14اگست 1947ء کو آزادی اور تقسیم کا عمل ساتھ ساتھ رونما ہوا۔ یہ تقسیم ہرچند کہ ایک مشکل ترین کام تھا۔ دنیا میں پہلے کبھی اس طرح کی تقسیم اتنے بڑے علاقے میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی۔ تقسیم یا بٹوارے کی اس تمام تر کارروائی میں چند اہم ترین نکات سامنے آئے جن پر برصغیر پاک و ہند سمیت مغربی دنیا میں بھی سوالات اٹھائے گئے۔ خود بانئ پاکستان اور قائدینِ پاکستان بٹوارے کے اس غیر منصفانہ عمل پر مطمئن نہیں تھے۔
اس تقسیم کے حوالے سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کی تاریخ جون 1947ء (جو بہت پہلے سے دی جا چکی تھی)، کس کے ایماء پر راتوں رات آگے بڑھائی؟ اور نئی تاریخ 14 اگست 1947ء کس حکمت کے نتیجے میں دی گئی؟
دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن صاحب جو فروری1947ء میں ہندوستان پہنچے تھے، سرکار برطانیہ نے انہیں پابند کیا کہ وہ جلد از جلد یہاں کے معاملات لپیٹ کر جتنی جلد ممکن ہو برطانیہ واپس آجائیں۔ اس اہم کام کو نمٹانے کے لیے اتنا کم وقت کیوں دیا گیا؟
یہی نہیں، بلکہ انتہائی عجلت میں دونوں ملکوں کا حتمی تعین کرنے کے لیے انگریز سرکار نے جس فرد کا انتخاب کیا وہ پیشے کے ا عتبار سے وکیل تھا جس کا سوشیالوجی اور ارضیات کے علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
سر سرل ریڈکلف(Sir Cyril Radcliffe) نامی وکیل جو لندن میں پریکٹس کرتا تھا اور مزے کی بات یہ کہ اُس سمیت اُس کے خاندان کے کسی بھی فرد نے کبھی ہندوستان کا دورہ تک نہیں کیا تھا، کو اس اہم ترین کام کے لیے کیوں چنا گیا؟
سر ریڈ کلف تنہا وسیع و عریض برصغیر کے بٹوارے کے لیے صرف سات ہفتے کی مہلت لایا تھا، جس میں سے دو ہفتے ہندوستان کی شدید گرمی میں پیچش کی بیماری میں مبتلا رہا۔ (یہاں تک کہ اس کو ہندوستان سے واپس بھیجے جانے کے مشورے دیے جانے لگے)
ریڈ کلف کو سرکارِ برطانیہ نے پابند کیا تھا کہ وہ کسی بھی فرد سے رابطہ نہ رکھے۔ کام میں معاونت کے لیے اسے ایک ہندوستانی ہندو سیکریٹری دے دیا گیا۔ اس ہندو سیکریٹری کی اپنی سیاسی و مذہبی وابستگی اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔
ریڈکلف نے برطانیہ واپس جاتے ہی اپنے سارے کاغذات جلا کر ضائع کردئیے۔ مگر یہ غیر قانونی کام کس کے کہنے پر ہوا؟ یہ معلوم نہیں ہوسکا؟ سرکارِ برطانیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کا ایک ریکارڈ رکھتی، کیونکہ یہ دستاویزات دونوں نئی حکومتوں کی مشترکہ ملکیت بننی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریڈکلف کے برطانیہ واپس آتے ہی ان دستاویزات کو اُن سے واپس لے کر قومی تحویل میں رکھ لیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔
حکومت کو تقسیم کے وقت فسادات کا بہت پہلے سے ادراک تھا، مگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس سے نمٹنے کی کوئی مؤثر اور شعوری کوشش کی ہی نہیں گئی، جس کا نتیجہ ہزاروں افراد کی اموات اور ہزاروں ماؤں، بیٹیوں کی بے حرمتی پر منتج ہوا۔
یہ تو بٹوارے کی اس کہانی کا صرف ایک پہلو ہے۔ آئیے اس کے دوسرے پہلو کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ تاریخ جو خاموشی کے ساتھ اپنے آپ کو مرتب کررہی تھی، اس میں جابہ جا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی اور جواہر لعل نہرو کے درمیان عشق کی کہی ان کہی کہانیاں قرطاس پر لکھی جارہی تھیں۔
تقسیم کے بعد جواہر لعل نہرو بھارت کا وزیراعظم بنا، اُس کے پرائیویٹ سیکریٹری ایم او متھائی نے نہرو کے ساتھ گزارے گئے ایام پر”Reminiscences of the Nehru Age” کے نام سے یادداشتیں لکھیں۔ اس میں متھائی نے انکشاف کیا ہے کہ نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا ماؤنٹ بیٹن کے درمیان پاگل پن کی حد تک معاشقہ تھا۔
وہ لکھتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی پریشانی سے واقف تھے اور نہرو کو اپنی دوستی اور خاندانی تعلقات کی بناء پر سمجھاتے رہتے تھے کہ تعلقات میں اعتدال رکھو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ مگر نہرو عشق میں بہت آگے نکل چکا تھا۔
قریبی لوگ اس معاشقے کے بارے میں جانتے تھے، یہاں تک کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی ان معاملات سے آگاہ تھا۔ ایڈوینا آزادی کے بعد بھی اکثر ہندوستان آتی اور وزیراعظم کی ذاتی مہمان کے طور پر وزیراعظم گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرتی۔ سرکاری اور نجی تقریبات میں دونوں ایک ہی صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھتے اور اس انداز میں ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے کہ بوس و کنار کا شک گزرتا۔ نہرو بھی اکثر نجی دوروں پر انگلینڈ جاتا تو ایڈوینا ائیرپورٹ پر اس کا انتظار کرتی۔ جونہی نہرو جہاز سے اترتا وہ اسے ذاتی گاڑی میں لے کر فرانس چلی جاتی، وہاں وہ اپنی خاندانی رہائش گاہ میں ٹھیرتے، اور یہ سارا عرصہ دونوں باہر کہیں گھومنے پھرنے نہ جاتے۔ دونوں کی وفات کے بعد دونوں کے عشقیہ خطوط سیکس اسکینڈل کی شکل میں سامنے آئے، لیکن پیشتر اس کے کہ یہ اسکینڈل بہت زیادہ رنگ پکڑتا، دونوں طرف سے وضاحتی بیانات کے ساتھ معاملہ دبا دیا گیا۔
ان سچی حقیقی کہانیوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے سے چند ماہ پہلے جواہر لعل نہرو کسی ’’خاص‘‘ مشن پر شیخ عبداللہ سے ملنے کے لیے کشمیر جانا چاہتا تھا۔ شیخ عبداللہ اُس وقت مہاراجا ہری سنگھ کی قید میں تھے۔ اس موقع پر ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لعل کو وہاں جانے سے منع کیا اور کہا ’’وہ علاقہ تو بہرحال پاکستان ہی میں شامل ہوگا۔ وہاں کا خیال چھوڑو‘‘۔ سر ریڈ کلف کی دستاویزات میں گورداسپور پاکستان کا حصہ تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں51 فیصد مسلمان تھے۔ لیکن اچانک فیصلہ تبدیل کردیا گیا اور گورداسپور بھارت کو مل گیا۔ یہی معاملہ اور بے انصافی فیروزپور کے ساتھ ہوئی، حالانکہ بٹوارے کی لکیر کھینچنے سے پہلے جب پاک بھارت کے دو ممالک میں تقسیم کردیے جانے کا ایک اصول طے کردیا گیا تھا تو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی و جواہر لعل نہرو کو اعتماد میں لے کر ایک ’’نیشنل باؤنڈری کمیشن‘‘ کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد دونوں ملکوں کی سرحدوں کی ٹھیک ٹھیک اور درست حد بندی کرنا تھا۔ اگر اسی طرح تقسیم کا یہ عمل ہوجاتا تو ہمیشہ کے لیے سرحدی کشیدگی اور مار دھاڑ سے جان چھوٹ جاتی۔ اس کے برعکس صورت حال یہ بنی کہ طے شدہ فارمولے کے برخلاف بٹوارے کی خونیں لکیر کھینچ دی گئی تھی۔
ماؤنٹ بیٹن اپنے ’’نیشنل باؤنڈری کمیشن‘‘ کے اعلان میں سنجیدہ نہیں تھا۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتا تو اس کمیشن کا قیام شروع میں ہی ہوجاتا۔ لیکن جون 1947ء کے آخر تک بھی اس کا قیام عمل میں نہیں آسکا تھا۔ ریڈ کلف 8 جولائی 1947ء کو ہندوستان پہنچا، کمرے میں بند ہوکر اس نے ناواقفیت اور سماجی اقدار کو جانے بنا جس عجلت میں اپنا ایوارڈ اس وقت سنایا، اس وقت تک آزادی کا اعلان کیا جا چکا تھا۔
ہندوستان کی تقسیم عملی طور پر14 اگست 1947ء کو عمل میں آچکی تھی جبکہ ریڈ کلف فیصلہ اس سے دو دن بعد 16 اگست 1947ء کو سامنے آیا تھا۔
ریڈ کلف ایوارڈ کے سلسلے میں معروف دانش ور، محقق، مؤرخ، اور سابق وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی مرحوم اپنی کتاب ’’جدوجہدِ پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ایسا کوئی ایک علاقہ بھی، جس پر ہندو اپنا کوئی جھوٹ موٹ کا حق جتا سکتے تھے، مسلمانوں کے حصے (نہیں آنے دیاگیا)۔ ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ہندوؤں کے پاس چلے گئے۔ جو نہریں پاکستان کو سیراب کرتی تھیں، ان کی سرابہ گاہیں (سرچشمے) ہندوؤں کو مل گئیں۔۔۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ مسلم اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندوؤں کے پاس چلاگیا تاکہ انھیں ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوجانے کا راستہ مل جائے۔‘‘
اس متنازع معاملے کی مزید وضاحت تحریکِ پاکستان کے ایک کارکن اور ایوارڈ یافتہ مصنف قاضی عبدالحنان مرحوم کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’جوناگڑھ کی ریاست کو، جس نے پاکستان سے الحاق کیا تھا، بزورِ شمشیر ہندوستان میں ضم کرلیا گیا۔ اس کے برخلاف ریاستِ کشمیر جہاں 85 فیصد اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اسے سیاسی، جغرافیائی، معاشی اورقدرتی لحاظ سے پاکستان میں ہونا تھا، نہرو، گاندھی اور ماؤنٹ بیٹن کی ’’تگِڈم‘‘کے نتیجے میں فوج کشی کے ذریعے ہندوستان میں شامل کرلی گئی۔ یہ سب چالیں اسی لیے چلی گئیں کہ پاکستان کی بقا ناممکن ہوجائے۔‘‘ (حوالہ ’’میرِکارواں محمد علی جناح‘‘۔ قاضی عبدالحنان)
(جاری ہے)