سابق کپتان’ آل راؤنڈر اور کوچ مشتاق محمد سے بات چیت

300

۔ ۔ ۔ ۔سید وزیر علی قادری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

3ہفتے قبل برطانیہ کے شہر لندن ، کینٹ کاؤنٹی کے بعدبرمنگھم جانا ہوا جہاں پاکستان کے سابق کرکٹر اور دنیائے کرکٹ کی لیجنڈ شخصیت مشتاق محمد سے انٹرویو کی غرض سے ان کی رہائش گاہ پہنچے اور بات چیت شروع کی۔ ان کی اہلیہ نے پرتکلف ناشتے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اصرار تھا کہ پہلے اس سے فارغ ہوں اس کے بعد گفتگو ہوگی۔ ان کی بات مان لی ۔ ٹھنڈک زیادہ تھی لہذا ڈرائنگ روم میں ہیٹر کا خصوصی انتظام تھا جہاں بیٹھ کر گفتگو کو آگے بڑھایا۔ اس موقع پر وہاں رہائش پزیر منصور اور شاہد نے بھرپور ساتھ دیا۔
مشتاق محمد کاکہنا تھا کہ اللہ کریم نے بہت جلدی شہرت دی اور مقام دیا نوازا بھی بہت ،کم عمری یعنی 14سال کی عمر میں فرسٹ کلاس میچ کھیلا۔ کراچی Aکے لیے حیدرآباد میں حیدرآباد کے خلاف ڈبیو کیا ۔ قائد اعظم ٹرافی میں 87رنز اسکور کیے اور 28رنز دے کر 5کھلاڑی آؤٹ کیے۔ اس زمانے کے 22کروڑ پتی خاندان کے سپوت عبد ل ڈائر نے بھی ڈبیو میچ میں 78رنز ناٹ آؤٹ اسکور کیا تھا۔ ٹرافی میں کراچی وائٹس اور کراچی بلوز کے درمیان فائنل کھیلا گیا ، حنیف محمد کپتان تھے جب ایک ہفتے کے بعد میچ ہوا حنیف محمد نے ڈراپ کردیا اور عبدل ڈائر بھی ڈراپ کردیے گئے۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ بھائی صاحب نے ڈراپ کردیا واپس آئے شام کو گھر پر والدہ نے پوچھا کیا کیا؟ میں نے کہا بھائی صاحب (حنیف محمد) نے کھلایا ہی نہیں۔انہوں نے فورا بھائی صاحب سے پوچھا کہ کیوں نہیں کھلایا ؟ انہوں نے کہا کہ اماں ! حیدرآباد کمزور ٹیم تھی اس کا ڈبیو کرانا ضروری تھا اس لیے شامل کیا اور یہ فائنل بہت اہم میچ ہے اس لیے سینئرز منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دینا ضروری تھا۔
قائد اعظم ٹرافی کا ایک اور میچ زبردست یادگاری تھا ۔کے سی اے کی ٹیم میں وزیر محمد اور فاروق محمد کھیل رہے تھے۔ میں، صادق محمد، حنیف محمد پی آئی اے کی طرف سے کھیل رہے تھے ۔ حنیف محمد نے 187رنز کیے۔ میچ کا دوسرا روز تھا ۔کے سی اے بمقابلہ پی ئی اے صادق نے میرا کیچ لے لیا۔ میرے 200 رنز ہونے والے تھے۔ شام کو گھر آئے والدہ نے پوچھا کیا کیا۔ میں نے کہا کہ ڈبل سنچری رہ گئی؟ کیوں؟ انہوں نے استفسار کیا، میں نے کہا اماں یہ جو سامنے بیٹھا ہے )صادق ) اس نے میرا کیچ پکڑ لیا۔ انہوں نے صادق کو ڈانٹا اور کہا کہ بڑے بھائی کا بھی لحاظ نہیں رکھا ،کیا تھا اگر 4رنز اور ہوجاتے کیچ تو بعد میں بھی پکڑا جاسکتا تھا۔ اس کے اگلے روز کے سی اے کی بیٹنگ آئی صادق محمد 96رنز پر کھیل رہے تھے میرے ہاتھ میں گیند آئی اور وہ 4رنز کی کمی سے سنچری نہ بنا سکے۔ اب دوبارہ والدہ کے سامنے پیشی تھی۔ صادق سے پوچھا تم نے کیا کیا ؟ اس نے کہا وہی ہوا جو کل مشتاق بھائی کے ساتھ میں نے کیا تھا ۔ آج انہوں نے میرا کیچ اس وقت تھام لیا جب میری سنچری میں محض 4رنز باقی تھے۔ ماں نے مجھے ڈانٹا کہ کچھ تو خیال کرلیتے بدلہ لینا ضروری تھ۔یہ تھا ہمارے گھر کا ماحول ہر وقت کرکٹ ہی موضوع رہتا چاہے کھانے پر بیٹھے ہوں یا صبح کا ناشتہ ہو۔ بڑا بھی اسی ماحول میں ہوا۔
میں انگلینڈ MCCکرکٹ ٹیم کے کپتان TedDhtسے متاثر تھا۔ وہ 1961میں ٹیم لے کر آئے انہوں نے 205رنز کراچی میں کیے تھے۔ بولنگ میں آسٹریلیا کے کپتان رچی بینو (Riche beno)کا اکیشن بہت پسند تھا ان کو کاپی کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ گیری سوبرز کی تو کیا ہی بات ہے وہ تو 100فیصد آئیڈیل نہ صرف میرے ہیں بلکہ ہر سوجھ بوجھ رکھنے والے کرکٹر کو آپ ان کا مداح پائیں گے۔
بین الاقوامی طور پر ایک یادگاری میچ اور بھی ہے۔ 1977میں پورٹ آف اسپن ویسٹ انڈیز میں چوتھا ٹیسٹ میچ تھا اچھا ٹور جارہا تھا سوچا خود کو ڈراپ کرکے میانداد کو چانس دوں ٹیم کے مفاد میں اپنی کپتانی اور پلیئنگ XIسے الگ ہونا چاہا رہا تھا کہ youngsters کو چانس دوں مگر ماجد خان نے منع کردیا۔ میں نے 121رنز کیے اور 5کھلاڑی آؤٹ کیے۔ اللہ رب العزت نے عزت دی۔ دوسری اننگ میں 56رنز اسکور کیا اور 3کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اس طرح سیریز برابر کردی۔ اب دیکھیں کہاں ڈراپ ہورہا تھا اور کہاں اتنی زبردست کارکردگی دکھا کر سرخرو ہوا الحمدللہ۔
ناقابل فراموش ٹیسٹ نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں 1979جب ہم 4-5اہم کھلاڑی آصف اقبال، عمران خان، ظہیر عباس کیری پیکر سیریز کھیلنے گئے ہوئے تھے جاوید میانداد بھی آگئے اور ہارون رشید بھی آگئے۔ youngsters میں طلعت علی، انور علی، سکندر بخت اور سرفراز نواز منجھے ہوئے فاسٹ بولر موجود تھے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہویے کہ اہم پایے کے کھلاڑی موجود نہیں ہیں پہلے میچ کو ڈرا کے انداز سے کھیلنے کا منصوبہ بنایا اور وکٹ پر زیادہ سے زیادہ کھڑے رہیں بلے باز اور بولر کم سے کم رنز دیں۔ میں نے آل راؤنڈر کارکردگی دکھاتے ہویے 5وکٹیں لے لیں۔ ان کا Brendon Bostwell فاسٹ بولر تھا جو گیند کراکر وکٹ پر ہی بھاگتا تھا۔ دوسری اننگ میں بیٹنگ کرتے ہویے جلدی رنز کرنے تھے یہ خیال آچکاتھا کہ چائے کے وقفے پر ڈیکلئیر کردیں گے اور ان کو بیٹنگ کرنے کا موقع دیں گے۔ ماجد خان انجئرڈ تھے انہوں نے کہا کہ یہ میچ ڈرا کرنے کی غرض سے کھیلو۔ جب میں نے ڈیکلئیر کرنے کا کہا تو وہ ناراض ہوگئے انہوں نے بہت روکا ان کا کہنا تھا کہ پریشر بڑھ جائے گا ایک کھلاڑی بھی بلے بازی میں آگے چلا گیا نیوزی لینڈ کا ۔ جاوید میانداد کھیل رہے تھے اور انہوں نے 164رنز کی اننگ کھیلی ہماری پوزیشن اچھی ہوگئی۔
نیوزی لینڈ نے 280رنز کرنے تھے آخری روز پریشر ڈال سکتے ہیں 40منٹ پہلے ڈیکلئر کردیا۔ ماجد خان اب تو بہت ناراض ہوگئے۔ سرفراز نواز اور سکندر بخت اور میں نے بولنگ کرائی۔ 36رنز پر ناٹ آؤٹ بھی رہا تھا۔ اور اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ پہلی اننگ میں میں نے 5اور دوسری اننگ میں 4کھلاڑی آؤٹ کیے یعنی اس میچ میں 9کھلاڑیوں کو وکٹ بدر کیا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ پوری رات نیند نہیں آئی۔مگر اس ذات نے ہماری ٹیم کو چائے کے وقفے سے پہلے ہی فتح سے ہمکنار کردیا۔ اور عزت کو برقرار رکھا۔ آخری اننگ میں نیوزی لینڈ کے 4کھلاڑی میں نے اور وسیم راجہ نے بہترین بولنگ کرکے 4وکٹیں لیں ۔
پاکستان میں میں نے بہت عظیم کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور ان سب نے میری طرح قائد اعظم ٹرافی کھیل کر ہی دنیا کی کرکٹ میں قدم رکھا تھا۔ کیونکہ میرے بچے یہاں پیدا ہوئے انگلینڈ میں تو پرورش دوسرے انداز میں ہوئی۔ ہمارے ہاں جس طرح ماں کے ساتھ کرکٹ کی بات ہوتی تھی میں اور میرے بچے جس ماں سے ہیں ان کو اس طرح دلچسپی نہیں تھی۔ یوں کہیں ماحول نہیں ملا گھر میں ان کو۔
آج کی کرکٹ اور قومی کرکٹرز کا زکر کرتے ہوہے ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے اور بدقسمتی کہ انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی ہے۔ نئی پود (youngsters)نے اپنے ملک میں کرکٹ ہوتے دیکھی ہی نہیں۔ جب تک ایک ابھرتا ہوا نوجوان اپنے سینئیرز کو کھیلتا نہیں دیکھے گا ساتھ نہٰیں کھیلے گا کس طرح inspiredہوگا اور اس کو followکرے گا۔ نوجوان کھلاڑی صلاحیت رکھتا ہے مگر زہنی طور پر ایکشن کے ساتھ توازن نہیں ہے ۔ ہوم سیریز پاکستان کے باہر ہورہی ہے جس میں امارات شامل ہے اس کی وجہ سے بہت نقصان ہورہا ہے۔ دنیا بھر میں کرکٹ بہت بدل گئی ہے ۔ قوانین تبدیل ہوگئے ہیں ، سفید کٹ سے کلر کٹس کا رواج ہوگیا۔ ٹیسٹ سے ایک روزہ اور پھر ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ تک اس کا دائرہ کار پھیل چکا ہے۔ پنک گیند نے ریڈ گیند کی جگہ لے لی ہے۔ دراصل تبدیلی بہتری کے لیے ہوتی ہے ہمیں نقصان ہوا۔پہلے ٹور ہو رہے تھے کرکٹ کھیلنے کے زیادہ مواقع مل رہے تھے ۔
فلحال پاکستان کرکٹ ٹیم 5سال پیچھے ہوگئی ہے دوسری ٹیموں کے مقابلے میں ۔ اس کی وجہ ملک میں کرکٹ کا نہ ہونا ہے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل ) کا انعقاد اچھی بات ہے۔ new demand ہے۔you have to carry on world cricket۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی ) کا اقدام خوش آئند ہے۔ پہلا سال اچھا رہا دوسرا سال بھی اچھا کہ لیں ۔ اس طرح کی کرکٹ میں temperment میں دوسرے فارمیٹ کی نسبت فرق ہوتا ہے۔ 5روزہ میچ ٹیسٹ فارمیٹ 50اوورز پر مشتمل ایک روزہ میچ اور20اوورز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی میچ یقیناًفرق تو ہوگا۔ ہمارے وقت میں تو ہیلمیٹ بھی نہیں تھا۔ معیاری چیزیں دستیاب نہیں تھیں۔ پہلے risk costingزیادہ تھی ۔ uncovered wicket تھیں۔ 20 سال میدان میں کھیلا ہے۔ بارش ہوئی پھر رک گئی کھیل شروع ہوا دوبارہ ہوئی تو پھر رکا اور پھر خشک ہوا یا نہ ہوا میدان میں ٹیموں کو آنا ہے۔ اب تو وکٹ cover رہتی ہے اور آؤٹ فیلڈ کو بھی ڈھاپنا جاتا ہے ۔ پہلے بھی ہونا چاہیے تھا کم از کم وکٹ کو تو کور کیا جاسکتا تھا۔سابقہ قوانین بھی عجیب تھے۔ اسٹمپ ، کریز کو تو خیر ڈھانکا جاسکتا تھا۔
نوجوانوں کے لیے پیغام یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر انسان کو صلاحیت دی ہے اس کو ٹیلنٹ دیا ہے اسی طرح کھیل اور کرکٹ کے شعبے میں بھی کھلاڑی اس نعمت کو استعمال کرے۔ اس سے ٹیم کو اور ملک کو فائدہ پہنچائے۔ بلے باز ہو یا بولر اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے میدان میں وہ کچھ کردکھائے جو اس کے من میں ہوتا ہے جب وہ ٹیم میں شامل ہوکر اپنے ماں باپ اور اپنے استادوں کو بتانا چاہتا ہے کہ مجھے جو اللہ کریم نے صلاحیت دی ہے وہ ایمانداری دیانتداری اور لگن سے استعمال کروں گا۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کارکردگی وقتی نہ ہو اس میں تسلسل ہو۔ آجکل بحیثیت کھلاڑی جس کو موقع مل جائے وہ کرکٹ کے میدان میں اپنا تن من دھن سب لگادے ۔
جہاں تک ٹیلنٹ کا تعلق ہے وہ رب العزت کی دین ہے اور اس کو polish کرنا اور ٹیکنک کا استعمال کرانا کوچ کا کام ہے۔ اللہ رب العزت نے جب پیدا ہوتا ہے تو اس کو ٹیلنٹ دیا ہوا ہوتا ہے وہ خود اس کو polish کرتا ہے۔ ہر ایک کے اندار چھپی ہوئی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہر جگہ ہر شعبے میں جیسے ڈاکٹر ، انجینئیر ہوتا ہے اسی طرح کھلاڑی کو بھی اس کے والدین گھر میں دیکھ رہے ہوتے ہیں اچھے سمجھدار سرپرست اس کو اسی حساب سے کیرئیر کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ہر کام میں consistuency تسلسل اور استقامت بہت ضروری ہے۔
معذرت کے ساتھ آج کا کھلاڑی ٹیلنٹ تو رکھتا ہے مگر اس کو سمجھ کم ہے کرکٹ میں ہمارے کھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ جب میدان میں اتریں تو حالات کا جائزہ لیں، وکٹ کو سمجھیں، فیلڈر کو نظر میں رکھیں نیز بولنگ ایکشن کو آنکھ سے دیکھیں اور دماغ کو استعمال کریں جب شاٹ کھیلیں۔ اس کو چاہیے وہ ذمے داری محسوس کرتے ہویے اور اپنے بڑوں یعنی سیلکٹرز کے بھروسے پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔ کب کس طرح کی شاٹ کھیلنی ہے اس کو اس تحمل کو بہت ضرورت ہے جلد بازی نہٰیں کرے ۔ آج کا نوجوان کرکٹ تو کھیلنا چاہتا ہے مگر اس کو میدان سے باہر جو سکھایا جاتا ہے اس کو apply نہیں کرتا۔
آجکل میں کوچنگ کررہا ہوں موزلے اسکول کا گراؤنڈ ہے ہفتہ اور اتوار کو Attockٹیم کے نام کھلاڑی کھیلتے ہیں 20سال قبل جو نوجوان پاکستان کے اٹک کے علاقے سے یہاں آئے تھے انہوں نے کلب کی بنیاد رکھی اور برمنگھم میں لیگ بھی کھیلتے ہیں اس ٹیم کے کھلاڑی جو 2ndڈویژن کہلاتی ہے دنیا بھر سے کھلاڑی آتے ہیں پاکستان سے بھی کھلاڑی آتے ہیں یہ گراؤنڈ میرے گھر کے بالکل سامنے ہے۔ یہ بھی بتا دوں کوچنگ ایجبسٹن کرکٹ اسٹیڈیم میں جاکر کرتا ہوں۔
روزنامہ جسارت اور آپ کا بہت بہت شکریہ کہ اتنے دور آکر انٹرویو کیا۔ اللہ کریم آپ سب کو کامیاب کرے آمین۔
nn

حصہ