(حکمرانوں کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ظلم میں ان کی مدد کرنے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں(پروفیسر عبدالحمید ڈار

587

انسانی معاشرہ میں ریاست ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے احکامات کو نافذ کرنیکے لیے قوت اور طاقت بھی رکھتا ہے۔ ریاست کام مقصدِ وجود لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا اور ان کی فلاح و بہبود اور بھلائی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس کا دائرہ کار انسانی زندگی کے ہر شعبے، انفرادی و اجتماعی پر محیط ہے۔ اس کے فرائض کثیر اور ہمہ جہتی ہیں۔ اگر ریاست یا حکومتکا انتظام وانصرام اہل اور دیانت دار افراد کے ہاتھ میں ہو گا تو معاشرہ میں انصاف کابول بالا ہو گا اور لوگوں کی زندگیاں آسودہ اور امن و سکون کی راحتوں سے معمور ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر ریاست و حکومت کے اختیارات نااہل، بددیانت اور خائن لوگوں کے پاس ہوں گے تو ہر طرف ظلم و استبداد کا دور دورہ ہو گا۔ لوگ اپنے حقوق سے محروم دکھ اور اذیت کی زندگی کے گرداب میں گھرجائیں گے اور معاشرہ سے سکھ چین عنقا ہو جائے گا۔ ایسی ریاست اور حکومت بھی جلد اضمحلال کا شکارہو کر فضائے عدم میں تحلیل ہو جائے گی۔
جس طرح کسی ناکاری اور غلیظ چیز پر مکھیاں آگرتی ہیں اسی طرح عقل و شعور سے عاری حکمرانوں کے گرد مفاد پرست، چاپلوس جی حضوریوں کا ٹولہ جمع ہوجاتا ہے جو ان بے دانش اور نااہل حکمرانوں کو خوشامد کے شیشے میں اتارکرکاروبار حکومت اور عوام الناس کی اصلاح احوال کے کاموں سے بے خبر کر دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنی چرب لسانی سے ہر وقت حکمرانوں کے گرد مدح و توصیف کے جال بننے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ ان حکمرانوں کے ہرجھوٹ کو سچ اور ان کے ظلم کو عوام کی بھلائی کا امرت رس ثابت کرنے کے لیے اپنی طلاقت لسانی سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ان کے دن کھیل تماشوں میں اور راتیں عیش و نشاط کی محفلیں سجانے میں گزر جاتی ہیں۔ یہ چاپلوس خوشامدی ان نادان حکمرانوں کو عوام کے مسائل کے بارے میں ہر وقت سب اچھا ہے کی پینک (افیون کا نشہ) میں بدمست رکھتے ہیں اور جب کبھی عوامی دکھ کا ریلا ان کے ایوانوں کے درودیوار تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت نااہل اور غافل حکمران ان بے بس دکھی انسانوں پر ظلم کا کوڑا برسا دیتے ہیں۔ اس عمل بد میں یہ خوشامدی چاپلوس اپنے جمے ہوئے مفادات کی خاطر ان ظالم حکمرانوں کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔ پھر عامۃ الناس کے لیے جیل، جلا وطنی اور پھانسی کی ٹکٹیاں لگ جاتی ہیں۔ یہی وہ ظالم و جابر گروہ ہے جس کے بارے میں زیر نظر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وعید سنائی گئی ہے کہ انہیں روز محشر کی جھلسا دینے والی گرمی میں جب کہ ہر زبان، عطش عطش (پیاس پیاس) پکار رہی ہو گی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر پر آنے اور پانی کا گھونٹ پینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے برعکس جو خوش نصیب دنیا میں ان احمقوں کی مجلسوں سے دور رہے، ان کے جھوٹ کو سچ کہنے اور ان کے ظلم و استبداد میں انکے معاون و مددگار بننے سے مجتنب رہے۔ بلکہ ان جاہل حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہو کر کلمۂ حق بیان کر کے افضل الجہاد کا فریضہ انجام دینے کا شرف حاصل کیا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی۔ ابی داؤد، ابن ماجہ۔ احمد و نسائی)
وہ خوش و خرم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض پر پہنچیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر سے ایسے شاد کام ہوں گے کہ پھر دخول جنت تک انہیں پیاس محسوس نہ ہو گی۔ اول الذکر ظالموں کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں جب کہ موخر الذکر لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اور قربت کی سعادت سے مشرف ہوں گے اوریہی وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی رضا کا پروانہ لے کر جنت کی نعمتوں اور راحتوں سے فیض یاب ہوں گے۔ (اللہ کرے ہمارا شمار انہیں میں ہو۔ آمین) ایک روایت میں ہے کہ جو شخص جس قدر بادشاہ (حکمران) کے قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے اسی قدر دور ہو جاتا ہے۔ (مشکوۃ۔ باب، حکومت کا بیان، بحوالہ ابوداؤد)

حصہ