(مہر الدین افضل) لحضرت نوحؑ کی دعوت

352

(خلاصہ از سورۃ الشعراء حاشیہ نمبر 79:80
سورۃ المؤمنون:25 سورۃ نوحؑ :13:14)
حضرت نوحؑ کی دعوت کے اہم نکات:۔
اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے سیّدنا نوحؑ نے تین باتوں کی دعوت دی۔ ایک اللہ کی بندگی۔ دوسرے تقویٰ۔ تیسرے رسول کی اطاعت۔ (سورۃ المؤمنون آیت 23 میں ارشاد ہوا ’’اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے، تو کیا تم ڈرتے نہیں ہو‘‘؟) (سورۃ نوحؑ آیت 3 میں ارشاد ہوا ’’اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘)۔ (سورۃ الشعرا آیت نمبر 106 سے 110 میں ارشاد ہوا: ’’یاد کرو جبکہ ان کے بھائی نوحؑ نے ان سے کہا تھا ’’کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں۔ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمے ہے۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور بے کھٹکے میری اطاعت کرو۔‘‘
اللہ کی بندگی:
اس لیے کہ پوری کائنات اور تمام انسانوں کا ایک ہی الٰہ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔۔۔ انسان کو چاہیے کہ کسی کی بندگی، کسی کی عبادت، کسی کی پرستش اور پوجا، اس کے سوا نہ کرے۔۔۔ اللہ کے سوا کسی سے خوف اور لالچ نہ رکھے۔۔۔ اور اللہ ہی کے احکام کی اطاعت کرے اور اس کے بتائے ہوئے قانون پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کرے۔۔۔ اللہ ہی کی رضامندی، اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تمام کوششیں کی جائیں۔۔۔ اور آدمی دنیا میں جو کام بھی کرے یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ میں کسی کا بندہ ہوں اور اس کے سامنے جاکر مجھ کو جواب دینا ہے۔
اللہ کا تقویٰ اختیار کرو:
اللہ کی بندگی میں زندگی گزارنا ایک وے آف لائف ہے۔۔۔ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے، جس کا لازمی نتیجہ انسانی زندگی میں پاکیزگی اور پرہیزگاری کا پیدا ہونا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اُن کاموں سے بچے، جو اللہ کو ناراض کرنے والے اور اُس کی رحمت سے دور کرنے والے ہیں، اور اپنی زندگی میں وہ راستہ اپنائے جس پر خدا ترس لوگوں کو چلنا چاہیے۔۔۔ اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان ہر کام کرتے وقت یہ یاد رکھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اور وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ اس کے علاوہ سیدنا نوحؑ کی جانب سے اللہ سے ڈرنے کی تاکید میں کچھ اور مفہوم بھی شامل ہیں۔۔۔
(1) ’’کیا تم اللہ سے بے خوف ہو گئے‘‘؟ یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک اور بادشاہ ہے اُس کی سلطنت میں رہ کر اُس کے بجائے، دوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے، اور دوسروں کی بادشاہی اور حکومت تسلیم کرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ حضرت نوحؑ نے اُن سے سوال کیا کہ ’’تمہیں کیا ہوگیا کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے‘‘؟ یعنی حیرت ہے!!! دنیا کے چھوٹے چھوٹے حکمرانوں، خانوں، وڈیروں، دولت مندوں اور سرداروں، وزیروں، غنڈوں اور بدمعاشوں کے بارے میں تو تم یہ سمجھتے ہو کہ اُن کے وقار کے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے، مگر خداوندِ عالم کے متعلق تم یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ بھی کوئی باوقار ہستی ہوگا۔ اُس کے خلاف تم بغاوت کرتے ہو، اُس کی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھیراتے ہو، اُس کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہو، اور اُس سے تمہیں یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ اس کی سزا دے گا۔
(2)’’میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘‘۔ اس فقرے کی مناسبت یہ تھی کہ جو شخص اللہ کی طرف سے ایک امانت دار رسول ہے، جس کی صفتِ امانت سے تم لوگ خود بھی واقف ہو، اُسے جھٹلاتے ہوئے خدا سے ڈرو۔
(3)’’میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں‘‘۔ اس فقرے کی مناسبت یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی ذاتی فائدے کے بغیر صرف اور صرف لوگوں کی اصلاح کے لیے پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ کام کررہا ہے اُس کی نیت پر حملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو۔
دنیا نہیں آخرت:
دعوت کے آغاز میں خوف دلانے کی حکمت یہ ہے کہ جب تک کسی شخص یا گروہ کو اُس کے غلط رویّے کے برے انجام کا خطرہ نہ محسوس کرایا جائے، وہ صحیح بات کی طرف توجہ ہی نہیں کرتا۔ سیدھے راستے کی تلاش آدمی کے دل میں پیدا ہی اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کو یہ خوف ہو کہ کہیں بھٹک کر منزل سے دور نہ ہوجاؤں یا منزل گم ہی نہ کر بیٹھوں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ خوف دنیا کی تباہی کا نہیں دلایا گیا۔۔۔ بلکہ آخرت کی تباہی کا دلایا گیا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ انبیا علیہم السلام کا اصل مسئلہ انسان کی موت کے بعد کی زندگی ہے۔ رہی دنیا کی زندگی، تو اس کی ساری سمجھ انسان کو اللہ نے دی ہے اور وہ جانتے بوجھتے کوئی کام اپنی دنیا کی خرابی کے لیے نہیں کرتا۔۔۔کوئی اپنی دنیا کی کامیابی سے غافل نہیں ہوتا! جبکہ آخرت کے بارے میں غافل بھی رہتا ہے، اور شرارت سے اُس کے انجام کو نظرانداز بھی کرتا ہے۔ اس لیے انبیا علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ انسان کی آخرت کی زندگی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کی زندگی کیسے گزارو کہ آخرت میں کامیاب ہوجاؤ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہی دعوت مکہ مکرمہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دے رہے تھے۔ آپؐ نے مثال دے کر فرمایا کہ تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑ کر کھینچ رہا ہوں، اور آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں۔ یہ اہم حقیقت ہر اُس شخص کو ذہن میں بٹھا لینی چاہیے جو اللہ کی طرف بلانے کا پیغمبرانہ کام کرنا چاہتا ہے۔۔۔ کہ اُس کی دعوت کا اصل موضوع آخرت میں انسان کی کامیابی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی کامیابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو زندگی گزاری جائے گی وہی دنیا میں بھی خوش حالی کا ذریعہ بنے گی۔ اس کی مثال اس طرح سمجھیں کہ اگر آپ کسی سے گلاس مانگیں تو وہ گلاس ہی لا کر دے گا۔۔۔ ہوسکتا ہے گلاس کا پورا سیٹ جگ کے ساتھ لادے، لیکن اگر آپ پانی مانگیں گے تو گلاس بھی آئے گا اور ہوسکتا ہے کہ دیگر لوازمات بھی آئیں۔ پہلی صورت میں خوبصورت سے خوبصورت جگ گلاس بہت جمع ہوجائیں گے، لیکن پیاس بڑھتی چلی جائے گی۔۔۔ جب کہ دوسری صورت میں پیاس بھی بجھے گی اور جگ گلاس بھی ملیں گے۔ (نوحؑ نے دنیا کی بہتری کا کیا علاج بتایا اس کا ذکر آگے آئے گا)
دعوت کے لیے دلیل:
اپنی دعوت کا فوکس اللہ کی طرف بلانے اور دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پر رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ داعی انبیا کا وارث اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اب اُسے اپنے اور اپنی پارٹی کے کارنامے گنانے کی ضرورت نہیں۔ سیدنا نوحؑ نے دلیل کے طور پر پہلے اپنی پاکیزہ زندگی کو پیش کیا، اور پھر اللہ ہی کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔‘‘ (سورہ نوح آیت 14 تا 20)
انسان اپنی تخلیق پر غور کرے :
انسان تمام تر میڈیکل سائنس کی ترقی اور علم کے ساتھ اپنی تخلیق پر غور کرے، تو یہی انبیا علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے کافی ہے، کہ کس طرح اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ درجہ بہ درجہ مختلف مراحل سے گزار کر اسے موجودہ حالت پر لایا ہے۔ پہلے یہ ماں اور باپ کی صُلب میں الگ الگ نطفوں کی شکل میں تھا۔۔۔ پھر خدا کی قدرت ہی سے یہ دونوں نطفے ملے اور اس کا استقرار حمل ہوا۔ پھر نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں درجہ بہ درجہ نشوونما دے کر اسے پوری انسانی شکل دی گئی۔۔۔ اور اس کے اندر وہ تمام قوتیں پیدا کی گئیں جو دنیا میں انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے اس کی ضرورت تھیں۔ پھر ایک زندہ بچے کی صورت میں یہ بطنِ مادر سے باہر آیا، اور ہر آن اسے ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی۔۔۔ یہاں تک کہ یہ جوانی اور بڑھاپے کی عمر تک پہنچا۔ ان تمام منزلوں سے گزرتے ہوئے انسان ہر وقت پوری طرح اللہ کے بس میں تھا۔ وہ چاہتا تو اس کا استقرار حمل ہی نہ ہونے دیتا۔۔۔ اور اس کی جگہ کسی اور شخص کا استقرار ہوتا۔ وہ چاہتا تو ماں کے پیٹ میں اسے اندھا، بہرا، گونگا، یا اپاہج بنا دیتا۔۔۔ اس کی عقل میں کوئی کمی رکھ دیتا۔ وہ چاہتا تو یہ زندہ بچے کی صورت میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ پیدا ہونے کے بعد بھی وہ اسے ہلاک کرسکتا تھا، اور اُس کے ایک اشارے پر کسی وقت بھی یہ کسی حادثے کا شکار ہوسکتا تھا۔ جس خدا کے بس میں یہ اس طرح بے بس ہو اُس کے متعلق اس نے یہ کیسے سمجھ رکھا ہے کہ اُس کی شان میں ہر گستاخی کی جا سکتی ہے۔۔۔ اُس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فراموشی کی جا سکتی ہے۔۔۔ اُس کے خلاف ہر قسم کی بغاوت کی جا سکتی ہے! اور ان حرکتوں کا کوئی خمیازہ اسے بھگتنا نہیں پڑے گا! (جاری ہے)
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین

حصہ