تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی
گامو ایک بدنام زمانہ ڈاکو تھا۔ ماں باپ نے اس کا نام تو غلام علی رکھا تھا مگر اب یہ بگڑ کر گامو بن چکا تھا اور سب لوگ اب اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔ گامو کے جرائم کی فہرست بہت طویل تھی۔ یہ سب جرائم وہ اپنے باس کے حکم سے کرتا تھا، جو ایک غیر ملکی تھا۔
گامو کو جرم کی دنیا میں داخل ہوئے پورے سات سال بیت چکے تھے، سات سال پہلے جب اس نے بی اے کیا تھا تو وہ اپنے والدین کی امیدوں کا واحد مرکز تھا۔ اس کے والدین بہت غریب تھے اور انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کو پڑھایا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر ان کا سہارا بن سکے اور بڑا افسر بنے۔ لیکن وہ افسر تو کیا بنتا، ایک کلرک بھی نہ بن سکا، کیونکہ وہ جہاں بھی جاتا، وہاں رشوت اور سفارش کا زور ہوتا، اور اس کے پاس یہ دونوں چیزیں ہی نہیں تھیں۔ بالآخر وہ مایوس ہوگیا تو ایک دن اسے باس کے بندے جیرا اور راجو مل گئے، ان کا کام ہی اس جیسے ضرورت مندوں کو پھنسانا تھا۔ انہوں نے اس کو سبز باغ دکھائے تو وہ دولت کی چکاچوند سے متاثر ہوگیا اور ان کے گروہ میں شامل ہوگیا۔ اور اب وہ ایک ایسے جال میں پھنس گیا تھا جس سے نکلنا انتہائی مشکل تھا۔
چند روز پہلے باس نے اسے ایک اہم کام سونپا تھا اور وہ یہ تھا کہ سیٹھ حمید کی تجوری سے ہیروں کا ہار چرانا تھا۔ سیٹھ حمید کا شمار شہر کے چند امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا اور ہیروں کا یہ ہار بہت قیمتی تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے خوبصورت ترین ہیرے منگوا کر اس میں لگوائے گئے تھے۔ اس ہار کی قیمت کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ باس کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے یہ معلوم ہوا تھا کہ بیگم حمید نے اپنی بھانجی کی شادی میں پہننے کے لیے بینک کے لاکر سے یہ ہار دو روز کے لیے نکلوایا ہے۔ چنانچہ اس نے گامو کو یہ کام ان دو روز میں کرنے کا حکم دیا۔ گامو اب ان کاموں میں ماہر ہوچکا تھا اور باس اس پر بہت اعتماد کرتا تھا۔
دس جون کی رات وہ گھر سے روانہ ہوا اور رکشے میں بیٹھ کر گلبرگ پہنچا۔ رکشہ اس نے سیٹھ حمید کے گھر سے خاصی دور رکوایا۔ رکشے سے اتر کر وہ سیٹھ حمید کے بنگلے کی جانب چل دیا اور دیوار پھاند کر اندر داخل ہوگیا۔ چوکیدار اونگھ رہا تھا۔ وہ بنگلے کی اندرونی جانب چل دیا۔ تمام گھر والے اپنے اپنے کمروں میں سورہے تھے۔ وہ اسٹور تلاش کرنے لگا کیونکہ اسے جاسوس کے ذریعے معلوم ہوگیا تھا کہ تجوری اسٹور میں ہے۔ جلد ہی اسٹور اسے مل گیا۔
وہاں جاکر تھوڑا سا تلاش کرنے کے بعد اس نے ایک پینٹنگ کے پیچھے تجوری پالی اور پھر اپنے آلات کی مدد سے اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ آخرکار چند منٹ کی کوشش کے بعد تجوری کھل گی۔ اس میں نوٹوں کے انبار پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف ایک ڈبے میں ہار بھی موجود تھا۔ اس نے جلدی سے ہار اٹھا کر کوٹ کی جیب میں ڈالا اور اسی طرح واپس آگیا جیسے یہاں آیا تھا۔ وہ اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھا کیونکہ یہ کام کسی رکاوٹ کے بغیر بڑی آسانی سے ہوگیا تھا۔ اب اسے باس سے کسی بڑے انعام کی امید تھی۔
صبح وہ سوکر اٹھا اور خوشی خوشی گنگناتے ہوئے تیار ہونے لگا۔ گیارہ بجے وہ باس کے پاس چلا گیا۔ وہاں جاکر اس نے باس کو اپنی کامیابی کی خوش خبری سنائی۔ حسبِ توقع باس نے خوش ہوکر اس کو بہت شاباش دی اور ہار مانگا۔ جب گامو نے ہار باس کے حوالے کرنے کے لیے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ کوٹ کی جیب ایک طرف سے پھٹی ہوئی تھی اور ہار غائب تھا۔ اسے یاد آیا کہ یہ تو کئی دن سے پھٹی ہوئی تھی اور اسے بیوی سے سلوانا یاد نہیں رہا تھا۔ باس نے اُس کی اس بات کا یقین نہ کیا اور اسے بہت برا بھلا کہا۔ اس کا خیال تھا کہ گامو نے لالچ میں آکر ہار خود رکھ لیا ہے۔ اس نے بہت صفائیاں دیں لیکن باس نے اس کی ایک نہ سنی اور اس کو دھمکیاں دیتے ہوئے وہاں سے نکال دیا کہ اگر کل شام تک ہار نہ ملا تو نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔
گھر آکر اس نے پورے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا اور گھر سے لے کر سیٹھ کے بنگلے تک تمام راستوں کا جائزہ لیا، لیکن ہار کو نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ اب وہ تھک ہار کے گھر آچکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ اس کے جرائم کی سزا ہے۔ ساری رات اسے نیند نہ آئی اور وہ یہ سوچتا رہا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔
اگلے دن صبح اس کی بیوی نے روتے ہوئے اسے جگایا اور بتایا کہ ان کے اکلوتے بیٹے آصف کو اسکول جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد باس کا فون بھی آگیا کہ اس کا بیٹا ان لوگوں کے قبضے میں ہے، اگر وہ اس کی خیریت چاہتا ہے تو ہار واپس کردے۔ وہ سخت پریشان ہوا۔ اس کی بیوی اسے برا بھلا کہہ رہی تھی کہ اس کے غلط کاموں کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا۔ اب اسے خدا یاد آیا جسے بہت عرصے سے وہ بھولا ہوا تھا۔ اس نے تو طویل عرصے سے نماز بھی نہ پڑھی تھی۔ اب وہ اٹھا اور وضو کرکے جائے نماز پر بیٹھ گیا۔ اس نے روتے روتے نوافل ادا کیے اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔
ابھی وہ دعا مانگ ہی رہا تھاکہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو باہر رکشہ ڈرائیور کھڑا تھا جس کے رکشے پر وہ رات کو گھر واپس آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا۔ اس نے گامو کو بتایا کہ رات کو وہ اس کو چھوڑنے کے بعد گھر گیا تو پچھلی سیٹ پر یہ ہار اسے پڑا ملا، اس لیے وہ اسے واپس کرنے آگیا۔
اس نے لفافہ اس کو دے دیا۔ گامو کا خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس نے اس نیک آدمی کا بہت شکریہ ادا کیا اور لفافہ لے کر اندر آگیا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ جس باس کی وہ اتنا عرصہ تابعداری کرتا رہا، اُس نے اس کی بات پر یقین کرنا تو درکنار اس کا بیٹا بھی اغوا کرلیا، اور جس خدا کو وہ اتنے عرصے سے بھلائے بیٹھا تھا اس نے ایک ہی بار پکارنے پر اس کی سن لی۔ اس نے اسی وقت اپنے گناہوں سے توبہ کرلی اور صاف ستھری زندگی گزارنے کا عہد کرلیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ خاکی لفافہ لے کر باہر جارہا تھا، مگر اب وہ ایک فیصلہ کرچکا تھا، اس کا رخ باس کے اڈے کے بجائے تھانے کی جانب تھا۔
nn