’’تمام سیا سی جما عتیں ایک جیسی ہیں۔۔۔‘‘ کا نظریہ عوام کے ذہنوں میں بٹھادیا گیا ہے، لیکن جو سوچتے ہیں، وہ سُنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے تحقیق کرتے ہیں۔ کیا واقعی تمام سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں یا ان میں کوئی فرق بھی ہے۔۔۔؟ اس بات کا اندازہ ہمیں اُس وقت ہوا، جب ہمارے ایک دوست نے ہمیں فون کرکے اپنی حیرت کا اظہار اس طرح کیا کہ۔۔۔کیا واقعی ایک دہقان اور مزدور کا بیٹا امیر جماعت اسلامی بن گیا ہے۔۔۔ نہیں نہیں میں نہیں مانتا۔۔۔ فرمانے لگے: کیا مو لانا مودودیؒ کا کوئی بیٹا نہیں ہے؟
بالکل ہے۔۔۔ ہم نے جواب دیا۔
تو پھر میاں طفیل محمد کا کو ئی بیٹا یا بیٹی نہیں ہے؟
ان کے بھی بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔۔۔
کیا قاضی حسین احمد کی کو ئی اولاد نہیں تھی؟
کیا بک رہے ہو ان کے بھی بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ میں نے تحمل مزاجی سے کہا۔
اور منور حسن کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔؟
جی اُن کی بھی اولاد ہیں۔۔۔
میں پاگل ہو جاؤں گا۔ مجھے یہ بتاؤ تو پھریہ کس قسم کی سیاسی جماعت ہے، جس کے سربراہ کے بیٹے اور بیٹیاں کسی عہدے پر نہیں اور نہ ہی کوئی مال دار شخص ان کے کارکنان کی سربراہی کرتا ہے۔۔۔ کیا یہ جماعت آسمانوں پر فرشتوں کے ساتھ کام کر تی ہے؟
بالکل نہیں زمین پر ہی رہ کر پاکستان میں ہی کام کرتی ہے۔۔۔
یہ گفتگو کرنے والے ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں، جنہوں نے پیپلزپارٹی کراچی شرقی کے خزانچی ( بیت المال) کی حیثیت سے کئی سال فرائض انجام دیے، مگر پارٹی عہدے داروں کے ناروا سلوک کی وجہ سے پارٹی چھوڑ دی اور اب ہماری دوستی اور ’’تمام جماعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں‘‘ کا بغور جائزہ اور مطالعہ کر نے کے بعد موصوف اس وقت جماعت اسلامی میں امیدوار رکن ہیں۔
عہدے کن بنیادوں اور معیار کو سا منے رکھ کر ملنے چاہیے؟ یہ مطلوبہ معیار دین اسلام نے تو پندرہ سو برس پہلے ہی بتا دیا تھا، لیکن پاکستان میں بعض سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں، جن کے عہدے دینے کے معیار اسلامی نہیں بلکہ دنیاوی طرز کے ہیں۔ گزشتہ دنوں خبر پڑھی کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں تنظیم سازی اور مختلف عہدے دینے کے لیے چار معیار مقر کیے ہیں، جس کی سب سے پہلی شرط عہدہ لینے کے خواہش مند شخص کا مالی طور پر مستحکم ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شخص پارٹی میں مقبول بھی ہو اور ساتھ ہی اچھی صحت کا حامل بھی ہو اور سب سے آخر میں پارٹی کا وفادار ہونا بھی ایک شرط ہے۔ شاید، اس لیے وفاداری کی شرط آخر میں رکھی گئی کہ آنے والا فرد نہ جانے کس پارٹی کو چھوڑ کر یہاں عہدے کا خواہش مند بن کر آیا ہو، اس لیے وفاداری سے زیادہ مال دار فرد کا ہونا ضروری ہے، کیوں کہ پارٹی چلتی ہی دولت کی بنیاد پر ہے اور ایک عہدے دار جتنا دولت مند ہوگا، اس کے گرد اتنے ہی پارٹی کا رکنان جمع رہیں گے۔
عہدہ حاصل کرنے کا یہ معیار قریباً تمام دنیا پرست سیاسی جماعتوں کے ہیں اور ان کے سربراہ بھی اتنے ہی مال دار بلکہ اربوں پتی ہیں اور نسل در نسل پارٹی کی سر براہی بھی انہی کے خاندان کا حصّہ ہوتی ہے، ان کے خاندان کے علاوہ کو ئی بھی فرد پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے نام ہر پارٹی میں ہوتے ہیں، لیکن کوئی بھی یہ اعتراض نہیں کرتا کہ کل کا بچہ ہماری پارٹی کا سربراہ کیوں ہوگا؟ جس کو ٹھیک سے بولنا بھی نہیں آتا، مگر پھر بھی سربراہی اسی کے حصے میں آئے گی اوردعویٰ کیا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ جمہوریت ہماری پارٹی میں ہے۔ اگر کو ئی فرد ان جمہوریت کی دعوے دار پارٹیوں کی جمہوریت پر تحقیق کرنا چاہے تو دو دن میں ان کی جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دے، مگر پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے جمہوریت کی نفی کرنے، آمریت اور موروثیت کو پروان چڑھانے والی یہ سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ ہما رے اندر جمہوریت ہے اور کوئی بھی پارٹی میں آسکتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان پارٹیوں میں امیر، غریب کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ کل تک جو غریب کارکن پارٹی کے لیے نعرے لگاتا تھا، وہ آج بھی پارٹی کے لیے نعرے لگا رہا ہے۔ غریب کارکن پارٹی کا عہدہ محض اس لیے حاصل نہیں کرسکتا کہ اس کی مالی حیثیت مستحکم نہیں ہے، مگر جماعت اسلامی ان ’’دنیاوی معیارات‘‘ سے بالکل پاک ہے۔ اس کے یہاں عہدے کا معیار ’’تقویٰ‘‘ ہے اور سب سے بڑھ کرکارکن عہدوں کے حوالے سے خواہش مند نہیں ہوتا بلکہ حتی الامکان ذمّے داری لینے سے گھبراتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ذمّے داری کا مطلب دنیا اور آخرت کی جواب دہی بھی ہے۔
اس وقت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں میں سب سے غریب اور مالی لحاظ سے بینک بیلنس نہ رکھنے والا کسی پارٹی کا سربراہ اگر کو ئی ہے تو وہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہیں اور سراج الحق کی اسی غریب پروری کا اثر ہے کہ عوام جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں، خاص طور پر خیبرپختونخوامیں دیگر پارٹیوں کے کارکنان اور عوام یہ دیکھ کر شا مل ہورہے ہیں کہ ایک شخص جو کل تک ہمارے درمیان رہتا تھا اور جس کو لوگوں نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر نے کے لیے مزدوری بھی کر تے دیکھا ہے، جو دو دفعہ صوبائی وزیر خزانہ رہ چکا ہے، لیکن اس کے با وجود سادہ زندگی گزارتا ہے اور ہر قسم کی بدعنوانی سے پاک ہے، اس کے موجودہ اور سابقہ ارکان اسمبلی بھی بدعنوانی کی گندگی سے پاک ہیں۔ یقیناً جماعت اسلامی ہی اصل میں عوامی جماعت ہے، جہاں ایک کارکن بھی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ترقی کرسکتا ہے اور پارٹی کا سربراہ بھی بن سکتا ہے۔
جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہاں کوئی امیر اور غریب کا فرق نہیں ہے بلکہ سب برابر ہیں۔ اس جماعت میں عہدے مالی طور پر مستحکم شخص کو نہیں بلکہ تقویٰ اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ دولت اور سرمائے کے کھیل نے ہی اس ملک کو نظریاتی طور پر تباہ کردیا ہے۔ ہر طرف دولت کی ’’چمک‘‘ ہے اور اس کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، اسی لیے سراج الحق نے کہا ہے کہ بدعنوان لوگ نہ صرف پارٹیوں میں اپنی دولت اور سرمائے کی بنیاد پر قابض ہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں پر بھی اسی سرمائے کی بنیاد پر ان کا قبضہ ہے۔ کئی بار حکم رانی کا منصب حاصل کر نے کے بعد بھی ان پارٹیوں کے کارکنان کی قسمت نہیں بدلی بلکہ سرمائے کی بنیاد پر پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے والے دولت کی چکاچوند عوام کو دکھا کر الیکشن جیت جاتے ہیں اور جو لوگ پہلے ہی کروڑ پتی ہوتے ہیں، وہ ارب پتی بننے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے عہدے دار عوام اور اپنے کارکنان کا احسان مند ہونے کے بجائے اپنی کا م یابی کا کریڈٹ اپنی دولت کو دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ پارٹی عہدہ اور اسمبلی کی سیٹ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اب سیاست پیسے کا کھیل بن چکی ہے۔ پیپلز پارٹی سمیت وہ تمام جماعتیں، جن کے عہدے داروں اور ممبران اسمبلی پر بدعنوانیوں کے کیسز ہیں، ان کی پشت پناہی کی جا تی ہے، کیو ں کہ یہ لوگ پارٹی کے عہدے دار نہیں بلکہ پارٹی کی ’’اے ٹی ایم مشین‘‘ ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ ن جہا نگیر ترین کو بھی اے ٹی ایم مشین کہتی ہے، جن کے پاس ذاتی جہاز بھی ہیں۔ تحریک انصاف نے بہت جلد عوام میں مقبولیت حاصل کی، لیکن یہ مقبولیت اس وقت کم ہوئی، جب پارٹی عہدوں سے متعلق ہو نے والے انتخابات میں دھاندلی اور کارکنان کا اپنے من پسند عہدے داروں کو جتوانے کے لیے لڑائی جھگڑے کے بعد حقیقتِ حال کھل کر سا منے آئی کہ یہاں بھی عہدے دینے کا معیار صرف اور صرف سرمایہ ہی ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین کی تحریک انصاف سے علیحدگی کی بنیاد بھی پارٹی انتخابات ہی بنے تھے، جب پارٹی میں عہدے اقربا پروری کی بنیاد پر تقسیم کیے گئے۔ تحریک انصاف میں عہدے لینے والوں کی آپس میں جھگڑا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس پارٹی میں بھی عہدے کے حصول کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے اور وہی کام یاب ہوتا ہے جو ما لی طور پر مستحکم ہو۔
مالی طور پر مستحکم شخصیت اور اربوں روپے کی کرپشن کے کیسز کا سامنا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آگئے ہیں۔ ان کی واپسی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگلے سال قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں اور شرجیل میمن پیپلز پارٹی کے قائم کردہ ’’معیارات‘‘ پر ’’پورے اترتے‘‘ ہیں شاید اسی لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی ان کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔ دو برس تک خود ساختہ جلا وطن رہنے والے شرجیل میمن کو اس عرصے میں نہ پارٹی کی یاد آئی اور نہ ہی سندھ کے عوام سے محبت یاد آئی۔۔۔ اچانک ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ واپس آتے ہیں اور مخالفین پر برس پڑتے ہیں کہ میں پارٹی کا ایک کارکن ہوں اور عدالتوں کا سامنا کروں گا، مجھے عدالتوں پر اعتماد ہے۔ انہی عدالتوں کے ڈر سے وہ ملک چھوڑ گئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے شرجیل میمن کو اس لیے خوش آمدید کہا ہے کہ وہ پارٹی کا گراں قدر سرمایہ نہیں بلکہ پارٹی فنڈ ہیں۔ اس کا ثبوت انہوں نے آتے ہی حیدرآباد میں جلسہ کر کے دے دیا۔ ایک کارکن جلسہ کر رہا ہے۔ یقیناً جلسے کے تمام اخراجات بھی اسی کارکن نے ہی برداشت کیے ہوں گے۔ جلسے میں تقریر بھی وزیراعظم کے خلاف کی، جس کی ہمت وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے صدر بھی نہ کر سکے، جس کے جواب میں لیگی جیالے بھی خوب بولے کہ ’’سی ڈیز بیچنے والا ارب پتی کیسے بن گیا؟‘‘
سب جا نتے ہیں یہ تمام دنیا پرست، عوام کو ہر بار دھوکا دینے والی سرمایہ دار پارٹیاں اور اس کے عہدے دار عوام کی عدالت میں جانے کا کہتی ہیں کہ عوام سب جانتے ہیں۔ ہاں عوام سب جا نتے ہیں اور ہمیشہ ان کر پٹ افراد کو مسترد بھی کیا ہے لیکن غلامانہ ذہن رکھنے والی بیوروکریسی ان لوگوں کو قانون کی دفعات 62 اور63 پر پورا نہ اترنے کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت صرف اس لیے دیتی ہے کہ کرپٹ اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ سیاست دانوں کا ایک دوسرے کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو سہارا دے کر سرمایہ کے حصول کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ دونوں طرف کی کروڑوں اور اربوں کی کرپشن سامنے آنے کے بعد بھی ایک دوسرے کو بچانے اورپشت پناہی کی کوششیں صرف اور صرف دولت کے حصول کے لیے ہی کی جاتی ہیں۔ سو نے پہ سہاگا یہ کہ زر خرید میڈیا ان کرپٹ عناصر کو ایسے پروموٹ کرتا ہے، جیسے یہی سب سے بہتر ہیں اور سب کو ایک لائن میں کھڑا کرکے میڈیا ہی یہ راگ الاپتا ہے کہ تمام جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ کرپٹ قیادت اور کرپشن سے پاک قیادت کو ایک جیسا ہی کہتا ہے اور عوام کے ذہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن عوام اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کسی کے بہکاوے اور پروپیگنڈے میں آنے والے نہیں۔ عوام بہ خوبی جانتے ہیں کون بدعنوان ہے؟ کس کی قیادت کرپشن میں ڈوبی ہے؟ کس کے یہاں عہدے دولت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں اور کس جماعت کے کارکنان اپنا سربراہ خود منتخب کرتے ہیں؟؟۔۔۔ اب پرو پیگنڈہ اورجھوٹ کی سیاست کا خاتمہ قریب ہے۔ عوام کو اس بات سے ہی اندازہ لگا لینا چا ہیے کہ جہاں پارٹی عہدہ بھی دولت کی بنیاد پر بکتا ہو اورکسی بدعنوان شخص کو دولت اور سرمائے کے بل بوتے پر عوام کے پر مسلط کر دیا جائے، وہ فرد کس طرح عوام کے مسائل کو حل کرے گا؟ سرمائے کی بنیاد پر عوام میں مقبولیت حاصل کر نے والی سیاسی جماعتیںآخری سانسیں لے رہی ہیں۔ ان سر مایہ دار سیاسی جماعتوں کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مصنوعی تنفس فراہم کرنے والی کرپٹ اسٹیبلیشمنٹ کا بھی کچاچٹھا کھل کر سامنے آرہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا عوام سے دوری کا اگر یہی حال رہا تو ان کا سیاسی سفر ختم ہو جائے گا۔ جس طرح پیپلز پارٹی تین صوبوں سے ختم ہوچکی ہے، ایک دن سندھ سے بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی اور پھر ہمارے دوست کی طرح سب یہی کہہ رہے ہوں گے ’’تمام جماعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں بلکہ عوام سے مخلص، کرپشن سے پاک، غریب پرورقیادت ہی عوام کے مسائل حل کرتی ہے۔ ایسی جماعت دیکھنے کے لیے صرف تعصّب کی عینک اُتار کر دیکھنا ضروری ہے!!