بس بہاولنگر سے چل پڑی تھی۔ بھری ہوئی بس میں مجھے جو جگہ ملی وہاں اگلی سیٹ پر ایک بوڑھا اور دو لڑکے بیٹھے تھے۔ بس ایک اسٹاپ پر رکی تو دونوں باتونی لڑکے اُتر گئے اور کھڑے ہوئے لوگوں میں سے دو افراد آکر بابا کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بس پھر چل پڑی۔ کنڈیکٹر ٹکٹ تقسیم کرنے آگیا تھا۔ بابا نے بھی ٹکٹ لیا۔۔۔ اور اسی وقت بابا کے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے اپنی جیبوں میں ہاتھ مارتے ہوئے کہا:’’ہائے میں لٹ گیا۔ بس روکو۔ بس روکو۔ میری جیب سے کسی نے پانچ سو روپے نکال لیے۔‘‘ ]اُس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم ہوتی تھی[
بس میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ وہ شخص چیخ رہا تھا: ’’پورے پانچ سو تھے۔ سو سو کے پانچ نوٹ۔‘‘
کنڈیکٹر نے اعلان کیا کہ بس کسی تھانے کے آگے روکی جائے، پولیس والے خود تلاشی لیں گے، اُس وقت تک بس سے کوئی نہیں اترے گا۔ لوگ اپنی اپنی جیبیں ٹٹول رہے تھے کہ کہیں وہ بھی جیب تراش کا شکار نہ ہوگئے ہوں۔ نامعلوم چور پر سب لوگ لعنت بھیج رہے تھے۔ وہ شخص کہہ رہا تھا:’’ابھی پتا چل جائے گا کہ کس نے نکالے ہیں میرے نوٹ۔ میرے نوٹوں کے کونوں پر نیلی سیاہی کا نشان ہے۔‘‘
کسی نے کہا :’’ہوسکتا ہے جس نے جیب کاٹی ہو، وہ پچھلے اسٹاپ پر اتر گیا ہو۔‘‘
وہ شخص فوراً بولا: ’’نہیں جی، اسٹاپ سے چلنے کے بعد بھی نوٹ میرے پاس تھے۔ میں نے خود گنے تھے۔ چور بس میں ہی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد بس ایک تھانے کے آگے رک گئی۔ ڈرائیور اتر کر تھانے چلا گیا۔ لوگ بس کی بند کھڑکیوں کے شیشوں میں سے دیکھ رہے تھے۔ ڈرائیور تھانے سے برآمد ہوا تو اُس کے ساتھ دو سپاہی اور تھانے دار صاحب تھے۔۔۔ کنڈیکٹر دروازے کی چٹخنی لگائے محتاط کھڑا تھا۔ اب سواریوں کو ایک ایک کرکے اتارا جانے لگا۔ ہر شخص کی اچھی طرح تلاشی لی جارہی تھی۔ وہ شخص سپاہیوں کے ساتھ کھڑا انہیں حادثے کی روداد سنارہا تھا۔
عورتوں نے اپنی تلاشی لینے پر احتجاج کیا تھا، اس لیے تھانیدار نے فیصلہ کیا تھاکہ پہلے مردوں کی تلاشی لی جائے، اس کے بعد ایک عورت باقی عورتوں کی تلاشی لے گی۔ سامان بھی چیک ہوگا۔
ایک ایک کرکے مرد اُتر رہے تھے۔ میرے بعد بابا جی کی باری آئی۔ ان کی تلاشی ہوتے ہی شور اٹھا: ’’یہ رہے۔۔۔یہ رہے میرے پیسے‘‘۔ سپاہی نے بابا کو گریبان سے پکڑ کر منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا: ’’او بڈھے، تجھے شرم نہ آئی جیب کاٹتے ہوئے! شکل مومنوں کی، کرتوت کافروں کے۔‘‘
ایک عورت بولی: ’’ہائے میں مرجاؤں، اس بڈھے نے رقم نکالی تھی!‘‘
بابا کہہ رہا تھا: ’’خدا کی قسم، یہ روپے میرے ہیں۔ میں نے آج ہی بکرامنڈی میں بکریاں بیچی ہیں۔‘‘
وہ شخص چیخا:’’بکواس کررہا ہے فراڈیا۔‘‘
سپاہی نے بابا کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:’’اوئے بڈھے، چٹی داڑھی کی ہی لاج رکھنی تھی۔‘‘
اِدھر اُدھر سے بھی کافی لوگ اکٹھے ہوگئے تھے اور سب اپنے اپنے لہجے میں لعن طعن کررہے تھے۔
تھانیدار نے رقم اس آدمی کو دے دی۔ اس نے تھانیدار صاحب کا، ڈرائیورکا اور کنڈیکٹر کا شکریہ ادا کیا اور پانچ پانچ کے دو نوٹ ایک سپاہی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’حوالدار جی! چائے پانی کے لیے۔‘‘
دوسرا سپاہی بابا کو دھکیلتا ہوا تھانے کی طرف لے چلا۔ بابا کی پگڑی کھل کر پیروں میں آگئی تھی اور زمین پر گھسٹ رہی تھی۔ اس نے بے چارگی سے آسمان کی طرف دیکھا اور پکارا:’’یااللہ۔۔۔ انصاف کر۔‘‘
ہم بس میں بیٹھنے کے لیے بس کی طرف بڑھ رہے تھے، وہ شخص جس کے روپے چوری ہوئے تھے سواریوں والے ایک تانگے میں بیٹھا، اور تانگہ چل پڑا۔ اچانک مخالف سمت سے آنے والا ایک تیز رفتار تانگہ اس تانگے سے زور کے ساتھ ٹکرا گیا۔ چیخ و پکار کا شور اٹھا۔ حادثہ اتنا غیر متوقع تھا کہ سب دیکھتے رہ گئے۔ وہ شخص جو روپے لے کر تانگے میں بیٹھا تھا، بری طرح چیخ رہا تھا۔ دوسرے تانگے کا بانس اُس کی پسلیوں کو توڑتا ہوا سینے میں اتر گیا تھا۔ خون ابل ابل کر اس کے کپڑوں پر پھیلتا چلا جارہا تھا۔ میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔ اس نے ڈوبتی اور لڑکھڑاتی آواز میں کہا ’’بابا جی کو بلاؤ، جلدی کرو، وقت بہت کم ہے۔‘‘
لوگ بابا جی کو لینے کے لیے تھانے کی طرف دوڑے۔ ذرا سی دیر میں بابا جی آگئے۔ خون اب زخمی کے منہ سے بھی نکل رہا تھا۔ ’’بابا جی۔ بابا جی۔‘‘ زخمی نے خون تھوکتے ہوئے کہا: ’’میں سب کے سامنے آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ یہ روپے آپ ہی کے تھے، میں نے آپ پر جھوٹا الزام لگایا۔ جب آپ نے ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نکالے تو میں نے گن لیے تھے اور ان پر لگا ہوا نشان بھی دیکھ لیا تھا۔ بابا جی مجھے معاف کردینا۔‘‘
یہ کہتے کہتے اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ بابا جی کی آنکھوں میں آنسوؤں کے دو موتی ٹوٹے جنہیں انہوں نے اپنی کھلی ہوئی پگڑی میں سنبھال لیا اور ایک بار پھر آسمان کی طرف دیکھا۔
nn