اقوام متحدہ کی انجمن اپنا حقیقی کردار ادا کرے یا نہ کرے، وہ دلچسپ سروے اور تجزیہ رپورٹیں ضرور شائع کرتی رہتی ہے۔ سال بھر میں کتنے ہی دن خوشی، غمی، بیماریوں، جانوروں، پرندوں اور مختلف ’’حقوق‘‘ کے نام پر مناتی ہے۔ دنیا کی کسی بھی کمزور مخلوق سے زیادہ اس کی ہمدردیاں ’’عورتوں‘‘ کے حقوق سے ہیں، جس کے لیے عالمی کانفرنسیں کی جاتی ہیں، اور ان کا ایجنڈا ایک ہی ہوتا ہے کہ دنیا کی ناسمجھ عورتوں کو سمجھ دار کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ مردوں کی ’’غلامی‘‘ سے نکلیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر عورتوں کی صلاحیتیں دریافت کی جائیں اور دنیا بھر کے مردوں پر رعب ڈالا جائے کہ عورتیں نہ صرف مردوں کے برابر ہیں بلکہ ان سے آگے ہیں!! لیجیے جناب آپ کا دعویٰ دھرے کا دھرا رہ گیا کہ مرد کو اللہ نے زیادہ جسمانی مضبوطی عطا کی ہے۔ ہم تو اب ٹرک چلا رہے ہیں، ہیلی کاپٹر سے پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگیں لگا رہے ہیں، لڑاکا طیاروں کو اڑا رہے ہیں، اسکوٹر چلا رہے ہیں (آپ کے برابر سے جو موٹر بائیک گزرے ذرا توجہ سے دیکھ لیجیے گا کہ کوئی خاتون چلا رہی ہیں کہ مرد حضرت؟ کیونکہ حضرات خواتین کی ڈرائیونگ سے بہت ڈرتے ہیں)۔ ہاں جناب! اب ہم فیولنگ اسٹیشنوں پر فیول ڈال رہے ہیں، سڑک پر خاکروبوں کے ساتھ دھول مٹی صاف کررہے ہیں وطن کی، ہر سپر اسٹور اور شاپنگ مال پر ’’سماج‘‘ کی خدمت کرتے کرتے تھکے جارہے ہیں، پولیس کی وردی میں بھی ہم اچھے لگتے ہیں اور فوج کی وردی بھی ہم پر جچتی ہے۔ ہم گٹر کی صفائی کے لیے اس میں اتر جائیں یا زیر تعمیر سڑک کا ملبہ سر پر رکھی پرات میں لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوں، یا شوہر کی لاچاری کی صورت میں ٹھیلے پر سبزی فروش کا کردار ادا کررہے ہوں، برے ہم آپ کو کبھی بھی نہیں لگتے۔ (بس یہی برائی ہے آپ کی۔۔۔!!)
اوہ! بات شروع ہوئی تھی اقوام متحدہ سے۔۔۔ خوامخواہ اختلافی موضوع کی طرف چلی گئی۔ اقوام متحدہ نے ’’خوش باشی کے عالمی دن‘‘ یعنی 20 مارچ کو ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ ساری دنیا کو بتاتی ہے کہ دنیا میں کس ملک کے لوگ کتنے خوش باش ہیں؟ اور کیوں ہیں۔۔۔؟ پچھلے برس ڈنمارک دنیا میں سب سے زیادہ خوش باش رہنے والوں کا ملک تھا، اِس بار اُس کا نمبر دوسرا ہے اور اب ’’ناروے‘‘ ٹاپ پر ہے۔ اس کے بعد بالترتیب آئس لینڈ، سوئزرلینڈ اور فن لینڈ ہیں۔ ہمارا بس چلے تو ہم چھٹے نمبر پر پاک لینڈ (پاکستان) کو شامل کروا دیں۔ کیونکہ جو دوسرے ممالک کے لوگ خوش باش ہیں اُن کی خوشی مشروط ہے بہتر ماحول، بہتر روزگار، بہتر تعلیم، بہتر علاج، بہتر بیمہ پالیسی، بہتر روزگار وغیرہ کے ساتھ!! ہم دنیا کی وہ عظیم قوم ہیں جو بظاہر خوشی کے اسباب نہ ہوتے ہوئے بھی خوش خوش جیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حاسدین کو ہماری خوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اولمپکس میں ہمیں کانسی کا ایک تمغا بھی نہیں ملتا مگر ہم کھیل تماشوں کی دیوانی سادہ سی قوم۔ ورلڈ کپ کرکٹ کے موقع پر ہمارا انہماک دیدنی، یوم آزادی کے موقع پر ہم ملک کے چپے چپے کو سجا دیتے ہیں، ابھی 23 مارچ یوم پاکستان ہم نے قومی جذبے سے خوشی خوشی منایا، مذہبی ایام میں ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے، اس لیے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ پی ایس ایل فائنل کو قوم نے ایک جشن کے طور پر منایا۔ کوئی اس دوران یہ اندازہ کرسکتا تھا کہ یہ اس ملک کے لوگ ہیں جہاں ہر ہفتے عشرے میں کوئی بم دھماکا ہوتا ہے، جہاں کی فضائیں بار بار بے گناہوں کے جسموں کے لوتھڑوں سے بوجھل ہوجاتی ہیں، جہاں بجلی اور گیس کمیاب ہے، جہاں مہنگائی اولمپک کے اُس کھلاڑی کی طرح ہے جو ہزار میٹر کی دوڑ جیتنے کے لیے قلانچیں بھر رہا ہو، جہاں بے روزگاروں کی فوجِ ظفر موج میں ہر دن اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہو، جہاں حکمرانوں کی بداعمالیوں نے اسٹاک ایکسچینج کی مانند عوام کی نفسیاتی حد کو عبور کرلیا ہو، مستقبل غیر یقینی ہو مگر سی پیک اور اورنج ٹرین کے منصوبے عوام کی امنگیں ہوں۔ جو قوم تلخ ترین حالات میں بھی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ جینا جانتی ہو، ماہرینِ عمرانیات اسے ’’زندہ قوم‘‘ تصور کرتے ہیں۔ کیونکہ خوش رہنے کی کیفیت اندرونی طمانیت کی غماز ہے۔ ضربِ عضب کی ہزار ضربیں سہی ہوئی قوم بار بار دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور بہت جلد اپنی تاریخ کے اس پُرآشوب دور سے نکلنے والے ہیں۔ ہم معاشی طور پر پسماندہ ضرور ہیں مگر معاشی خوش حالی کسی کی خوشحالی ناپنے کا درست پیمانہ نہیں ہوسکی۔ اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ کے اس سروے میں امریکا پہلے نمبر پر ہوتا۔ مگر امریکا چودھویں اور برطانیہ انیسویں نمبر پر ہے۔ وقت نے ثابت کردیا کہ لوگوں کی خوشی کا تخمینہ اقتصادی خوش حالی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ امریکا کے تھنک ٹینکس کی رپورٹیں اُس کے سماجی بحران کی مختلف عنوانات سے نشاندہی کرتی رہتی ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں ہیں جو امریکا کو طاقتور بنانے کے لیے کمزوروں کو کچلنے سے دریغ نہیں کررہے، جن کے نزدیک ’’سماجی مساوات‘‘ کا کوئی لفظ لغت میں نہیں ہونا چاہیے۔۔۔!!!
پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ نے پچھلے ہفتے یوم پاکستان کے موقع پر ملک بھر میں ایک سروے کا انعقاد کیا کہ سات عشرے گزرنے کے بعد پاکستانی قوم خود کو کہاں کھڑا ہوا پارہی ہے، اس کی کامیابی کیا ہے؟ چند لفظوں میں اس سوال کا جواب دینا تھا کہ حال کے عزائم کی روشنی ہی مستقبل کو تعمیر کرتی ہے۔ اخبار کے پورے ایک صفحے پر درجنوں لوگوں کے جوابات شائع ہوئے، اور سروے کی یہ رپورٹ آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو ایک روشن اور خوش حال پاکستان میں داخل کرتی ہے۔ چند آرا آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں:
* ملک میں جمہوریت کی پاسداری ہے، میڈیا آزاد ہے، قوم کا اجتماعی شعور ترقی کررہا ہے۔
* ہمیں دہشت گردی میں دھکیل دیا ہمارے دشمنوں نے، مگر قوم نے اس دہشت گردی کو اپنے عظیم حوصلوں سے شکست دی۔
* ان ستّر برسوں میں ہم نے جانا کہ دنیا کی طاقتور قوتیں آپ کو جن خارجی اور داخلی چیلنجز میں دھکیل دیتی ہیں ان سے کیسے نکلا جاتا ہے؟
* ان ستّر برسوں میں ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ ہم دنیا کی بہترین فوج رکھتے ہیں۔ ہمارے فوجی جوانوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔
* اس وقت ہماری قوم کرپشن کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم بہت جلد اس نحوست سے آزاد ہوجائیں گے۔
* پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی ریاست ہے۔
* ملک میں ایک جمہوری حکومت عنقریب اپنے پانچ برس مکمل کرلے گی۔
* مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہوا جب پاکستان نے کرکٹ میں 1992ء کا ورلڈ کپ حاصل کیا، اور 2009ء میں انگلینڈ میں T-20 ورلڈ کپ جیتا۔
* کتنے فخر کی بات ہے ایک غریب ملک میں ایدھی کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی رضا کارانہ ایمبولینس سروس ہے۔ عبدالستار ایدھی دنیا میں ہمارا وقار بنے۔
* راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دنیا میں پاکستان کا وقار بلند کیا۔
* ہم نے ستّر سال ایک آزاد پاکستان میں گزارے ہیں۔ ہم آزادی کی قدر جانتے ہیں۔ آزادی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
* ہمارے چال باز دشمن کی موجودگی میں ہمارے محفوظ ترین نیوکلیئر اثاثے ہمارا فخر ہیں۔
* ذاتی طور پر دکھ اٹھانے کے باوجود ہم مل جل کر ایک مستحکم پاکستان کے لیے کام کررہے ہیں۔
* چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور ہماری ایک عظیم پیش رفت ہے جو معاشی انقلاب کا باعث بنے گی۔
* اس وقت پاکستان کے میڈیا کے پاس جو آزادی ہے اُس پر ہم فخر کرسکتے ہیں۔
* عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، جہانگیرخان، جان شیر خان وغیرہ نے کھیلوں کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
* ستّر سال سے اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کیے رکھنا ہماری کامیابی ہے۔
* ان ستّر برسوں میں ایسے کتنے مواقع آئے جنہوں نے ہماری روحوں کو زخمی کردیا، مگر ہم تھکے نہیں بلکہ آگے بڑھتے رہے الحمدللہ۔
* آپریشن ضربِ عضب نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم اپنے دشمنوں پر قابو پانا جانتے ہیں، اور ایک مضبوط پاکستان کے لیے ہمیں کسی بے ساکھی کی ضرورت نہیں۔
* سیاست دان ہمیں تقسیم کرتے رہے اور دہشت گرد ہمیں متحد کرتے رہے۔ اِس وقت ہم دنیا میں دہشت گردی کے خلاف متحد قوم کی حیثیت میں اپنا امیج رکھتے ہیں۔
* ہم تیسری دنیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود اقوام عالم میں مہاجروں کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا ملک کہلائے، جس نے ہمیں دنیا میں باوقار مقام دلا دیا کہ ہم انسانی ہمدردی سے مالامال ایک قوم ہیں، جو دوسروں کو خود پر فوقیت دیتی ہے۔
* اِس سال پاکستان سپرلیگ کا فائنل لاہور میں منعقد کرکے ہم نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم ایک محفوظ ملک ہیں۔ پروپیگنڈہ مشینری کو ہم نے اپنے عزائم سے ناکام کیا۔
* ہم نے دنیا کا سب سے بڑا تربیلا ڈیم بنایا۔
* پاکستان کرکٹ، ہاکی، اسنوکر اور ہاکی میں ورلڈ چیمپئن رہا ہے۔
* ائیر فورس میں ایک پاکستانی خاتون لڑاکا طیارے میں بحیثیت پائلٹ بھرتی ہوئیں۔
* پاکستان نے 2014ء میں فیفا ورلڈ کپ کے لیے 40 ملین فٹ بال بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔
* ہمارا دشمن میلی آنکھ سے دیکھے تو ہم سیسہ پلائی ہوئی قوم بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے دشمن کے خلاف متحد ہیں۔ یہ ہماری اصل طاقت ہے۔
* پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے ٹیسٹ میچ میں 56 گیندوں پر سینچری بناکر دنیا کے عظیم کھلاڑی ویوین رچرڈ کا ریکارڈ برابر کردیا۔
* پاکستان پولٹری کی مصنوعات اور زرعی اشیاء تیار کرنے والا (کوالٹی کے اعتبار سے) دنیا کا ممتاز ملک ہے۔
* پاکستان نے ڈاکومینٹریز کے ذریعے آسکر ایوارڈ حاصل کیے۔
* پاکستان کے ہاکی کے کھلاڑی سہیل عباس نے 268 گول بناکر عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔
* دنیا کی کم عمر ترین ارفع کریم نے سافٹ ویئر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
* پاکستان نے دو نوبیل انعام حاصل کیے۔ ملالہ یوسف زئی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے قوم کی شناخت بنی۔
* نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی خان، امجد صابری، عابدہ پروین، نورجہاں وغیرہ کی وجہ سے پاکستان دنیا میں پہچانا گیا۔
* پاکستان خیرات کے ذریعے رفاہی سرگرمیاں انجام دینے والا دنیا کا بڑا ملک قرار پایا۔
* کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بڑے بڑے کتب میلے اور لٹریچر فیسٹولز نے دنیا کو دکھایا کہ ہم ایک پڑھی لکھی قوم ہیں۔
* قائداعظم نے فرمایا تھا: دنیا کی کوئی طاقت پاکستان بننے سے روک نہیں سکتی، 1965ء کی جنگ نے ثابت کیا کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔
* علی معین نوازش نے تعلیمی میدان میں بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
* بے نظیر بھٹو مسلم دنیا میں پہلی پاکستانی خاتون تھیں جو وزیراعظم کے منصب تک پہنچیں۔
* IT کے میدان میں پاکستان نے عالمی ریکارڈ قائم کیے۔
* پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا کی پانچویں بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار پائی۔
یہ ستّر برس کی کامیابیوں کی ہلکی سی جھلک ہے جو اخبار کے ایک صفحے کے تنگنائے میں سما سکی۔ سب سے دلچسپ رائے یہ تھی کہ ہماری مشکلات ہمارے حوصلوں کو دیکھ کر راستے چھوڑتی رہیں۔ اقوام متحدہ کا خوش باشی کا سروے اگر اس حقیقت کی روشنی میں کیا جاتا کہ کس قوم نے مشکلات کا مقابلہ کتنی پامردی سے کیا اور مایوس ہوکر تھک نہیں گئی بلکہ اس کی مشکلات اس کو حوصلوں کی چٹان بنانے کا سبب ثابت ہوئیں تو یقیناًناروے کی جگہ ہمارا نام سرفہرست ہوتا، کہ ہم ایک زندہ اور پائندہ قوم ہیں، اس لیے کہ ہماری پہچان ’’پاکستان‘‘ ہے۔