میٹھا زھر افسانہ مہر
رنگین ہے تو رنگوں سے بھی زیادہ
شوخ لگتی ہو رہ کہ بھی سادہ
لے جائیں گے تجھ کو اٹھا کے
تیرے بِنا لاگے نہ مورا جیا ۔۔۔
تمام بچے ایک آواز میں خوب لہک لہک کر گا رہے تھے۔ آج چھٹی کا دن ہونے کے باعث ناشتے کے بعد ہی فلیٹ کے یہ ہم عمر بچوں کا ٹولہ فلیٹ کی سیڑھیوں پہ آدھمکا تھا اور ویران و سنسان رہنے والی راہ داریوں میں شوخیاں اور قہقہے بکھیر رہا تھا۔
بچوں کے ہنسنے بولنے کی آوازوں نے مونا کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا، جو سیڑھیوں کے سامنے بنے فلیٹ کے باورچی خانے میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔ کرائے کے اس فلیٹ میں آئے ہوئے مونا سراج کو چھ ماہ ہی تو ہوئے تھے اور اِس قلیل مدت میں بھی اس نے 4 منزلہ بلڈنگ کے قریباً تمام گھروں سے جان پہچان بنالی تھی۔ کھیلتے اور شرارتیں کرتے بچے مونا کو ہمیشہ ہی اپنی طرف متوجہ کرلیتے تھے۔ روز شام بالکنی میں بیٹھ کر میدان میں کھیلتے بچوں کو دیکھتے رہنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
آج بچے دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے بلڈنگ کی سیڑھیوں پر براجمان ہو گئے تھے اور کورس میں گائے جارہے تھے۔ لے جائیں گے تجھ کو اٹھا کے۔۔۔تیرے بنا لاگے نہ مورا جیا۔
چپ ہو جاؤ کم بختو، پورا فلیٹ سر پر اٹھا رکھا ہے۔ خالہ فریدہ کی ایک دم ابھرنے والی کڑاک دار آواز نے جیسے بچوں کا فیوز اُڑاکر رکھ دیا۔ بچے آپس میں میں کھسر پسر کرنے لگے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ راہدری میں بچوں کے بھاگنے دوڑنے کی آوازیں شروع ہو گئیں۔
بچے اب ایک نئے کھیل میں مگن ہوگئے۔ پھر اس دوڑ والے کھیل میں مزا نہ آیا تو سب دوبارہ سیڑھیوں پر آبیٹھے۔ چند لمحوں کے بعد ایک بچہ ترنگ میں بولا۔۔۔لے جائیں گے۔۔۔ اور پھر سب شامل ہو کے گانے لگے ’’لے جائیں گے تجھ کو اٹھا کے۔۔۔
دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔ اپنی اماؤں کو سناؤ جاکر۔۔۔ بد تمیز، بے ہودہ۔ اس دفعہ فریدہ خالہ پہلے سے بھی زیادہ زور سے چلائیں تو تمام بچے ڈر کر اپنے اپنے فلیٹوں میں بھاگ لیے۔
بچے ہیں خالہ! غصہ نہ کریں۔ مونا جلدی سے باہر آکر بولی۔
اللہ بچائے ان سے۔۔۔ ادب لحاظ تو ہے ہی نہیں۔ تف ہے ایسے ماں باپ پر، جو ایسے بے ہودہ گانے بچوں کو سِکھاتے ہیں۔ خالہ اب تک غصے میں تھیں ۔
ارے خالہ یہ تو ایک چاکلیٹ کا اشتہار ہے، جو ٹی وی پر آتا ہے، وہیں سے بچوں کو یاد ہو گیا۔ مونا نے خالہ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
پھر بھی ماں باپ کو خیال رکھنا چاہیے نا کہ ان کی اولاد کیا سیکھ رہی ہے۔۔۔ کیا بول رہی ہے۔۔۔ خالہ فریدہ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
جی یہ تو آپ نے ٹھیک کہا۔ مونا نے تائید کرکے بات ختم کردی۔
خالہ گھر چلی گئیں تو وہ بھی اندر آگئی۔ ٹی وی لاونج میں مجازی خدا کرکٹ دیکھنے میں مصروف تھے، وہ بھی وہیں بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد ہی وقفہ ہوگیا اور ’’لے جائیں گے تجھ کو اٹھا کے‘‘ کی صدا اب ٹی وی پر سنائی دینے لگی۔ 15 منٹ میں میچ کے دوران تین بار یہ صدا ٹی وی سے بلند ہوئی۔
اُف اللہ! بار بار یہی اشتہار کیوں۔۔۔ اور اس اشتہار کا یہی جملہ کیوں سنا رہے ہیں۔ مونا زچ ہوکر بولی۔
جو پیسے دے گا اُسی کا اشتہار چلے گا۔ سراج نے کہا۔۔۔اور ایک سیکنڈ کے پیسے دیں گے تو ایک سیکنڈ کا اشتہار چلے گا ناں۔ سراج نے مزید وضاحت کی۔
ہاں، لیکن یہی جملہ کیوں؟ مونا بولی، مگر سراج کا جواب نہ پاکر اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔ اس کا ذہن اس اشتہار کے الفاظ میں الجھ گیا۔ اب اسے بظاہر بدزبان اور بے صبر نظر آنے والی خالہ فریدہ کی برہمی ٹھیک محسوس ہورہی تھی۔
وہ بھی سوچنے لگی کہ یہ چند جملے معصوم ذہنوں میں کیا خیال، کیا احساس منتقل کررہے ہیں اور کن اقدامات کے لیے ذہنوں کو تیار کر رہے ہیں۔
یہ ایک سوال ہے اور معاشرتی ضابطے اور قاعدے بنانے والوں کے لیے سوچنے کا مقام بھی۔۔۔نیکی اور بدی۔۔۔ بُرائی اور بھلائی کا شعور کہاں سے اور کیسے اپنی نسلوں میں پرونا ہے، اس کی فکر کون کرے گا؟ دو دہائی قبل تک والدین اور استاد تعلیم کے ساتھ تربیت اور تہذیب پرونے کے جذبے سے سرشار محسوس کیے جاتے تھے۔ استاد کا احترام والدین سے بڑھ کر کیا اور کرایا جاتا تھا۔ نصاب میں پروئی مشرقی اقدار استاد کے علم و حلم سمیت نسلوں میں منتقل کیے جاتے تھے، پھر مغرب کی چکاچوند غالب آنے لگی، ترقی اور آسائش کی طلب جتنی بڑھی، اتنی ہی سماجی، تعلیمی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ہمارا دین خوشی اور آسائش سے عاری ہے، لیکن خوشی میں مدہوشی اور آسائش میں عیاشی سے پرہیز کی تعلیم ضرور دیتا ہے۔ اب جو محتاط رویّہ اور اطوار ہمارا مذہب ہمیں سِکھاتا ہے، اس کی حفاظت اور نسلوں میں ان اقدار کی منتقلی ہم پر فرض ہے ورنہ ’’کچھ میٹھا‘‘ کے نام پر ملنے والا زہر ہمیں اور ہماری نسلوں کو مار ڈالے گا!!