(سابق نائب امیر ضلع غربی اورنگی کو بڑھنے دو(تحریر:حکیم عزیر بیگ قاسمی

348

سائٹ ایریا سے منسلک عبداللہ کالج سے تھوڑا آگے جائیں تو ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاون کے حدود کا آغاز ہوتا ہے۔16 سیکٹروں اور لا تعداد کچی آبادیوں پر مشتمل اورنگی ٹاون کو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا پانچواں بڑا شہر کہیں تو غلط نہ ہوگا۔کم وبیش 25 سے 30 لاکھ پر مشتمل یہ آبادی،5 تھانے جس کی حدود میں آتے ہیں، اگر اس اورنگی کا پہلا ماسٹر پلان دیکھیں جو اس وقت بنایا گیا تھا، جب کہ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا تو اس میں جا بجا اورنگی کی آبادیوں کو ہل پارک دکھایا گیا ہے۔ اورنگی کے رقبے کو تین جانب سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے، جب کہ چوتھی جانب گڈاپ کا میدانی علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے، جب کے پی کے کے پختونوں نے روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کیا تو انہوں نے پہاڑیوں کو آباد کرنا شروع کردیا۔ ایوب خان کے زمانے میں شدید بارشوں سے سیلابی صورتِ حال پیدا ہوئی تو مختلف علاقوں سے، جن میں عثمان آباد،پاک کالونی اور گجر نالے کے علاقے شامل ہیں، آبادیوں کو اٹھا کر اورنگی کے سیکٹر 1 اور 6 میں بسا دیا گیا اور یہی سے اورنگی کی آبادی بڑھنا شروع ہوئی۔ پھر 1971 کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب وہاں کے مہاجرین کو پاکستان لایا گیا تو ان کو بھی اورنگی میں بسا دیا گیا۔ الغرض، اگر کراچی منی پاکستان ہے تو اس منی پاکستان کے اندر اورنگی متحدہ پاکستان ہے، جہاں تمام زبانیں بولنے والے، جن میں بنگالی، پختون، پنجابی، سرائیکی، سندھی، ہنکو، بلوچی اور اردو بولنے والے شامل ہیں۔ مختلف زبانوں اور مختلف قومیت کا حسین گل دستہ اورنگی میں سجا نظر آتا ہے۔ افسوس اس پر ہے کہ اتنی عظیم الشان آبادی کو بسا تو لیا گیا، لیکن کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ جس کا جہاں سینگ سمایا، بس گئے۔ اس آبادی کے بعد بسنے والی بہت سی آبادیاں پوش علاقوں میں تبدیل ہوگئیں۔گلستان جوہر، گلشن اقبال، معمار اور بہت سے علاقے۔ایک دھچکا 1985 میں اس وقت لگا، جب وطن دشمنوں نے لسانیت کی آگ لگا کر اس شہر کو تاراج کرنا شروع کیا تو اس کا آغاز اورنگی سے ہوا۔ قصبہ، علی گڑھ کے سانحات بنائے گئے، بھائی کو بھائی سے لڑایا گیا۔ ایک کلمہ اور رسول کو ماننے والے باہم دست و گریباں کرائے گئے اور یہیں سے اورنگی آگے بڑھنے کے بجائے پستی میں گرتا چلا گیا۔ لوگوں نے یہاں اپنی سیاست تو چمکائی، لیکن تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج بھی بہت سی کمپنیوں نے اورنگی کے لیے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ کوئی نیشنل بینک 5 نمبر سے آگے موجود نہیں، ہاؤس بلڈنگ آج بھی اورنگی کے بہت سے علاقوں میں قرضے نہیں دیتا، بینکوں سے بھی یہ سہولت میسّرنہیں۔ یہاں کے لوگوں کو معتوب بنا دیا گیا، ہزاروں لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے گئے، شناختی کارڈ کے حصول کے لیے وہ دستاویزات طلب کی جاتی ہیں، جو نا ممکن ہیں۔ شناختی کارڈ حاصل کرنے کا منظر کسی کو دیکھنا ہو تو وہ ڈی۔ایم۔سی ویسٹ کے دفتر میں نادرا کا حال دیکھ لے، جہاں مرد و خواتین رات کو بستر ڈال کر ٹوکن حاصل کرنے بیٹھتے ہیں اور ٹوکن پھر بھی نہیں ملتے۔ ایک قیامت کا منظر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کا پانچواں بڑی آبادی رکھنے والا اورنگی، جس میں کوئی معیاری درسگاہ نہیں،کوئی بڑا اسپتال نہیں۔ ایک اسپتال ہے بھی تو وہ ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہے۔ اگر آج ہم اورنگی کی تصویر کشی کرنا چاہیں تو ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، بدبودار پانی اور جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے۔افسوس اس بات کا ہے کہ جو لوگ اس آبادی سے کام یاب ہوتے رہے، انہوں نے بھی آج تک اس آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی مثالی کام انجام نہیں دیا ماسوائے جمات اسلامی کے۔ گو کہ جماعت اسلامی ابتدا سے الخدمت کے تحت عوامی خدمت کے وسیع کام کو انجام دے رہی ہے۔ وہ مشرقی پاکستانیوں کی آبادکاری ہو، اپنے محدود دائرے میں تعلیمی اداروں کا قیام ہو یا صحت کے شعبے میں اسپتال کی سہولت یا پھر جب اورنگی میں جماعت کا کوئی فرد کام یاب ہوا، اس نیپوری ایمان داری کے ساتھ عوام کی خدمت کی۔ اورنگی کی عوام کو میئر کراچی عبدالستار افغانی کی میئر شپ میں پانی حب ڈیم کے ذریعے فراہم کیا گیا اور اورنگی کو کے۔ایم۔ سی کا حصہ بنایا گیا۔ نیز، بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام انجام دیے گئے۔ پھر نعمت اللہ خان کی نظامت میں شاہراہ اورنگی کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا گیا اور ماڈل پارک تعمیر کیے گئے۔ ڈاکٹر غلام مرتضی مرحوم جو 1979کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں اورنگی کے پہلے کونسلر منتخب ہوئے، آج اگر آدھا اورنگی بجلی سے جگمگارہا ہے تو یہ ڈاکٹر صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ فوجی ہوٹل سے لے کر گلشن بہار تک سڑک ان کی کوششوں کا ثمر ہے۔ اسی طرح، شرف الدین، جو دوسرے ٹرم میں منتخب ہوئے، شاہ ولی اللہ، منصور نگر، صادق آباد، غازی آباد اور چشتی نگر کی آبادی کے لوگ آج بھی ان کی خدمت کے معترف ہیں۔ اورنگی کے ایک حلقہ انتخاب 142 سے محمد لئیق خان ایم۔ این۔ اے جو ایمایم اے کے پلیٹ فام سے رکن منتخب ہوئے، اورنگی سے منتخب ہونے والے واحد ممبر نیشنل اسمبلی ہیں، جو لوگوں میں گھلے ملے رہتے ہیں۔ حمیداللہ خان اسی دور میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان ہی کی کوششوں سے میٹروول کے علاقوں میں پانی پہنچایا گیا۔ اسحاق خان دو مرتبہ کونسلر منتخب ہوئے، فرنٹیئر کالونی میں آج بھی سب ان کے کام کے معترف ہیں۔ عبدالرزاق دو مرتبہ ناظم منتخب ہوئے اور اپنے حلقہ انتخاب میں کسی کو تکلیف نہیں ہونے دی۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ جن افراد کے نام لیے ہیں، کوئی ان کے دامن پہ کرپشن کا کوئی داغ دکھا دے۔ جو کراچی کے دعوے دار بنتے ہیں، ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھرپور وسائل کے باوجود اورنگی کے لیے کیا کام کیا؟ گزشتہ دنوں اور آج بھی اگر کوئی اورنگی کو آگے بڑھانے کے لیے درد رکھتا ہے اور میدان عمل میں ہے تو وہ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ہے۔ گزشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی ولولہ انگیز قیادت میں اورنگی کے حوالے سے جو عظیم الشان ریلی نکالی گئی اورجس طرح عوام کی طرف سے اس ریلی کا پُرتپاک استقبال کیا گیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اورنگی تبدیلی چاہتا ہے۔ اورنگی کے لوگ حقوق مانگ رہے ہیں اور ایسی قیادت کی تلاش میں ہیں، جو ان کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھتی ہو اور الحمدلِلہ جماعت اسلامی کے پاس وہ قیادت بھی ہے اور متحرک کارکنان بھی، جو صرف اللہ کی رضا کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔ جہاں یہ اورنگی کے لوگوں کی ذمّے داری ہے کہ اپنے مستقبل کو تاب ناک بنانے کے لیے اس قیادت کا ساتھ دیں، وہاں اب اس ریلی کے بعد جماعت کی قیادت اور کارکنان پر بھی ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ جس طرح لوگوں نے ان کا شان دار استقبال کیا، اب ان کے حقوق کے لیے میدان میں موجود رہے تو انشاء للہ اورنگی کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا!!
nn

حصہ