تم لوگ تو شہرت زدہ اور نالائق ہو راغب مراد آبادی ندیم صدیقی
راغب مراد آبادی ہمارے دَور میں داغ دہلوی جیسوں کی یاد دلاتے تھے۔ اُنھوں نے بزرگوں کی طرح طویل عمر ہی نہیں پائی بلکہ اسلاف و اکابر کی طرح مرحوم نے اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ بڑے سلیقے سے اپنی زبان و ادب کے لیے صرف کیا اور زندۂ جاوید شخصیت بن گئے۔۔۔ اور سچ یہ بھی ہے کہ اب ان جیسوں کی ادنیٰ مثال بھی ہمارے اردگرد نہیں۔ ہم اردو والوں میں ایک طرح کا احساسِ تفاخر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یہ احساس مرحوم راغب مراد آبادی کے ہاں بھی تھا یا نہیں؟ اس بحث سے قطع نظر ہم یہاں یہ بتاتے چلیں کہ وہ اپنے ہم عمروں، ہم عصروں میں اس لیے بھی ممتاز تھے کہ خالص مراد آبادی حکیم راغب نے پنجابی زبان میں بھی شعر و شاعری کے پھول کھلاکر ایک مثال قائم کی۔ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے شعرا کی مادری زبان اُنھوں نے کیسے سیکھی اور اس میں انھیں کتنی دسترس حاصل ہوئی، اس کا بیّن ثبوت ان کی رباعیوں کا مجموعہ ’’تاریاں دی لو‘‘ ہے۔
قمری سال کے مطابق سید اصغر حسین راغب (مراد آبادی) نے اپنی عمر کی سینچری پوری کرلی تھی، یہ بات بھی آج ایک ریکارڈ بن گئی ہے۔ جبکہ وہ سنِ عیسوی اور اپنی پیدائشی اسناد کے لحاظ سے93 سال کے تھے۔ وہ 27 مارچ 1918ء کو پیدا تو دہلی میں ہوئے تھے مگر ان کا آبائی وطن مراد آباد ہی تھا۔ مرحوم نے دہلی ہی میں 1935ء میں گریجویشن کیا تھا۔ ان کے شعری انداز میں ظرافت کا عنصر غالب رہتا تھا۔ مگر اُن کا سب سے نمایاں وصف بلکہ سب سے بڑی خوبی جس کا اعتراف تمام لوگ کرتے تھے وہ تھی اُن کی فی البدیہہ گوئی، جو عطیۂ خداوندی تھی۔ اس معاملے میں مرحوم رئیس امروہوی کا بھی بڑا نام ہے۔ روایت ہے کہ ایک بار پی ٹی وی نے ایک غیر معمولی پروگرام پیش کیا، جو’’فی البدیہہ بیت بازی‘‘ جیسا تھا۔ ایک طرف رئیس امروہوی تھے تو دوسری طرف حکیم راغب مرادآبادی۔ راوی بتاتے تھے کہ یہ پروگرام کوئی گھنٹہ بھر چلا ہوگا اور ٹی وی کے ناظرین تھے کہ ان کی نظریں ٹی وی سیٹ سے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اس میں بظاہر تو راغب صاحب اپنے حریف سے چند ثانیے خاموش رہنے کے باعث ہار گئے تھے، مگر ثقہ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ مقابلہ چونکہ کانٹے کا تھا، رئیس امروہوی سارے پاکستان میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور راغب صاحب بھی اُن کے احترام کے قائل تھے، لہٰذا اس مقابلے میں رئیس امروہوی کے احترام کو سلامت رکھا گیا۔ کیا شرافتِ نفسی تھی راغب مرحوم کی۔۔۔!!
راغب مرادآبادی اردو، فارسی اور عربی ہی نہیں انگریزی کے ساتھ پنجابی پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بات مسلمہ ہے کہ وہ جوشؔ کے بعد رباعی کے سب سے ممتاز شاعر تھے۔ بشمول تاریخ گوئی، شاعری کے جملہ فنون پر انھیں عبور حاصل تھا۔ وہ اگر فنِ صحافت میں مولانا ظفر علی خان کے شاگرد تھے تو شاعری میں انھیں یاس یگانہ چنگیزی اور صفی لکھنوی جیسے استادوں سے شرفِ تلمذ نصیب ہوا۔
راغب ایک مداحِ رسولؐ کے طور پر بھی ممتاز تھے کہ ان کے دو نعتیہ مجموعے’’مدحتِ خیرالبشرؐ‘‘ اور’’مدحِ رسولؐ‘‘ شائع ہوئے، بلکہ ان میں آخر الذکر کتاب فنِ غیر منقوط کی ایک نادر مثال بن گئی۔ 600 احادیث اور قرآنی آیات کا منظوم مجموعہ، نقوشِ امریکہ (منظوم سفرنامہ)، ان کی چالیس کتابوں میں سے ایک ’’رگِ گفتار‘‘ (غزلوں کا مجموعہ) شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔
1948ء سے 1970ء تک وہ مشہور ادبی جریدے’سفینہ‘ کی ادارتی ذمے داریاں بھی نبھا چکے تھے۔ جوشؔ ملیح آبادی سے اُن کے ادبی مکالمات پر مبنی دو مجموعے کتابی شکل میں ’’باقیاتِ راغب‘‘ میں شامل ہیں، جبکہ تیس سے زائد مسودے ابھی طباعت کے منتظر ہیں۔۔۔ اور ہندوستان اور پاکستان میں راغب مرادآبادی کے شاگردوں کی بھی اچھی خاصی تعداد بتائی جاتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کا ایک شعر جو، ہر صاحبِِ ذوق کو یاد ہے، اُنھوں نے اس کی تضمین کی اور فیض کو سنائی بھی، جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
گزر رہے تھے گلی سے جنابِ شیخ ایسے
کہ جیسے کوئی کرم کا امیدوار چلے
نظر ملی تو کہا نائیکہ نے کوٹھے سے
’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘
اردو کا یہ فرزند اپنے دَور میں تو منفرد تھا ہی، مگر کمال یہ ہے کہ کمپیوٹر کے دور میں بھی اس کی انفرادیت متاثر نہیں ہوئی۔
’ایسے بیٹوں کی موت پر بی اُردو کا کیا حال ہوا ہوگا۔۔۔؟‘ اس سے قطع نظر ہم تو اس پر بہت خوش ہیں کہ
’’راغب نے جگہ تو خالی کی، اب ہمی ہم ہوں گے‘‘
مگر شکر ہے کہ ہمارا ضمیر ابھی زندہ ہے، اُس نے حضرتِ راغب کے لہجے میں کہا:’تم لوگ تو شہرت زدہ اور نالائق ہو!‘
راغب مراد آبادی تھے وہ فخرِ روزگار
حاصل بدیہہ گوئی میں تھا جن کو افتخار
تھی زودگوئی ان کی زمانے پہ آشکار
آتے نہیں ہیں ایسے قلمکار بار بار
(مشتاق محمد 22نومبر 1943میں جونا گڑھ گجرات بھارت میں پیدا ہوئے۔ کرکٹر کی حیثیت سے دائیں ہاتھ سے بلے بازی اور سیدھے ہاتھ سے بولنگ کرتے تھے گوگلی بہت مشہور تھی آل راؤنڈر کی حیثیت سے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے اور شاندار کیرئیر رہا۔ دیگر براداران میں وزیر محمد ، حنیف محمد، صادق محمد اور بھتیجے شعیب محمد نے دنیائے کرکٹ میں شہرت پائی۔ پورا گھرانہ کرکٹ کا دلدادہ تھا۔ آئندہ سال پلاٹینم سالگرہ منائیں گے یعنی 75سال کے ہوجائیں گے۔ 26مارچ 1959ٹیسٹ ڈبیو کیا اور کیپ حاصل کی۔ جس میچ میں یہ اعزاز حاصل کیا وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف لاہور میں کھیلا گیا۔ اور یہ قومی ٹیم کی 31ویں کیپ تھی۔ 15سال 4ماہ اور 4دن کی عمر میں مشتاق محمد دنیا کے پہلے سب سے کم عمر کھلاڑی بن گئے۔ پہلے میچ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ محض 18رنز بنائے ۔ دیگر کھلاڑی بھی قومی ٹیم کو ایک اننگ اور 156رنز کی شکست سے نہ بچا سکے۔ 10ٹیسٹ سنچریاں بنائیں اور پہلی ٹیسٹ سنچری 5ٹیسٹ میچوں کے بعد چھٹے ٹیسٹ میچ میں بنانے میں کامیاب ہویے۔ خصوصیت کی حامل یہ بات تھی کہ بھارت کے خلاف کھیلتے ہویے یہ اعزاز حاصل کیا۔ یہ میچ فیروز کوٹلہ گراؤنڈ میں کھیلا گیا تھا۔ سب سے کم عمر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہویے پہلے سنچری میکر بنے۔ جس کو 40سال یعنی 4 دہائیوں تک کوئی بریک نہیں کرسکا۔ دوسری سنچری 1962میں بنائی انگلینڈ کے خلاف ۔ اس کے ب عد تیسری سنچری کے لیے 9سال انتظار کرنا پڑا۔ 1970میں ریسٹ آف ورلڈ ٹیم کے ممبر بنے اور انگلینڈ کے خلاف ایک اور سنچری داغ دی۔ 1973میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ڈبل سنچری بناڈالی۔ یہ ہی نہیں 5کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کیا۔سیزن میں 777رنز 86.43رنز اوسط کے ساتھ اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قومی ٹیم کی قیادت کا سہر ا 1976-77اور وقفے کے بعد 1978-79سجا۔قیادت کے ساتھ 19ٹیسٹ میچز کھیلے۔آخری ٹیسٹ آسٹریلیا کے خلاف 24مارچ 1979 کو کھیلا تھا۔ 20 سال تک پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں خدمات انجام دیں جو قوم کے لیے سرمایہ ہے۔ مشتاق محمد کو ریورس سوئیپ کرنے کا پوری کرکٹ دنیا میں موجد قرار دیا جاتا ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں وہ قومی ٹیم کے 5 ویں کھلاڑی تھے 11فروری 1973کو نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کھیلا تھا۔ اور 3نومبر 1978بھارت کے خلاف ان کا آخری بین الاقوامی ایک روزہ میچ تھا۔ مختصر یہ کہ مشتاق محمد نے 57ٹیسٹ 10ایک روزہ ، فرسٹ کلاس میچز کی تعداد 502اور LAمیچز کی تعداد 180رہی۔ ٹیسٹ کیرئیر میں 3643رنز اسکور کیے جس میں 10سنچریاں اور 19نصف سنچریاں شامل ہیں سب سے بڑا اسکور 201 رنز ہے۔ بولر کی حیثیت سے 5260گیندیں کرائیں اور 79وکٹیں لینے میں کامیاب ہویے۔ 3 مرتبہ 5وکٹیں لیں ایک اننگ میں ۔ سب سے عمدہ بولنگ 28رنز دیکر 5 وکٹیں ہے۔ فیلڈنگ کے شعبے میں 42 کیچز لیے۔ایک روز ہ میچوں کی تعداد 10رہی 209رنز اسکور کیے سب سے عمدہ بلے بازی 55رنز تھا۔ بولنگ میں صرف 42گیندیں کرائیں کسی بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ 3 کیچز لے کر اپنے نام کیے۔ کیری پیکر کا بھی حصہ رہے۔ 1999میں قومی ٹیم کے کوچ بنے ورلڈ کپ کے موقع پر۔برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم پاکستان کرکٹ ٹیم کے نامور لیجنڈ سابق آل راؤنڈر مشتاق محمد سے بات چیت ہوئی جو قارئین جسارت سنڈے میگزین کے لیے پیش ہے۔