قل سیروفی الارض (ارم شہزادی جامعات المحصنات جھنگ)

320

 امتحان کی تیاری ایک تھکا دینے والا عمل ہے، اور امتحان کی جان توڑ تیاری کے بعد کچھ دیر کا آرام اور تفریح طلبہ کا حق ہے۔ اسی لیے ہمارے میٹرک کے امتحان سے کچھ دن قبل جامعہ کی انتظامیہ نے خوش خبری سنائی کہ ہمیں کھیوڑہ مائنز کی سیر کے لیے لے جایا جائے گا۔ ہمیں گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے، اس لیے ہم فوراً راضی ہوگئے۔ مگر اب مسئلہ گھر والوں سے اجازت کا تھا۔ کئی دن صرف یہ سوچتی رہی کہ گھر والوں کو کیسے مناؤں! مگر جب ٹیچر نے کہا کہ کل پیسے جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے تو میں نے کمر باندھ لی کہ بس اب تو جانا ہی جانا ہے۔ گھر والوں سے اجازت طلب کی تو انکار ہوگیا۔ لیکن پھر بے شمار قیمتی آنسو بہائے تو گھر والوں کو ترس آیا اور ہمیں جانے کی اجازت مل گئی۔ جانے سے ایک دن قبل ساری تیاری مکمل کرلی اور کھانے پینے کا سامان مجھے اباجان نے لاکر دے دیا۔
تقریباً چھ بجے صبح ہم اسکول میں تھے، مگر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اسکول میں سوائے صفائی کرنے والی ماسی کے کوئی نہ تھا۔ معلوم ہوا کہ خوشی کی انتہا میں ہم سب سے پہلے پہنچ گئے ہیں۔ آہستہ آہستہ سب لڑکیاں آنا شروع ہوئیں اور پھر ہم کھیوڑہ مائنز کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ تمام راستے حسین منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب کھیوڑہ مائنز پہنچے تو شدید بھوک لگی ہوئی تھی اور پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ تھوڑا سا کچھ کھا پی کر ہم آگے روانہ ہوئے۔ وہاں باہر کی جانب اسٹال اور جھولے موجود تھے۔ ہم نے جھولا جھولنے اور خریداری کا کام واپسی کے لیے اٹھا رکھا اور کھیوڑہ مائنز کے اندر داخل ہوگئے۔ اندر داخل ہوتے ہی حیرت اور خوشی سے ہماری چیخیں نکل گئیں۔ وہاں نمک سے بنی ہوئی ڈسپنسری، مینارِ پاکستان، نمک سے بنی ہوئی مسجد، قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر اور بہت سی چیزیں موجود تھیں جنہیں دیکھ کر وہاں کام کرنے والوں کی ہنر مندی کا اندازہ ہوا۔ اندر بھی بہت سی چیزوں کے اسٹال موجود تھے جہاں سے سب نے خریداری کی، مگر ہم نے تصاویر کے ذریعے ان خوبصورت مناظر کو محفوظ کرنے کو ترجیح دی۔ یہاں تمام چیزیں بہت اچھی تھیں مگر جو چیز مجھے بہت زیادہ بری محسوس ہوئی وہ یہ کہ وہاں سیر و تفریح کے لیے آنے والے لوگ جو کچھ بھی کھا رہے تھے وہ پانی میں پھینک دیتے تھے۔ جب ہم گھوم پھر کر تھک گئے تو باہر نکل آ ئے جہاں جھولے لگے ہوئے تھے۔ ہم جھولوں سے لطف اندوز ہوئے، اسٹال سے سجاوٹ کی اشیاء اور گھر والوں کے لیے تحائف خریدے۔ ان چیزوں میں مجھے ایک لیمپ بہت پسند آیا جس میں مختلف اقسام کی لائٹیں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد ہم لوگ وہاں سے روانہ ہوئے۔ واپسی پر ہم بہت تھک چکے تھے لیکن اساتذہ سے پھر بھی بضد تھے کہ ہمیں اور بھی گھومنا ہے۔ چنانچہ یہاں سے ہم فیصل آباد ’’سندھ باد‘‘ پارک میں گئے جو کہ بہت خوبصورت بنا ہوا ہے۔ یہاں جھولے اور مختلف کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹال تھے۔ یہاں خوب گھومے پھرے اور جھولوں کے مزے لیے۔ میں ڈریگن جھولے پر بیٹھی جس پر ڈر تو بہت لگا لیکن مزا بھی بہت آیا۔گھومنے پھرنے کے بعد ایک بار پھر سب کو بھوک لگ چکی تھی اور سب نے کھانے کے اسٹالز کا رخ کیا اورمختلف اشیاء مثلًا قلفیاں، برگر، رول وغیرہ خریدے۔ واپسی پر ہم بہت تھک چکی تھے۔ جب ہم اسکول پہنچے تو بھائی اور امی جان مجھے لینے آچکے تھے۔ پھر ان کے ساتھ میں واپس آگئی۔ انھیں اپنے سفر کے بارے میں بتایا، ان کو تحائف دکھائے، جنھیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ بس پھر ایسا سوئی کہ کچھ خبر نہ تھی۔ اور اس طرح یہ خوش گوار سفر ہماری یادوں کا ایک حسین سرمایہ بن کر رخصت ہوا۔
nn

حصہ