ٹھوکر عظمیٰ(ابو نصر صدیقی)

309

 ’’آپ کو پتا ہے آپ کی آواز آپ سے زیادہ خوب صورت ہے۔‘‘ مخاطب کے جملے نے مجھے چونکا کر رکھ دیا۔
’’آپ۔۔۔ آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟‘‘ کچھ دیر قبل آنے والے شدید غصے کو یکسر بھول کر میں بے اختیار اُس سے پوچھ بیٹھی۔
’’جی بالکل، آپ کو دیکھا بھی ہے اور سنا بھی ہے ماہم۔۔۔‘‘ اس بھاری آوازکے ساتھ دھیمے لہجے میں کیا گیا اگلا انکشاف مجھے مزید پریشان کر گیا تھا۔۔۔ وہ میرا نام بھی جانتا ہے۔
’’کک۔۔۔ کیسے۔۔۔؟ آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟‘‘ میرے سوال پر وہ فون بند کرچکا تھا، میں سر کو تھامے کتابیں ایک طرف کرکے بیٹھ گئی۔ کانوں میں اُس کی آواز جو گونج رہی تھی۔
پچھلے کئی دنوں سے یہ رانگ نمبر مجھے تنگ کررہا تھا، بلکہ تنگ کیا بس فون ملاکر میرا سلام سنتا رہتا، اور آج تو میں اسے کھری کھری سنانے کا سوچ چکی تھی کہ اس کے انکشاف نے مجھے الجھن میں مبتلا کردیا۔ میں بار بار موبائل اٹھاتی، اس کا نمبر ہی بلاک کردیتی ہوں۔ مگر اس کے پاس تو میرا نمبر ہے، وہ دوسرے نمبر سے فون کرسکتا ہے، وہ مجھے جانتا ہے، کون ہوسکتا ہے یہ لڑکا؟ خاندان میں تو کوئی اتنا بڑا نہیں۔۔۔ بے شمار سوالات اور سوچیں میرے ذہن میں چل رہی تھیں۔ صبح سے شام ہوگئی میرا کسی کام میں، عبادت میں دل ہی نہیں لگ رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ دوبارہ فون ضرور کرے گا۔ میں بار بار موبائل اٹھاتی اور رکھ دیتی۔ مجھے شاید اس کے فون کا انتظار تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
’’علامہ اقبال کی ’’مکڑا اور مکھی‘‘ پڑھی ہے ناں تم نے؟‘‘ صبیحہ نے میری بات پر چھوٹتے ہی تبصرہ کیا۔
’’ہاں ہاں بالکل پڑھی ہے، تم فکر مت کرو، ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔‘‘ میں ہنس پڑی۔
’’جی جی، بالکل، وہ جو بی مکھی ہوتی ہیں ناں وہ بھی پہلے خوب نخرے دکھاتی ہیں اور اس کے بعد مکڑے کی جھوٹی تعریفوں اور خوشامد میں آکر جال میں پھنسنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔‘‘ صبیحہ نے سمجھایا۔
’’ویسے میری آواز میں کچھ ہوگا جبھی تو اُس نے میری تعریف کی ہے۔‘‘ میں نے صبیحہ کو مزید چھیڑا۔
’’خیر پھر بھی ہوشیار رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی کسی جال میں پھنس جاؤ۔‘‘ صبیحہ اب سنجیدہ تھی۔
صبیحہ بھی میری طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ میری اس سے بہت پرانی دوستی تھی، میں نے اسے جب اس نامعلوم شخص کے بارے میں بتایا تو اس کے نہ ختم ہونے والے مشورے شروع ہوگئے۔ اس نے مجھے فوراً اس سے بات کرنے سے منع کیا اور اپنا نمبر تبدیل کرنے کا مشورہ دیا، مگر مجھے تجسس تھا کہ آخر یہ ہو کون سکتا ہے؟ کالج سے آکر ابھی میں نے لباس تبدیل ہی کیا تھا کہ فون بج اٹھا۔ میں نے اس سے قبل فون کبھی چھپا کر یوں نہ رکھا تھا۔۔۔ امی کے استفسار پر میں نے جھوٹ بول دیا کہ صبیحہ کا فون ہے۔
’’لو ابھی تو کالج سے آئی ہو، تم دونوں کا باتیں کرکے پیٹ نہیں بھرتا؟‘‘ امی نے خفگی سے کہا۔
’’ارے امی! اس نے مجھے ایک اسائنمنٹ کی معلومات دینی تھیں، اب میرے پاس نیٹ تو ہے نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کہا اور کمرے میں جا کر فون سننے لگی۔
میں ایک بار لائن کاٹ چکی تھی مگر پھر فون بجنے لگا۔۔۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ میں نے اس سے بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔
دوسری طرف وہی بھاری آواز ’’کیسی ہیں ماہم؟‘‘
’’مم۔۔۔ میں ٹھیک۔۔۔ آپ آج مجھے بتادیں کہ آپ کون ہیں اور مجھے کیسے جانتے ہیں، ورنہ۔۔۔‘‘
’’ورنہ کیا کرلیں گی آپ۔۔۔؟‘‘ دوسری طرف سے میری بات کاٹ کر پوچھا گیا۔
’’میں آپ کا نمبر بند کروا دوں گی اور اپنا نمبر بھی تبدیل کرلوں گی۔‘‘ میری مری مری سی دھمکی بھلا اُس پرکہاں کارگر ہونی تھی۔
’’اچھا۔۔۔؟ میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ میرے فون کا انتظار کررہی ہوں گی۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’اور ویسے بھی میں تو صرف آپ کی آواز سننے کے لیے فون کرتا ہوں، آپ کو تنگ تو نہیں کرتا ناں؟‘‘ اس کے لہجے میں نہ جانے ایسا کیا تھا کہ میری ساری تیزی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی، اور ویسے بھی اپنی تعریف کسے بری لگتی ہے۔۔۔! مجھے بھی اُس کی نرم لہجے میں کی گئی اپنی تعریفیں اچھی لگنے لگیں اور میں آہستہ آہستہ اُس کے سحر میں گرفتار ہوتی چلی گئی۔
۔۔۔*۔۔۔
’’کیا بات ہے آج کل ماہم آپی بڑا تیار ہوکر کوچنگ جانے لگی ہیں؟‘‘ مجھ سے چھوٹی انعم نے ساتھ بیٹھی چچازاد سدرہ سے کہا جو ہمارے گھر میں ہی رہتی تھی۔
’’کک۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔ میں تو ہمیشہ سے ایسے ہی جاتی ہوں۔۔۔ تم شاید اب غور سے دیکھ رہی ہو۔‘‘ مجھے لگا جیسے میری چوری پکڑی گئی۔
’’ویسے ماہم آپی آپ کی جلد کتنی فریش ہے، آپ کیا لگاتی ہیں؟‘‘ سدرہ کے سوال سے میری جان میں جان آئی۔
’’کچھ نہیں، بس خوش رہو، پانی زیادہ پیو اور بلا وجہ کسی کی ٹوہ میں نہ لگو تو تمہاری جلد بھی بہت خوب صورت ہوجائے گی۔‘‘ میں نے سدرہ کو جواب دے کر انعم کی جانب دیکھا اور بیگ اٹھاکر چادر درست کرکے کمرے سے باہر نکل آئی۔
اظفر میرے کوچنگ سینٹر میں ہی پڑھتا تھا اور وہیں رجسٹر سے اُس نے میرانمبر حاصل کیا تھا۔ ایک رانگ نمبر سے شروع ہونے والی دوستی خوب بڑھ چکی تھی۔ میں کبھی کبھی کوچنگ کے بعد ایکسٹرا کلاس کے بہانے اُس کے ساتھ آئس کریم کھانے چلی جاتی۔ دونوں دیر تک باتیں کرتے، عہد و پیماں کرتے۔ مجھے ہر چیز خوب صورت لگنے لگی تھی، خود اپنا آپ بھی۔
نہ جانے یہ کیسا نشہ تھا جس میں کھوکر نہ مجھے رب یاد آتا، نہ ہی ماں باپ اور بہن بھائی۔ واقعی نشہ ہی تو تھا۔۔۔ اور نشہ تو ہر چیز کا برا ہی ہوتا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
’’جی آپ جب چاہیں آجائیں۔۔۔‘‘ میں سر کی چادر درست کرکے لاؤنج تک ہی پہنچی تھی کہ امی کی آواز سنائی دی، وہ کسی سے فون پر باتیں کررہی تھیں:
’’آپ نہیں جانتیں بہت معصوم ہے میری بیٹی۔۔۔ نماز روزے کی پابند اور چادر بھی اس نے اپنی مرضی سے ہی لینی شروع کی ہے، بہت عزت کرتی ہے اپنی چادر کی، مجال ہے جو کبھی گھر سے باہر اس کے سر سے چادر ہٹی ہو۔۔۔‘‘ امی کی، کی گئی تعریفیں مجھے اپنے دل میں چور بنا رہی تھیں۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دنوں میں وہ لوگ میرا رشتہ لینے آگئے۔۔۔ مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی یہ سب ہوجائے گا۔ ابھی میں نے صرف انٹر ہی تو کیا تھا۔ مجھے بہت غصہ تھا کہ امی نے مجھ سے پوچھنے کی ذرا بھی زحمت نہیں کی تھی، بس یہ کہا کہ وہ لوگ تمہیں پسند کرگئے ہیں اور جلد ہی منگنی کرنے کے متمنی ہیں۔ میرے تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی۔
امی بہت خوش تھیں، وہ مجھ پر اندھا اعتماد کرتی تھیں اور میں ان کے اعتماد کی دھجیاں اڑانے چلی تھی۔۔۔
’’اظفر میں کچھ نہیں جانتی، تم بس فوراً اپنے گھر والوں کو بھیجو۔۔۔‘‘ میں جھنجھلا کر بولی تھی۔
’’ماہم تم سمجھو تو سہی، ابھی میرا کوئی کیریئر نہیں ہے، میں کس طرح ان کو اپنی شادی کا کہوں؟ ابھی بڑے بھائی اور بہنیں موجود ہیں، میرے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے۔‘‘ اظفر کی بات مجھے اور تاؤ دلا گئی۔ میں جتنا اُس پر دباؤ ڈال رہی تھی وہ اتنے ہی بہانے بنا رہا تھا۔ وہ کچھ اور ہی چاہتا تھا جو میں سمجھی نہیں تھی۔
’’تو تم میرے ساتھ صرف وقت گزاری کررہے تھے۔۔۔؟‘‘ میں اب رو دی تھی۔
’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ تم رونا بند کرو‘‘۔ اور اس کے بعد اُس نے اپنا جو منصوبہ بتایا اُس پر میں نے آنکھ بند کرکے عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ مجھے ہر صورت اظفر کا ساتھ چاہیے تھا۔
’’ماہم! تم جانتی ہو تم آگ سے کھیل رہی ہو؟‘‘ صبیحہ نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تو۔۔۔! سب یہ چاہتے ہیں کہ میں ساری زندگی اَن چاہی گزار دوں؟‘‘ میں نے اس کے سوال پر سوال کیا۔
’’مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ میری دوست اتنے کمزور کردار کی نکلے گی۔۔۔ مجھے کبھی تم پر فخر تھا ماہم۔۔۔‘‘ صبیحہ نے ملال سے کہا۔
’’تم ہی بتاؤ۔۔۔ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا برا ہے کیا؟ اظفر مجھ سے جتنی محبت کرتا ہے وہ مجھے کوئی بھی نہیں دے سکتا۔۔۔‘‘ میں جذباتی ہوگئی۔
’’کیوں۔۔۔ تمہارے والدین نے بیس سال سے تمہیں اس سے کہیں زیادہ محبت دی ہے، اور آج ایک چند ماہ قبل ملے شخص کی محبت ان سے زیادہ ہوگئی؟ دھوکا دے رہا ہے وہ تمہیں۔‘‘
صبیحہ کی بات پر میں نے خفگی سے اسے دیکھا۔
’’ماہم! عورت کی عزت اس کے لیے سب سے اہم ہوتی ہے، اور تمہاری یہ بڑی سی چادر اس بات کی گواہ ہے کہ تم عزت کی زندگی چاہتی ہو، مگر میری بہن! تمہارے ایک غلط قدم سے تمہارے ماں باپ اور خاص کر تمہاری بہن انعم کی زندگی کس طرح جہنم بن جائے گی تم جانتی ہو۔۔۔ کئی مثالیں ہیں، میم نبیلہ کی بیٹی فارحہ۔۔۔ آج ایک سال کی بیٹی لے کر واپس اسی دہلیز پر بیٹھی ہے جس کو وہ اس اندھی محبت کے لیے پار کر گئی تھی۔۔۔ جانتی ہو ناں؟ جب محبت کی یہ پٹی اترتی ہے تو دنیا اپنی تمام تر کڑواہٹ کے ساتھ نظر آتی ہے۔ کیا مستقبل رہا فارحہ اور اس کی بیٹی کا؟‘‘ صبیحہ میرا ہاتھ تھامے مجھے سمجھا رہی تھی۔ اس کی باتوں میں وزن تھا مگر۔۔۔ میں بے وفا ٹھیروں، یہ مجھے منظور نہ تھا۔
’’پلیز صبیحہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے، اب کوئی فائدہ نہیں، میں پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔‘‘ میں یکبارگی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ماہم پلیز ایک مرتبہ پھر سوچ لو، میں نہیں چاہتی کہ میری عزیز ترین دوست کوئی ٹھوکر کھائے۔۔۔!‘‘ میں اس کی طرف دیکھے بغیر آگے بڑھ گئی۔
۔۔۔*۔۔۔
میری تیاری پوری تھی، میں اپنے بیگ میں اپنی تمام تعلیمی اسناد کے ساتھ امی کے زیورات اور جمع شدہ پیسے رکھ چکی تھی۔۔۔ آج تو لگتا تھا شام ہی نہیں ہوگی۔۔۔ میں آج آخری بار اپنے اس گھر کو جی بھر کر دیکھ رہی تھی۔ جیسے تیسے کرکے کوچنگ جانے کا وقت قریب آچکا تھا۔۔۔ میں تیار ہوچکی تھی۔
’’امی۔۔۔ امی۔۔۔! میری چادر کہاں ہے؟‘‘ میں نے بیگ اٹھاتے ہوئے چادرکی تلاش شروع کردی۔
’’یہ لو۔۔۔ اس پر کچھ دھبے لگ رہے تھے تو میں نے دھو کر ڈال دی تھی۔۔۔‘‘ امی نے چادر مجھے لاکر تھمائی۔ ’’پتا نہیں ماہم! کچھ عجیب سا محسوس ہورہا ہے، دل جیسے بیٹھا جارہا ہے۔۔۔‘‘ امی قریب کے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’رکیں، میں پانی پلاتی ہوں۔۔۔‘‘ میں نے تھوک نگلتے، کچن سے پانی لاکر امی کو دیا۔ چادر اپنے اوپر پھیلاتے ایک بار پھر مجھے عجیب سا احساس ہوا، میں نے امی کی جانب دیکھا، وہ اشارے سے مجھے بلا رہی تھیں۔
زیر لب آیت الکرسی پڑھ کر انہوں نے مجھ پر پھونکی۔ ’’تم نے موبائل رکھ لیا ناں؟ آج کل حالات کا بھی کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب کیا ہوجائے؟‘‘ امی کی محبت پر میری آنکھیں بھیگ گئیں، میں ان کو جواب دے کر تیزی سے باہر نکل آئی۔
۔۔۔*۔۔۔
کوچنگ کی چھٹی ہوچکی تھی، اظفر باہر میرا انتظار کررہا تھا، ایک ایک کرکے سب باہر جارہے تھے، میں نے بھی باہر جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ اسی لمحے بجلی کے جانے سے ہر طرف اندھیرا ہوگیا۔ میں بیرونی دروازے کے قریب پہنچ چکی تھی کہ اظفر کی آواز سنائی دی:
’’یار تم سب لوگ گاڑی میں جاکر بیٹھو، وہ بس آنے ہی والی ہوگی۔۔۔‘‘ وہ شاید اپنے دوستوں سے کہہ رہا تھا۔
’’دیکھ اظفر! ہمیں بھی حصہ ملے گا ناں۔۔۔ تُو اکیلا نہ ہڑپ کرجانا۔۔۔‘‘ کوئی لڑکا بولا۔
’’ارے آہستہ بولو۔۔۔ تم چلو تو سہی، ابھی دیکھنے دو کتنا ساتھ لاتی ہے وہ۔۔۔‘‘ اظفر دبی آواز میں بولا۔
’’اوئے ہوئے آگئی سونے کی چڑیا۔۔۔‘‘ لڑکے نے آنکھ ماری اور میرے، دروازے کی طرف آنے کے بارے میں بتایا۔
’’اظفر تم۔۔۔‘‘ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی، بیرونی دروازے کی چوکھٹ سے مجھے ٹھوکر لگی اور بے اختیار آگے بڑھتی میں منہ کے بل زمین پر جا گری۔ میرے سر سے چادر اتر چکی تھی اور میری پیشانی خاک آلود ہوگئی تھی۔۔۔ لیکن ساتھ ہی میری ذہنی کشمکش بھی ختم ہوچکی تھی۔
’’زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔؟‘‘ اظفر آگے بڑھا اور مجھے سہارا دینے کی کوشش کی۔ ملگجے اندھیرے میں مجھے اس کے چہرے پر سوائے شیطانیت کے کچھ نظر نہ آیا۔
’’نہیں مجھے اسی ٹھوکر کی ہی تو ضرورت تھی۔۔۔‘‘ میں یہ کہتی واپس مڑی اور کوچنگ سینٹر کے آفس میں جاکر ابو کو فون کرنے لگی کہ مجھے آکر لے جائیں۔

حصہ