقوں پر نافذ کرنے اور قاضی کورٹس کے قیام سے دور ہوسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں کے عوام بالعموم نوجوان فاٹا اصلاحات کے فوری اور عملی نفاذ کے لیے بہت پُرجوش اور پُرامید ہیں۔ امید ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت اس اہم موقع کو ضائع نہیں کرے گی اور تذبذب کا شکار ہوکر معاملات کو لٹکانے کے بجائے مضبوط فیصلے کرے گی۔ یقیناًاس اقدام کا کریڈٹ بھی اس کو جائے گا جس کی وہ مستحق ہوگی۔ بصورتِ دیگر التواء کے مضمرات کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی۔ اللہ رحم کرے۔ (آمین)