نام کتاب
:
تاریخ آسام
مصنف
:
شہاب الدین احمد طالش
مترجم
:
میر بہادر علی حسینی
مرتب
:
ساجد صدیق نظامی
صفحات
:
216 قیمت 300 روپے
ناشر
:
مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور
25-C لوئر مال لاہور
فون نمبر0301-8408474
0333-4182396
یہ کتاب 1805ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں لکھی گئی۔ اصل کتاب کا نام ’’تاریخ آشام‘‘ ہے۔ کیونکہ اُس عہد میں ’’آسام‘‘ کا تلفظ ’’آشام‘‘ بھی کیا جاتا تھا۔ تاریخ آسام بنیادی طور پر شہاب الدین طالش کی فارسی کتاب فتحیہ عبریہ/تاریخ ملک آسام کا ترجمہ ہے۔ اصل فارسی کتاب کا موضوع اس جنگی مہم کے احوال ہیں جو 1663ء میں میر جملہ میر محمد سعید اردستانی کی سربراہی میں اورنگ زیب عالم گیر نے آسام کی طرف روانہ کی تھی۔ اردو تاریخ آسام ہنوز غیر مطبوعہ رہی ہے۔ البتہ 1840ء میں اس کا ایک فرانسیسی ترجمہ پیرس سے شائع ہوچکا ہے۔
تاریخ آسام کے مترجم میربہادر علی حسینی ہیں۔ حسینی فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے میر منشی/ہیڈ منشی کے طور پر منسلک رہے۔ میرامّن کو گلکرسٹ سے ملوانے والے یہی تھے۔ ان سے یادگار دیگر تالیفات میں اخلاقِ ہندی، نثر بے نظیر، نقلیات، رسالہ قواعد اردو اور ترجمہ قرآن مجید شامل ہیں۔
ساجد صدیق نظامی گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور کینٹ میں اردو کے لیکچرر ہیں۔ انہوں نے اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل (اردو) کی تکمیل کے لیے ’’تاریخ آشام‘‘ کو مرتب کیا۔ اب یہ کتاب مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور کی جانب سے پہلی مرتبہ اردو دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔
اس نادر کتاب کے مرتب جناب ساجد صدیق نظامی تحریر فرماتے ہیں:
’’مغل بادشاہوں کے درباروں میں تاریخ نویسی کا ذوق بابر کے دور سے شروع ہوگیا تھا۔ بابر سے اورنگ زیب تک ہر مغل بادشاہ نے دیگر امورِ سلطنت سرانجام دینے کے ساتھ علم پروری کی روایت بھی جاری رکھی۔ اسی علم پروری کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم مغلیہ عہد میں تحریر کی گئی کئی کتبِ تواریخ موجود پاتے ہیں۔ ان تواریخ کی موجودگی میں ایک مؤرخ کے لیے مغلیہ عہد کا کوئی اہم واقعہ مخفی نہیں رہ سکتا۔ ان کی مدد سے آج بھی مؤرخین اس عہد کی مکمل اور مفصل تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ان تواریخ میں محض واقعات ہی درج نہیں بلکہ متعلقہ دور کی ثقافتی سرگرمیوں، ادبی گہما گہمیوں، سیاسی چالوں اور نظام سلطنت کی پیچیدگیوں کا بھی اتنا ہی ذکر ہے۔
اگر محض مغلیہ عہد کی اہم تواریخ کی ایک فہرست تیار کی جائے تو کئی ایک نام سامنے آتے ہیں: عبدالرحیم خانِ خاناں کا بابر نامہ، میرزا حیدر کاشغری کی تاریخ رشیدی، عبدالقادر بدایونی، نظام الدین ہروی اور ابوالفضل کی منتخب التواریخ، طبقاتِ اکبری اور اکبرنامہ۔ اسی طرح عہدِ جہانگیری میں معتمد خان ایرانی کا اقبال نامۂ جہانگیری اور سکندر گجراتی کی مرآۃ سکندری، اور عہدِ شاہ جہانی میں محمد امین قزوینی کا بادشاہ نامہ اور طاہر خراسانی کا شاہ جہاں نامہ نظر آتا ہے۔ عہدِ اورنگ زیب میں بھی یہ روایت جاری نظر آتی ہے۔ ہم مغلیہ عہد کی معروف تواریخ کے اہم نام اس عہد میں دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً عملِ صالح موسوم بہ شاہ جہاں نامہ، از محمد صالح لاہوری اور مرآۃ العالم: تاریخ اورنگ زیب از خواجہ محمد بختاور خان۔ اسی طرح سجان رائے بٹالوی کی خلاصۃ التواریخ اور عاقل خان رازی کی طبقاتِ عالمگیری بھی عہدِ اورنگ زیب کی یادگاریں ہیں۔ عہدِ اورنگ زیب ہی میں ہم ایک اور تاریخ کا نام دیکھتے ہیں اور یہ ہے تاریخ ملک آشام یا فتحیہ عبریہ/عبرتیہ (اس زمانے میں آسام کے علاقے کو فارسی تلفظ میں آشام ہی کہا جاتا تھا۔ لہٰذا اس دور کی سبھی تواریخ میں آشام ہی درج ہے) از شہاب الدین احمد طالش۔ اگرچہ یہ تاریخ دیگر تواریخ کی طرح مفصل نہیں، اور نہ ہی زمانی اعتبار سے پورے عہدِ اورنگ زیب پر محیط ہے، مگر اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ اورنگ زیب عالمگیر کی تخت نشینی کے چوتھے برس 1073ھ/ 1663ء صوبہ آسام پر شاہی افواج کی چڑھائی کی آنکھوں دیکھی روداد ہے۔ اس برس شاہی لشکر میر جملہ خانِ خاناں معظم خان میر محمد سعید اردستانی کی سربراہی میں آسام کی فتح کو روانہ ہوا تھا۔ تاریخ ملکِ آشام کا مصنف شہاب الدین احمد طالش وقائع نگار کی حیثیت سے اس لشکر کے ہمراہ تھا۔ یہ مہم قریب ایک سال کے عرصے پر محیط رہی، لہٰذا اس مہم میں پیش آمدہ واقعات کا تذکرہ ’’تاریخ ملک آشام‘‘ میں موجود ہے۔ بعد کے ادوار میں کئی مؤرخین نے عہدِ اورنگ زیب کی تواریخ لکھتے ہوئے متعلقہ مقامات پر اس تاریخ سے خاصا استفادہ کیا ہے۔
1800ء میں جب کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تو اس کے قیام کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں ایسی کتب تصنیف و ترجمہ کروائی جائیں جو نووارد انگریز اہلکاروں کو برصغیر کی مقامی معاشرت اور ماحول کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں۔ تاریخ ملک آشام کو بھی اسی مقصد کے تحت ترجمہ کروانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس کے ترجمے کا کام میر بہادر علی حسینی نے 1805ء میں ’’تاریخ آشام‘‘ کے نام سے سرانجام دیا جو اُس وقت فورٹ ولیم کالج سے متعلق تھے۔ 1805ء میں یہ ترجمہ تو ہوگیا مگر کسی باعث اس کی اشاعت ممکن نہ ہوئی، لہٰذا یہ ترجمہ مخطوطے کی صورت میں موجود رہا۔ میر بہادر علی حسینی کی جتنی تصانیف کا سراغ ملتا ہے ان میں اب تک تاریخِ آسام پردۂ اخفا میں رہی ہے۔ اس کا ایک نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، کلکتہ کے کتب خانے میں اور دوسرا نسخہ ببلیوتھک ناسیونال، پیرس، فرانس میں محفوظ ہے۔
اس تدوین میں پیرس والے نسخے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کلکتہ والا نسخہ باوجود بہت سی کوششوں کے دستیاب نہ ہوسکا، جبکہ پیرس والا نسخہ بغیر کسی کوشش کے مل گیا۔ برصغیر کے بیشتر کتب خانے ایسے معاملات میں جو رویہ روا رکھتے ہیں وہ سب پہ روشن ہے۔
متن سے پہلے ایک مقدمہ بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس میں حسینی کے احوال اور ان کی تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ آشام کی نثر کا مفصل تجزیہ بھی اس میں شامل ہے۔ متن کے بعد فرہنگ بھی شامل کی گئی ہے۔
یہ کام بنیادی طور پر میرے ایم فل (اردو) کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر 2010ء میں پنجاب یونیورسٹی، لاہور نے ایم فل کی سند جاری کی۔ اب اسے کتابی صورت میں شائع کیا جارہاہے۔ ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر، پروفیسرشعبۂ اردو اس تحقیقی کام کے نگران تھے۔ ان کی نوازش کے اعتراف کے علاوہ چند کرم فرماؤں کا تذکرہ اور ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ خواجہ محمد زکریا صاحب کی مسلسل توجہ اور رہنمائی خاکسار کا سرمایۂ افتخار ہے۔ تاریخ آسام کے متن کی تیاری میں بھی خواجہ صاحب نے بہت زیادہ مفید نکات کی نشاندہی کی۔ محمد سلیم الرحمن صاحب نے خاص کر فرہنگ متن کے بارے میں نہایت مفید مشورے عنایت کیے۔ ان بزرگوں کی توجہ اورکرم فرمائی کا شکریہ ادا تو نہیں ہوسکتا مگر اس کا اعتراف ضرور کیا جاسکتا ہے۔ سید معراج جامی صاحب نے ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے کتب خانے سے کلکتے والے نسخے کا عکس حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کی، اگرچہ وہ کام نہ ہوسکا۔ ناواقفیت اور عدم تعارف کے باوجود انہوں نے شفقت فرمائی۔ اسی ضمن میں تنویر غلام حسین کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر رفاقت علی شاہد صاحب کے توسط سے بیشتر کتب کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوا۔ برادر بزرگ الیاس محمود نظامی نے میری فرمائش پر نیشنل لائبریری، پیرس سے تاریخ آشام کے نسخے کا عکس حاصل کیا۔ عبدالستار صاحب نے کمپوزنگ کے مراحل آسان کردیے۔ نظامی صاحب نے کتاب پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے۔ صفحہ 43 سے متن کتاب شروع ہوتا ہے اور صفحہ 183 پر ختم ہوتا ہے۔ چونکہ کتاب کی زبان اردو قدیم ہے اس لیے بڑی محنت سے فرہنگ بھی مرتب کی ہے۔ اماکن کی تفصیل بھی دی ہے۔ اسما کا اشاریہ بھی ہے۔ مخطوطے کے چند صفحات آخر میں لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ آشام کے فرانسیسی ترجمے کے سرورق کا عکس بھی دیا گیا ہے۔
یہ نادر کتاب 300کی ’’کثیر‘‘ تعداد میں طبع کی گئی ہ،ے جس کو شوق ہو وہ فوراً خرید لے۔‘‘
کتاب مجلّد اور نیوز پرنٹ پر شائع کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
نام کتاب
:
کلیاتِ میر(دیوان دوم)
جلد دوم طبع سوم
مرتبہ
:
کلبِ علی خان فائق
صفحات
:
384 قیمت 400 روپے
نام کتاب
:
کلیاتِ میر(دیوان سوم وچہارم)
جلد سوم طبع سوم
صفحات
:
363 قیمت 400 روپے
مرتبہ
کلبِ علی خان فائق
نام کتاب
کلیاتِ میر(دیوان پنجم و ششم)
جلد چہارم۔ طبع سوم
مرتبہ
:
کلبِ علی خان فائق
صفحات
:
318 قیمت 350 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقی ادب 2کلب روڈ۔ لاہور
فون
:
042-99200856/042-99200857
ای میل
:
majlista2014@gmail.com
ویب گاہ
:
www.mtalahore.com
میر محمد تقی میرؔ (پیدائش اواخر1135ھ/اگست ستمبر 1722۔ وفات20 شعبان 1225ھ) اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن وہیں گزرا۔ بعد میں دہلی چلے آئے۔ سراج الدین علی خاں آرزو سے تلمذ حاصل تھا جو میر کے سوتیلے بھائی کے ماموں تھے۔ دہلی کی تباہی کے بعد لکھنؤ چلے گئے۔ اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے عمر بھر پریشان رہے۔ اٹھارہویں صدی کے اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ بقول نیاز فتح پوری ’’میرکا سا غزل گو نہ اُس وقت ہوا نہ آگے اس کی توقع ہے‘‘۔ ان کی حسبِ ذیل تصانیف ہیں:
(1 ) چھ دیوان اردو غزلوں کے،(2) ایک دیوانِ فارسی، (3) متعدد مثنویاں،(4) نکات الشعراء (اردو شاعروں کا تذکرہ)،(5) ذکر میر، (6) فیضِ میر (ایک مختصر فارسی تصنیف (محمدشمس الحق، غزل اس نے چھیڑی 328)
میر تقی میرؔ اردو غزل کے پانچ چھے بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں اور اردو شاعری میں مسلمہ استاد مانے گئے ہیں۔ وہ خود فرماتے ہیں:
برسوں لگی رہی ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب! صاحبِ نظر بنے ہے
اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ میر کے سچے عاشق تھے، اونچا سنتے تھے۔ ایک دن لیکچر کے شروع میں یہ مصرع پڑھا، غالباً ناسخ کا ہے:
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
کلاس روم کے آخر میں ایک طالب علم بیٹھا تھا، اُس کے منہ سے نکل گیا:
اور جو معتقدِ میر ہے وہ بہرہ ہے
کلاس ہنس پڑی۔
ڈاکٹر صاحب نے سن لیا، فرمایا جس نے یہ کہا ہے وہ کھڑا ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر وہ بے چارہ کھڑا ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے کاندھے پر تھپکی دی اور کہا کہ آپ میں ادبیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں، میں آپ کے تبصرے سے ناراض نہیں ہوا بلکہ خوش ہوا۔
طبقات الشعراء میں میر صاحب کے متعلق لکھا ہے:
’’مجموعہ قابلیت و ہنر، صاحبِ طبع خوش فکر، سرآمدِ مشہورانِ عصر، محاورہ دان و متین، متلاشئ مضامینِ نو و رنگین، متجسس الفاظ چرب و شیریں، درمیدان غزل پروازی گوے فصاحت از معاصران می برد، ہر چند سادہ گو است، اما در سادہ گوئی پُرکاریہادارد‘‘۔
حکیم سید عبدالحئی صاحب ’گل رعنا‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میر صاحب کی تصنیفات کی تفصیل یہ ہے کہ چھے دیوان ریختہ غزلوں کے ہیں، چند صفحے ہیں جن میں فارسی کے عمدہ متفرق اشعار پر اردو مصرعے لگا کر مثلث اور مربع کیا ہے۔ رباعیاں مستزاد چند صفحے، پانچ قصیدے، چند مخمس اور ترجیع بند، چند مخمس شکایتِ زمانہ میں، دو واسوخت، ایک ہفت بند۔ بہت سی مثنویاں، ایک دیوان فارسی کا ہے جس میں دو ہزار شعر ہیں۔ ’تذکرہ نکات الشعراء‘ شعرائے ریختہ کے حال میں ہے، فارسی میں لکھا۔ میر صاحب غزل کے بادشاہ ہیں۔‘‘
ڈاکٹر تحسین فراقی شکریے کے مستحق ہیں جن کی نظرِ کرم سے یہ خزانہ خاص و عام کی دسترس میں آگیا ہے۔
اردو کے چھے دیوان کلبِ علی خان فائق رامپوری کی تحقیق سے چار جلدوں میں مجلس ترقی ادب لاہور سے شائع ہوئے تھے۔ اب یہ ان کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب کے ناظم مجلسِ ترقی ادب بننے کے بعد سے مجلس کی جو مطبوعات نایاب ہوگئی تھیں یا دستیاب نہیں تھیں ان کے ایڈیشن دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی نئی کتب بھی طبع ہورہی ہیں۔
چند اشعارِ میرؔ پیش خدمت ہیں:
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے
سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم
۔۔۔۔۔۔
کچھ نہ دیکھا پھر بجزیک شعلہ پُر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
۔۔۔۔۔۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
۔۔۔۔۔۔
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
۔۔۔۔۔۔
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
۔۔۔۔۔۔
میرؔ ! بندوں سے کام کب نکلا
مانگنا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
۔۔۔۔۔۔
پاس ناموسِ عشق تھا، ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
۔۔۔۔۔۔
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
کیا دِوانے نے موت پائی ہے
کتابیں سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہیں اور مجلّد ہیں۔
nn