مجھ کو معلوم ہیں پیرانِ حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعویٰ نظر لاف و گزاف
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف!
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف!
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!
اغماض: چشم پوشی۔
1۔ میں کعبے کے پیروں یعنی اسلامی پیشواؤں کے طور طریقوں سے خوب واقف ہوں۔ ان میں کتابی علم یقیناًہوگا، لیکن اخلاص موجود نہیں۔ جب اخلاص موجود نہ ہو تو صاحبِ نظر ہونے کا دعویٰ یکسر سخن سازی اور لاف زنی ہے، اور اسے کبھی درست نہ سمجھا جائے گا۔ دین میں کتابی علم کافی نہیں بلکہ علم پر عقیدہ و عمل ضروری ہے۔ اخلاص کے معنی یہی ہیں۔
2۔ مسیحیوں نے تعلیم کا جو نظام بنا رکھا ہے، اس کے متعلق صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دین اور حسنِ اخلاق کو ختم کرنے کے لیے ایک سازش ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں دنیا سے مٹ جائیں۔
3۔ جو قوم اپنی خودی سے انصاف نہ کرسکی اور اس کے جوہر آشکارا کرنے میں ناکام رہی وہ کبھی ابھر نہیں سکتی۔ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی قسمت میں محکوم و مظلوم رہنے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ دوسروں کی غلام رہے گی اور ان کے ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہوگی۔
4۔ اگر افراد سے غلطیاں سرزد ہوں تو قدرت بعض اوقات ان سے چشم پوشی بھی کرلیتی ہے لیکن قوم کے گناہ کبھی معاف نہیں کرتی۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ چنداں پیچیدہ نہیں۔ قوم کے گناہوں کا مطلب یہ ہے کہ اس کے افراد کی بہت بڑی تعداد ان گناہوں میں شریک ہو، گویا جرم انفرادی ہونے کے بجائے جماعتی و قومی حیثیت اختیار کر لے۔ ایسے گناہ کیونکر معاف ہوسکتے ہیں!
استعمار اور فرنگی اقوام
جو لوگ فرنگی اقوام کی تازہ ترین تصنیفی سرگرمیوں سے باخبر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس وقت امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور جرمنی سے اسلام کے متعلق بالقصد تصانیف کا بڑا زوردار سلسلہ جاری ہے۔ اس ساری سرگرمی کا مقصد افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کو ہضم کرنا اور اسلامی عقیدے کو تشکیک انگیزی کے ذریعے ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ مغربی سیاست کا خاص فن ہے کہ وہ اپنے اصلی عزائم کو کسی صورت میں ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ فرنگی سیاست کا سب سے بڑا مطمح نظر یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کی اپیل ختم کردی جائے۔ کبھی تہذیب کے نام سے، کبھی علم کے پردے میں، کبھی کلچر کے نام سے، کبھی محنت کشوں اور مزدوروں کو دنیا کی ایک عالمگیر برادری کہہ کر، غرض ہر طرح سے کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر متحد نہ ہونے دیا جائے۔ وہ اسلام کے نام پر آگے نہ بڑھیں۔ دنیوی نعروں کے زیراثر آپس میں بٹ جائیں۔ بیسویں صدی کا فرنگی ردعمل بھی صلیبی ردعمل ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔
ممکن ہے بعض ظاہربیں یہ کہہ دیں کہ صلیبی ردعمل کے لیے مذہب کو ماننا ضروری ہے، اور اس وقت یورپ میں مذہب سے کسی کو دلچسپی نہیں، اور بعض ایسی اقوام بھی ہیں جنہوں نے صلیب کو توڑ ڈالا ہے۔ لیکن یہی تو بھول ہے۔ اب صلیبیں دلوں کے اندر ہیں۔ وہی کلیسا ہے اور وہی جذبۂ انتقام۔ جس قوم نے صلیب کو اٹھا رکھا ہے، اُس کانصب العین کھلا ہے، اور جس نے صلیب کو بظاہر توڑ دیا ہے، اُس کا جذبہ مخفی ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں یہ واضح ہے کہ ان میں سے ہر گروہ مسلمان ریاستوں کو ہضم کرنا چاہتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اسلام کے عقیدے کو (کہ وہ خدا کی حکمرانی کے تصور پر قائم ہے) مٹا دینا چاہتا ہے۔ اس مہم کے رنگ و انداز مختلف ہیں، وگرنہ مقصد سب کا ایک ہے۔ آج بھی ایک ہے، کل بھی ایک تھا اور آنے والے کل کو بھی ایک ہی ہو گا۔ علامہ اقبال نے جب فرمایا کہ:
ترا ناداں اُمیدِ غم گساری ہا ز افرنگ است؟
دلِ شاہیں نہ سوزد بہرآں مرغے کہ در چنگ است
تو افرنگ سے اُن کی مراد مغرب کی سب وہ اقوام تھیں، جن کی نظروں میں اسلام کی قوت کھٹکتی ہے، خواہ وہ جمہوریت کی دعوے دار ہوں یا عوامی آمریت کی معتقد۔
[’’علامہ اقبال: مسائل و مباحث‘‘۔ ڈاکٹر سید عبداللّٰہ کے مقالات۔
مرتب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ صفحہ 35]