بھکاری کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ہی تصویر بنتی ہے کہ انسانوں سے مانگنے والا۔ ایک وقت تھا، جب ضرورت مند اور معذور لوگ بھیک مانگتے تھے، جو کسی کام کے قابل نہ ہوتے تھے، لیکن آج کل تو یہ ایک کاروبار بن گیا ہے۔ اب ضرورت مندوں اور پیشہ ور کے درمیان فرق کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ ایک دکان دار کے پاس ایک دن میں 4۔5 بھکاری مانگنے آتے ہیں۔ اب ظاہرہے کہ وہ یا تو سب کو دے گا یا کسی کو بھی نہیں، کیوں کہ یہ پتا نہیں چلتا کون حق دار ہے کون پیشہ ور۔
آج کل پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ نشے کے عادی افراد بھی اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں، جب کہ پیشہ ور بھکاریوں میں عورتوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔
مجھے ان عورتوں کو دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی عورت کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ پیشہ ور بھکاریوں نے معذور اور کم زور افراد کے حقوق بھی چُرالیے ہیں۔ اگر یہ بھکاری نہ ہوتے تو ان معذوروں اور ضرورت مندوں کو ایک ہی دن میں اتنا کچھ ملتا کہ ان کا ان پیسوں سے بہت کچھ ہوجاتا۔ ہمارے محلّے میں ایک بھکاری جو ہر بدھ کو آتا ہے، اور دروازہ ایسے کھٹکھٹاتا ہے، جیسے اس کے پیچھے کتے لگے ہوئے ہوں۔ گلی میں زور زور سے نعرے لگاتا ہے، اللہ، نبی کے نام پہ دے دو بیٹا۔ یہ آواز گھروں میں موجود مائیں جب سُنتی ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ پیش کردیتی ہیں۔ اس طرح، اللہ کے نام سے وہ کاروبار چلارہا ہے۔ اس نے بھیک مانگنے کے لیے علاقے تقسیم کیے ہیں۔ اگر یہ ضرورت مند ہوتا یا کام کرنے کے قابل نہ ہوتا تو اس کو اپنی ضرورت پوری کرنی چاہیے نہ کہ وہ مکمل تقسیم کرلے کہ کون سے دن کہا جانا ہے۔ میں اکثر دیکھتا ہوں کہ مانگنے والا صحت مند اور ہٹاکٹا ہوتا ہے، پھر بھی مانگتا ہے۔ اگروہ کوئی کام کرلے اور عزّت کی روزی کمالے تو کیا بہتر نہیں ہوگا؟ سب کہتے ہیں اللہ کے نام پر دے دو، تو انسان کو اس نام سے بھی حیا آجاتی ہے۔
انسان کو اس بات سے بھی ڈر لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میں بھی کسی دوسرے کے گناہ کا حصّہ بن جاؤں۔ ایک دن میں سبزی منڈی میں کچھ خریداری کررہا تھا کہ ایک بھکاری کے جانے کے ساتھ ہی دوسرا آیا۔ وہ بھی اللہ کے نام سے مانگ رہا تھا، حالاں کہ اچھا خاصا صحت مند تھا۔ میں نے کہا، اگر تم اللہ سے مانگتے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ دیتا، کیوں کہ وہی سب کا رازق ہے اور مجھے تب سے بھکاریوں سے نفرت ہونے لگی۔ درسی کتاب میں بارہا پڑھا ہے کہ اللہ کے نام پر مانگنے والا ملعون ہے۔۔۔ بھکاری اپنے لیے آتش دوزخ طلب کرتا ہے۔
صحابہؓ گھوڑے پر سوار ہوتے۔ اگر کوڑا گرجاتا وہ بھی کسی سے اٹھانے کو نہ کہتے کہ شاید میرا یہ عمل بھیک میں آجائے اور میں گناہ گاروں میں شامل ہوجاؤں۔ بے شک، عزّت، ذلّت اور روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن کوئی تندرست ہے تو اسے بھیمک مانگنے کے بجائے کام کرنا چاہیے۔
اسی طرح دینے والے کے لیے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ایسے افراد کو دینا چاہیے اور ضرور دینا چاہیے، جو ضرورت مند ہیں۔ جو ہاتھ نہیں پھیلاتے، مگر ان کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں۔ ہرگز یہ مت سوچیں کہ کوئی نہ کوئی ان کو دیتا ہوگا بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور آپ اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔ اس لیے اپنے محلّے، علاقے کے غریب پڑوسیوں کا خیال رکھا کریں۔ ان سے ملتے رہیں، ان کے حالات سے واقفیت جانتے رہیں۔ کب کسے آپ کی ضرورت ہو، آپ سے کوئی آکر نہ کہے بلکہ آپ خود ان کے پاس جا کر ان کی مدد کردیں اور اس طرح کریں کہ ان کی عزّتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ آپ کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آئے گا اور پھر اس اجر اور نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات کو ختم کر کے آسانیاں اور آپ کے رزق میں برکت عطا کرے گا۔ انشاء اللہ!!