مشہور عالمِ دین روایت بیان کررہے تھے کہ شیطان سے پوچھا گیا: تجھے انسان کی کون سی بات محبوب ہے؟ شیطان نے جواب دیا: جب وہ نشہ کرتا ہو، جب غصہ کرے اور جب بخل کرے۔ اگر کسی بندے میں یہ تینوں خصلتیں موجود ہوں تو وہ میرا بھی مرشد و پیر ہے، مجھ سے بھی بڑا شیطان ہے۔
عالمِ دین کی بات سن کر میں اس روایت کی گہرائی میں چلی گئی کہ ایک بندہ جو ان تینوں برائیوں میں مبتلا ہوجائے تو وہ حقیقت میں نہ صرف اپنی دنیا و آخرت برباد کردیتا ہے بلکہ اللہ کے بندوں کے لیے بھی اذیت و رسوائی و تباہی کا باعث بنتا ہے۔ میں نے اپنے اردگرد تجزیہ کیا تو پرت کھلتے گئے اور میں ماضی میں پہنچ گئی۔
پڑوس میں ایک نیا کنبہ آباد ہوا۔ اُن کی بالکونی ہماری بالکونی کے بالکل سامنے پڑتی تھی۔ دور سے ہی سلام دعا ہوئی۔ اُن کی دو بیٹیاں ہم دونوں بہنوں کی تقریباً ہم عمر تھیں۔ لوگ ملنسار محسوس ہوئے، لیکن ایک بات جو سب اہلِ عملہ کو کھٹکی وہ یہ کہ شام ہوتے ہی تمام دروازے کھڑیاں بند کردیتے، زور زور سے بولتے اور جھگڑنے کی آوازیں آتیں۔ سب نے یہی سمجھا کہ شاید ٹی وی کی آواز ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ حقیقت کھلی کہ نہیں یہ آواز ان کے گھر سے کسی مرد کے زور زور سے لڑنے اور چلاّنے کی آرہی ہے۔ ایک دن والدہ دوپہر میں ان سے ملنے گئیں اور انہیں بھی آنے کے لیے کہہ کر آئیں۔ چند دنوں کے بعد دوپہر میں ہی وہ خاتون والدہ سے ملنے آئیں۔ اس طرح اہلِ محلہ سے ان کی دوستی ہوگئی۔
چند ملاقاتوں کے بعد والدہ نے اس شور کے بارے میں پوچھا تو کافی دیر تک تو خاموش رہیں، پھر گویا ہوئیں: ’’یہ میرے شوہر کی آواز ہوتی ہے، انہیں غصہ بہت آتا ہے، آتے ہی بچوں پر اور مجھ پر چلاّنے لگتے ہیں‘‘۔ کچھ رک کر (جیسے سوچ رہی ہوں کہ کہاں سے بات شروع کروں) کہنے لگیں ’’میں بہت پریشان ہوں، سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں! برکت ختم ہوگئی ہے، سب کچھ ہی ختم ہوگیا ہے۔۔۔ شوہر کی اس ’’لت‘‘ نے سب کچھ ڈبو دیا ہے، ہم ایک بہت بڑی کوٹھی میں رہتے تھے، اب اس فلیٹ میں آگئے ہیں، اس ایک نشے کی وجہ سے بہت سی برائیوں نے انہیں جکڑ لیا ہے جس میں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں، کاروبار بھی خسارے میں پہنچ گیا ہے اور اوپر سے ہر وقت غصے میں رہتے ہیں۔ شام ہوتے ہی بچے اپنے اپنے کمروں میں دبک جاتے ہیں۔ جتنی دیر گھر میں رہتے ہیں چیخ و پکار رہتی ہے، بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ گھر سے تو جیسے برکت ہی اٹھ گئی ہے۔ رزق میں برکت ختم ہوگئی ہے، ساتھ ہی بچوں کی صحت اور تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہے۔ ان (شوہر) کی اس برائی کی وجہ سے میں نے اور بچوں نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے۔ نہ صرف میں ان تمام حالات کی وجہ سے ڈپریشن اور بلڈ پریشر کی مریضہ بن گئی ہوں، بلکہ اس ایک ’’بندے‘‘ کی وجہ سے سارا گھر نفسیاتی مریض بن گیا ہے۔ ان کی اپنی صحت بھی گرتی جا رہی ہے، وہ اس تباہی کی وجوہات سے ’’چشم پوشی‘‘ کررہے ہیں اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھیراتے ہیں۔ اب مجھے اپنی فکر نہیں بلکہ بچیوں کی فکر زیادہ ہے، جوان بچیاں ہیں، ان حالات میں ان کے رشتوں کا کیا ہوگا!‘‘
اس گھرانے کی تباہ حالی کا اندازہ اُس وقت تو نہیں لگا سکی لیکن آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس روایت کو سن کر احساس ہورہا ہے کہ اس بندے کی دو برائیوں کی بدولت جو شیطان کی محبوب خصلتوں میں سے ہیں (تیسری برائی کا مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی اس بندے میں تھی یا نہیں) کتنے افراد متاثر ہورہے تھے۔ اور شیطان کو بھی محبوب یہی خصلتیں ہیں جو زیادہ سے زیادہ بندوں کو اپنے جال میں لے لیں اور اسے خدا سے دور کردیں۔
اسی طرح ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کی شادی ایک خوشحالی خاندان کے فرزند سے ہوئی۔ دنیا کی تمام آسائشیں میسر تھیں لیکن چند سالوں میں ہی سب کچھ ختم ہوگیا۔ شراب کی لت نے نہ صرف شوہر کی اپنی صحت تباہ کردی بلکہ مال و متاع، عزت، رشتے، محبتیں سبھی اس سے چھن گئے، اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ جیسے تیسے میں نے بیٹوں کو تعلیم دلوائی۔ بزنس میں سے ایک لگی بندھی رقم گزارے کے لیے ہر مہینے دیور دیتے (جس پر بھی طعنے دیئے جاتے) وہ بھی شوہر نشے کے لیے چھین لیتے۔ بڑی مشکل سے دو وقت کا کھانا نصیب ہوتا۔ آخر وہ بندہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اِس دنیا سے رخصت ہوگیا، میں نے اور بچوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس کے مرنے کا دکھ نہ اس کے بہن بھائیوں کو ہوا اور نہ ہی اولاد کو۔ ایسے شخص کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوگئیں۔
آئے دن ہم میڈیا پر بھی اسی قسم کی خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں کہ نشے اور غصے کی وجہ سے بندہ بندے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ پچھلے دنوں سب نے سنا ہوگا کہ ان دو برائیوں کی بدولت ایک شخص نے اپنی ماں کو بھی قتل کردیا۔ یعنی رشتوں کا تقدس بھی ان برائیوں کی بدولت بندہ فراموش کردیتا ہے۔ پھر ساتھ اگر تیسری خصلت بخل کی بھی ہو تو مثل سونے پہ سہاگہ۔ بہت سی طلاقیں معاشرے میں ان ہی خرابیوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ قتل و غارت، لڑائی جھگڑے اور فساد کے پیچھے بھی یہی وجوہات نظر آتی ہیں۔ آپ جتنا ان تینوں برائیوں کی تباہ کاریوں و نتائج پر غور کریں گے واضح ہوتا جائے گا کہ واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ان تینوں برائیوں کی وجہ سے بندہ بندوں کے حقوق سے غافل ہوجاتا ہے بلکہ زیادتی کا موجب بنتا ہے، رشتوں کی محبتوں اور اپنائیت کی چاشنی سے محروم ہوجاتا ہے، چند لمحوں کی اپنی ذہنی آسودگی کے حصول کے لیے اپنی متاعِ حیات کو داؤ پر لگا دیتا ہے، اپنے رب سے غافل ہوجاتا ہے، ایک سجدہ بھی رب کے آگے کرنے کا روادار نہیں رہتا۔ ایسا ناشکرا بندہ اپنے رب کی نعمتوں کو فراموش کرکے شیطان کے مزین جال میں پناہ لے کر یوں سمجھتا ہے کہ مجھے سب حاصل ہوگیا۔ شیطان کی ان محبوب اور پسندیدہ خصلتوں کے متضاد رب کی وہ پسندیدہ خوبیاں ہیں یعنی نشے سے پاک رہنا، غصے کو برداشت کرکے اللہ کے بندوں سے نرمی، اخلاق اور درگزر کا رویہ رکھنا، اور تیسری خوبی یعنی اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا، انہیں کھانا کھلانا، اپنے اہل و عیال اور عزیز و رشتہ داروں کے مالی حیثیت کے مطابق حقوق ادا کرنا۔ ان خوبیوں کی وجہ سے بندہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حق تلفی سے بچ جاتا ہے اور اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے۔ اب انسان خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اللہ کی یہ محبوب خصلتیں جن سے نہ صرف بندے کو خود دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہوتی ہیں بلکہ اس کے آس پاس رہنے والے بھی ان سے فیض یاب ہوتے ہیں، کس قدر شاندار ہیں، اور شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے بندے کو ان ہی خوبیوں کے مخالف سرگرمیوں میں ملوث کرکے اپنے رب سے کتنا دور لے جانا چاہتا ہے۔ اس کا یہ وار کتنا کاری ہے اور اس کی یہ دشمنی کتنی واضح ہے، لیکن ہم پھر بھی اس سے خبردار نہیں ہیں، اس کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں پھنس جاتے ہیں، جبکہ قدم قدم پر اللہ کی آیات اور حدیث و سنت ہمارے لیے رہنمائی کے دروازے کھولتی ہیں، لیکن ہم غافل انسان اس طرف سے لاپروا ہیں۔ سفر پر نکلنے والا مسافر راستے میں لگے نشاندہی کے بورڈ کے اشاروں پر عمل کرکے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتا ہے۔ اگر وہ ان سائن بورڈز (ہدایات کے آویزاں بورڈز) کی ہدایات کو نظرانداز کردے تو اپنی منزل کھو بیٹھتا ہے، دربدر ٹھوکر کھاتا ہے۔ یہی حال اُن انسانوں کا بھی ہے جو اللہ کے احکامات اور ہدایات سے غافل ہوکر اپنی زندگی شیطان کے راستے پر گزارتے ہیں تو یقیناً’’منزلِ مقصود‘‘ (اللہ کی رضا) سے محروم ہوجاتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ شراب پینا گناہِ کبیرہ میں شامل ہے۔ سورۃ المائدہ آیات نمبر 90۔91 میں رب العزت کا فرمان ہے ’’اے ایمان والو شراب اور جوا اور بت اور پانسے گندی باتیں اور شیطان کے کام ہیں، سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تم میں آپس میں عداوت اور بغض ڈال دے ، اور اللہ کی یاد اور نماز سے تم روکے۔ سو اب بھی باز آجاؤ ۔‘‘ اللہ تبارک تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہے کہ اس ’’گندگی‘‘ کے نقصانات کون کون سے ہیں، اس کے باوجود اونچی سوسائٹی کی شان اس گندگی کو بنایا گیا ہے۔ مجھے میری ایک دوست نے بتایا کہ میرے دیور کی شادی تھی، مہندی والے دن دیور نے ساس سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا کہ دوستوں کے ساتھ ’’شغل‘‘ کرنا ہے۔ میں نے دیور کو بڑی حیرانی سے دیکھا اور ساس کے ردعمل پر اس سے زیادہ حیرانی ہوئی جب اُس نے اس ’’حرام کام‘‘ کے لیے اس کے ہاتھ میں ایک خطیر رقم رکھ دی۔ میں نے جب اس سے کہا کہ یہ تو حرام ہے تو ہنس کر کہنے لگا: بھابھی صاحبہ یہ ہماری اونچی سوسائٹی کی شان ہے، اگر بندہ خود نہ بھی پیے تو دوستوں کی ’’یاری‘‘ تو کرنی پڑتی ہے۔ دیور کی اس بات سے مجھے گھن آگئی۔
آپؐ نے شراب کو تمام خباثات کی جڑ کہا ہے۔ اور یہ خباثت شیطان کی محبوب ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں تو خواری اور تباہی ہے ہی، لیکن آخرت کی نہ ختم ہونے والی سزا سے بھی واسطہ پڑے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرے تو اللہ اس کو جہنم میں ڈال دے گا اور اس کے لیے رسوائی والا عذاب ہوگا۔‘‘(سورۃ النساء)
قرآن اور احادیث میں جگہ جگہ اس برائی کی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں اس پر ’’بندش‘‘ نہیں۔ دینی تعلیم کی کمی اور والدین کی ناقص تربیت کی بدولت نئی نسل یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید اور نام نہاد ترقی کے جھانسے میں اس برائی میں ملوث ہوسکتی ہے، جس کا سدِباب اعلیٰ پیمانے پر لازمی ہے۔ خاص طور پر والدین کو بچوں کو ایک پاک صاف اسلامی ماحول میسر کرنا لازم ہے۔ اسی طرح شیطان کی دوسری محبوب خصلت غصہ ہے۔ اس کے بارے میں تجزیہ کریں تو حقیقت آشکارا ہوجائے گی کہ شیطان جو ہمارا کھلا دشمن ہے اسے بندوں کی یہ خصلت (برائی) کیوں عزیز ہے۔ کیوں کہ بندہ غصے میں آکر اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ گالی گلوچ، دنگا فساد، لڑائی جھگڑا، قتل و غارت اور طلاقیں اسی غصے کی بدولت پروان چڑھتے ہیں۔ تعلقات میں دوری اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے شخص سے اُس کے اپنے خونیں رشتے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ جو چیز اللہ کے بندوں کے لیے نقصان دہ ہو اسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔
سورۃ آل عمران میں رب العزت کا فرمان ہے: ’’جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں، ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘
آپؐ ارشاد فرماتے ہیں ’’غصہ شیطانی اثر کا نتیجہ ہے، اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے، اور آگ پانی سے بجھتی ہے، تو جس کو غصہ آئے اسے چاہیے وضو کرے۔‘‘
اسی طرح ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا ’’جس نے غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کے سامنے بلائے گا، یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ وہ بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے جسے چاہے چن لے۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
غرض کہ غصے کے شر سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح شیطان کی تیسری محبوب خصلت جو بندوں میں پائی جاتی ہے وہ ہے ’’بخل‘‘۔
دینِ اسلام نے بخیل (کنجوس) اور پیسے کے غلام کی مذمت فرمائی ہے۔ جو کہ صدقہ، خیرات زکوٰۃ ادا کرے اور نہ ہی بیوی بچوں اور رشتے داروں پر خرچ کرے، بلکہ ایک ایک پیسہ جمع کرتا جائے، بیوی بچوں کو کھانے کے لیے بھی ترسائے۔۔۔ ایسا شخص اللہ کی رضا سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور شیطان کا کام ہی بندے کو اللہ کی رضا سے محروم کرنا ہے۔
آپؐ کی حدیث کے مطابق کنجوس اور بخیل پر لعنت کی گئی ہے۔
ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے: محتاج لوگ قیامت میں اللہ تعالیٰ سے مال داروں کی شکایت کریں گے کہ ہمارے حقوق جو آپ نے ان پر فرض کیے تھے انہوں نے ہم کو نہیں پہنچائے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اپنی عزت و جلال کی قسم، میں تم کو مقرب بناؤں گا اور ان کو دور کردوں گا (طبرانی)۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم فرمایا ہے کہ ’’تم لوگ خرچ کرو اللہ کی راہ میں۔‘‘(سیقول)
اسی طرح دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے ’’وہ جنت تیار کی گئی ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے، ایسے لوگ جو کہ خرچ کرتے ہیں فراغت میں، تنگی میں۔‘‘ (لن تنالو)
غرض کہ قرآن پاک میں کئی جگہ اللہ اور حق داروں کے لیے خرچ کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔
شیطان کی ان محبوب اور پسندیدہ خصلتوں سے احادیث اور قرآن پاک میں بارہا اور کئی مقامات پر بچنے کی تاکید اور تلقین فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ یہ تینوں خصلتیں بندوں کو اللہ کی رضا اور بندوں کے حقوق ادا کرنے میں ایک آہنی دیوار ہیں، اور شیطان اللہ کے بندوں کا کھلا دشمن ہے، اس کی تو یہ دیرینہ خواہش ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرے اور خیر سے دور کرے۔ لہٰذا اللہ کے احکامات کے مطابق عمل کرکے شیطان کو شکست دینا بندے کا فرض ہے۔ اس فرض کے لیے خود کو اور اپنی اولاد کو تیار کریں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔ (آمین)
nn