پاکستانی ڈرامے اور سماجی و ذہنی تشکیل

500

جناب شاہنواز فاروقی کے مضمون کے بعد سے میڈیا کے موضوع پر فرائیڈے اسپیشل میں جاری اس سلسلے کے دوران گزشتہ دنوں مجھے واٹس ایپ پر ایلک پیغام موصول ہوا۔ پیغام کے اندر چند حالیہ نشر شدہ پاکستانی ڈراموں کے اندر پائے گئے مواد کا گہرائی میں تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ تجزیہ اسلامی تعلیمات اور اصطلاحات کی من مانی تشریح کو ان ڈراموں کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کرانے کی کوشش کو بے نقاب کرنے پر مبنی تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف نجی چینل اس دوڑ میں شامل ہوں، بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیسے کے حصول کی دوڑ میں قومی چینل بھی اسی رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔
Middle-East Journal of Scientific Research 22 (9): 1390-1395, 2014 میں محترمہ انجم ضیاء (لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، شعبہ ابلاغ عامہ) کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’نوجوانوں پر پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں کے اثرات‘‘ کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں پی ٹی وی بھی منفی اثرات اور ایک اجنبی کلچر کو کاشت کررہا ہے اور ایک حد تک نوجوانوں میں بے چینی اور اضطراب کو بھی جنم دے رہا ہے۔ ڈراموں کی بات اس لیے کی جارہی ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق ڈراموں کی نہایت جذباتی وابستگی ہوجاتی ہے اپنے ناظرین کے ساتھ، اس لیے وہ من پسند کاشت کاری کے لیے نہایت کارآمد تصور کیے جاتے ہیں۔ ماہر ابلاغیات مک کوئیل کی ایک تحقیق کے مطابق ’’میڈیا کی اصل قوت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’رائے اور عقیدے کے معاملات میں قائل کرنے کی کوشش، رویوں کو متاثر کرکے راغب کرنے اور قانونی جواز مہیا کرنے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔‘‘
ابلاغیات کے ماہر جی گربنر نے 1976ء میں تفصیلی انداز سے ’’کاشت کا نظریہ‘‘ پیش کیا، جسے Cultivation Theory کہتے ہیں۔ بحوالہ Journal of Communication, 29(10), 177-196.)۔ گربنر کا پیش کردہ نظریہ کہتا ہے کہ ٹیلی ویژن آج کے معاشرے میں داستان گوئی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ ٹیلی ویژن کہانی پیش کرنے کا ایک مرکزی نظام ہے جس میں ڈراموں، اشتہارات، خبروں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے ہر گھر میں اسی نظام کو بچپن سے کاشت کیا جارہا ہوتا ہے جس کے اثرات سماجی حقیقتوں کے روپ میں انسانی اذہان میں کاشت ہوجاتے ہیں اور آپ کے ذہن میں وہ بات، منظر، فعل عملی طور پر منتقل ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک بات کی مختلف انداز سے بار بار تکرار کے ذریعے ذہن سازی کردی جاتی ہے۔
اس نظریے کے مطابق ہمارے ڈراموں کے ذریعے یہ کام مختلف چینل ایک ہی ایجنڈے پر انجام دے رہے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر اسلامی تعلیمات اور اصطلاحات کی غلط اور گمراہ کن تشریح کی جاری ہے۔ اس کی مثال کے لیے چند ڈراموں کے ’’مکالمے‘‘ دیکھیے:
’’امی تو عدت میں ہیں، ابو عدت کیوں نہیں کررہے؟‘‘ چھے سالہ بلال اپنی دادی سے پوچھ رہا تھا۔ ’’امی! ایک بات تو بتائیں، آپی تو ہادی بھائی سے دوبارہ شادی کے لیے حلالہ کررہی ہیں تو ہادی بھائی آپی سے شادی کے لیے حلالہ کیوں نہیں کررہے؟‘‘ بارہ سالہ بچہ اپنی ماں سے سوال کررہا تھا۔ آپ نے یہ سوالات سنے۔ جی ہاں جناب، یہ سوالات ہمارے ہی بچوں کے منہ سے کہلوائے جارہے ہیں۔ پہلا مکالمہ ARY کے ڈرامے ’’نعمت‘‘ سے لیا گیا ہے اور دوسرا ’ہم‘ ٹی وی کے ڈرامے’’ذرا یاد کر‘‘ سے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ احکامات حرفِ آخر ہیں، ان کے خلاف تاویلات کا سہارا لینا یا ان پر سوالات اٹھانا ہمیں نافرمانی اور گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
1۔ ’ہم‘ چینل کے ڈرامے ’’پاکیزہ‘‘ میں طلاق کے بعد بیٹی کی پرورش کا بہانہ بناکر طلاق کو چھپا لیا جاتا ہے اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جاتی ہے جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔
لڑکی (بیٹی) کی مظلومیت کا سہارا لے کر یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیٹی کی شادی و مستقبل پر طلاق کے غلط اثرات نہ پڑیں، اس لیے طلاق ہونے کے بعد بھی ساتھ رہا جاسکتا ہے۔
2۔ A PLUS کے ڈرامے ’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہوجاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتویٰ ٰلے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے، جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔
3۔ ARY کے ڈرامے ’’انابیہ‘‘ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہوجاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کردیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کو تیار ہوجاتی ہے۔
4۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’ذرا یاد کر‘‘ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کررہی ہے تاکہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کرسکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کرکے حلالہ کرنا شرعاً ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہوجائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے، مگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایسا نہیں ہوسکتا۔
5۔ ’جیو‘ کے ڈرامے ’’جورو کے غلام‘‘ میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کرسکے۔
6۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’من مائل‘‘ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر اُن کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔
7۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’تمھارے سوا‘‘ میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلواکر خود نکاح کرلیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے درخواست دے دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔
آج ہمارے ٹی وی چینلز پر قابض مختلف سیکولر، آزاد خیال اور لبرل افراد انٹرٹینمنٹ کے نام پر ڈراموں و دیگر پروگرامات کے ذریعے ایسے احکامات پر سوالات اٹھا رہے ہیں جو معاشرے اور خاندان کی اساس ہیں اور جن کے لیے قرآن وحدیث میں واضح احکامات دے دیے گئے ہیں۔ مگر چینلز پرآج کل ایسے رائٹرز ڈرامے لکھ رہے ہیں جن کو قرآن وحدیث اور فقہ کا کوئی علم ہے نہ معاشرتی روایات کا احساس۔ نامکمل معلومات کے سہارے ان موضوعات پر ڈرامائی تشکیل کرلی جاتی ہے۔ ڈراموں کا جائزہ لینے سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ علم اور آزادئ اظہار کے نام پر ایک پوری تھیم کو میڈیا کے ذریعے عوام تک منتقل کیا جارہا ہے، اور ہدف بنا کر واضح احکامات والے شرعی معاملات پر ایسے سوالات اٹھاکر تنقید کی جارہی ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
میڈیا ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک عالمی کلچر ٹیلی وژن کی بدولت جنم لے رہا ہے۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی تعلیمات ہیں، مسلمانوں کا مضبوط خاندانی نظام ہے۔ ماہرینِ سماجیات اور کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان میں بھی میڈیا کا بڑا عمل دخل ہے۔ مذکورہ بالا ڈراموں کی مثالوں میں بھی آپ نے اس بات کو نوٹ کیا ہوگا، اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بڑی آبادی دیہاتوں، قصبوں میں موجود ہے جہاں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں منظم منصوبے کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، اس طرح کے سوالات اٹھانے اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسے کو متزلزل کرنا ہے۔کیا وزارتِ اطلاعات و نشریات نے فلموں اور ڈراموں کے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق اور کوئی پالیسی تشکیل دی ہے؟ کیا کوئی ایسا بااختیار نگرانی اور منظوری کا ادارہ موجود ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟ کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اس طرح اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کرنے اور نت نئی تاویلات کو پیش کرنے کے خلاف نوٹس لے؟
اس بار بھی ہمارا موضوع ’ہم‘ ٹی وی چینل کا حالیہ دنوں اختتام پذیر ہونے والا ایک اور ڈرامہ ’’ سنگِ مرمر‘‘ ہے۔ اس ڈرامے کے انتخاب کی ایک خاص وجہ اِس کا چھپا ہوا ایک اہم موضوع تھا جو عمومی موضوعات سے ہٹ کر تھا۔ ’ہم‘ ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ ڈرامہ عوام میں خاصا مقبول بھی رہا، سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ اب بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ پروڈکشن مومنہ درید کی ہے اور سیف حسن اس ڈرامے کے ہدایت کار ہیں۔ مصطفی آفریدی کا تحریر کردہ مذکورہ ڈرامہ جس کے پس منظر میں ’’سود کے بداثرات‘‘ کو پشتون کلچر کے ساتھ خاص زاویے میں دکھایا گیا۔ ڈرامہ روایتی ساس بہو کے جھگڑوں سے الگ ایک نئے موضوع پر تھا۔ نعمان اعجاز نے اس ڈرامے میں گلستان خان کا مرکزی کردار ادا کیا ہے جس کا خاندان علاقے کا معزز خاندان ہے اور لوگوں کو سود پر قرضہ دیتا ہے۔ ابتدا ہی سے اُسے ’’سود خور‘‘ کہلوا اور دکھلا کر اس کا منفی تاثر نمایاں کیا گیا۔ لوگوں سے سود کی وصولی کے لیے اُس کے دو بیٹے ہیں، جبکہ تیسرا بیٹا زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اپنے باپ سے الگ مزاج رکھتا ہے۔ اہم بات یہ محسوس ہوئی کہ مصنف نے پختون کلچر کے روایتی مذہبی رجحانات کو اپنے محدود علم کے مطابق پیش کیا۔ محدود ان معنوں میں کہ ڈرامے کے مصنف نے احادیثِ مبارکہ، قرآنی حوالے، نماز، اہل اللہ کے ہاتھ پر بیعت، قسم توڑنے کا کفارہ، وعدے کی اہمیت، عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے متعلق کئی مکالمے اور مناظر شامل کیے تھے، مگر ڈرامے کا اصل رُخ جسے قرآن مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے ’’یمحق اللہ الربا‘‘کہ اللہ تعالیٰ سود کو جڑ سے مٹا دیتا ہے، اس تشریح کو مصنف نے جانے انجانے خفیہ انداز میں پیش کیا۔ بظاہر ڈرامے میں یہی دکھایا گیا کہ سود کی جڑ ہی کاٹ دی گئی پوری نسل کو ختم کرکے۔ ڈرامے میں جہاں ایک جانب نہایت خفیہ اشارہ دیتے ہوئے ’’سودی‘‘کمائی کے مضمرات کا پیغام دیا گیا وہاں ایک بڑا باریک مگر سخت کام جس کا ذکر ہم نے مضمون کے آغاز میں کئی مثالوں سے کیا تھا، وہ بھی یہاں مصنف نے کرڈالا۔ محرم اور نامحرم جیسی بنیادی قرآنی اصطلاحات کو بھی اپنے حساب سے رگید دیا گیا۔ واضح رہے کہ محرم کی مکمل تعریف و وضاحت علماء کرام نے نہیں، بلکہ خود اللہ پاک نے قرآن مجید میں سورۃ النساء میں وضاحت سے تمام رشتہ داروں کے نام لے لے کر کی ہے۔ ڈرامے کی تیرہویں قسط میں ایک منظر میں گلستان خان کے داماد طورے خان کا سامنا اُس کی بہو سے ہوتا ہے اور وہ چہرے کا پردہ کرلیتی ہے۔ اگر لکھاری ڈائیلاگ میں محرم والی بات نکال دیتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ مسئلہ اس وقت آیا جب منظر میں طورے خان گلستان خان کی بہو جو رشتے میں اُس کی بیوی کی نند ہوتی ہے، سے چہرے کا پردہ ہٹانے کو کہتا ہے اور دلیل یہ دیتا ہے کہ وہ اُس کا محرم ہے۔ یہاں آکر رائٹر، ڈائریکٹر نے قرآنی اصطلاح کی اپنے حساب سے تشریح کرواکر فاش غلطی کی ہے اور کاشت کے نظریے کے مطابق اسی پالیسی کو دھکا دیا ہے جس کا ذکر ابتدا میں ہم کرچکے ہیں۔ بات ہورہی تھی سود کے مضمرات پر مبنی انجام کی، تو ڈرامے کے اختتام پر گلستان خان ٹی بی کا مریض ہوکر اپنی نسل، جائداد اور دو بیٹوں اور اکلوتے داماد سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ سود کو جڑ سے ختم کرنے کے ضمن میں مزید یہ بھی دکھایا گیا کہ گلستان خان خود اپنے باپ کو بیماری کی حالت میں اُس کی خواہش پر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ دوسری اہم بات ’’قتل بالرحم‘‘ یعنی رحم کے جذبے کے تحت قتل کرنے کے اہم فقہی مسئلے کو بھی مبہم انداز میں پیش کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کیا گیا ہے۔ رحم کے جذبے کے تحت کسی کو قتل کرنے کے حوالے سے تمام علماء کی متفقہ رائے ہے کہ وہ حرام ہے۔

march-31-salman ali
جناب شاہنواز فاروقی کے مضمون کے بعد سے میڈیا کے موضوع پر فرائیڈے اسپیشل میں جاری اس سلسلے کے دوران گزشتہ دنوں مجھے واٹس ایپ پر ایلک پیغام موصول ہوا۔ پیغام کے اندر چند حالیہ نشر شدہ پاکستانی ڈراموں کے اندر پائے گئے مواد کا گہرائی میں تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ تجزیہ اسلامی تعلیمات اور اصطلاحات کی من مانی تشریح کو ان ڈراموں کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کرانے کی کوشش کو بے نقاب کرنے پر مبنی تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف نجی چینل اس دوڑ میں شامل ہوں، بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیسے کے حصول کی دوڑ میں قومی چینل بھی اسی رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔
Middle-East Journal of Scientific Research 22 (9): 1390-1395, 2014 میں محترمہ انجم ضیاء (لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، شعبہ ابلاغ عامہ) کے تحقیقی مقالے بعنوان ’’نوجوانوں پر پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں کے اثرات‘‘ کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں پی ٹی وی بھی منفی اثرات اور ایک اجنبی کلچر کو کاشت کررہا ہے اور ایک حد تک نوجوانوں میں بے چینی اور اضطراب کو بھی جنم دے رہا ہے۔ ڈراموں کی بات اس لیے کی جارہی ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق ڈراموں کی نہایت جذباتی وابستگی ہوجاتی ہے اپنے ناظرین کے ساتھ، اس لیے وہ من پسند کاشت کاری کے لیے نہایت کارآمد تصور کیے جاتے ہیں۔ ماہر ابلاغیات مک کوئیل کی ایک تحقیق کے مطابق ’’میڈیا کی اصل قوت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ’’رائے اور عقیدے کے معاملات میں قائل کرنے کی کوشش، رویوں کو متاثر کرکے راغب کرنے اور قانونی جواز مہیا کرنے کا کام بھی انجام دیتا ہے۔‘‘
ابلاغیات کے ماہر جی گربنر نے 1976ء میں تفصیلی انداز سے ’’کاشت کا نظریہ‘‘ پیش کیا، جسے Cultivation Theory کہتے ہیں۔ بحوالہ Journal of Communication, 29(10), 177-196.)۔ گربنر کا پیش کردہ نظریہ کہتا ہے کہ ٹیلی ویژن آج کے معاشرے میں داستان گوئی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ ٹیلی ویژن کہانی پیش کرنے کا ایک مرکزی نظام ہے جس میں ڈراموں، اشتہارات، خبروں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے ہر گھر میں اسی نظام کو بچپن سے کاشت کیا جارہا ہوتا ہے جس کے اثرات سماجی حقیقتوں کے روپ میں انسانی اذہان میں کاشت ہوجاتے ہیں اور آپ کے ذہن میں وہ بات، منظر، فعل عملی طور پر منتقل ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک بات کی مختلف انداز سے بار بار تکرار کے ذریعے ذہن سازی کردی جاتی ہے۔
اس نظریے کے مطابق ہمارے ڈراموں کے ذریعے یہ کام مختلف چینل ایک ہی ایجنڈے پر انجام دے رہے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر اسلامی تعلیمات اور اصطلاحات کی غلط اور گمراہ کن تشریح کی جاری ہے۔ اس کی مثال کے لیے چند ڈراموں کے ’’مکالمے‘‘ دیکھیے:
’’امی تو عدت میں ہیں، ابو عدت کیوں نہیں کررہے؟‘‘ چھے سالہ بلال اپنی دادی سے پوچھ رہا تھا۔ ’’امی! ایک بات تو بتائیں، آپی تو ہادی بھائی سے دوبارہ شادی کے لیے حلالہ کررہی ہیں تو ہادی بھائی آپی سے شادی کے لیے حلالہ کیوں نہیں کررہے؟‘‘ بارہ سالہ بچہ اپنی ماں سے سوال کررہا تھا۔ آپ نے یہ سوالات سنے۔ جی ہاں جناب، یہ سوالات ہمارے ہی بچوں کے منہ سے کہلوائے جارہے ہیں۔ پہلا مکالمہ ARY کے ڈرامے ’’نعمت‘‘ سے لیا گیا ہے اور دوسرا ’ہم‘ ٹی وی کے ڈرامے’’ذرا یاد کر‘‘ سے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ احکامات حرفِ آخر ہیں، ان کے خلاف تاویلات کا سہارا لینا یا ان پر سوالات اٹھانا ہمیں نافرمانی اور گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
1۔ ’ہم‘ چینل کے ڈرامے ’’پاکیزہ‘‘ میں طلاق کے بعد بیٹی کی پرورش کا بہانہ بناکر طلاق کو چھپا لیا جاتا ہے اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جاتی ہے جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔
لڑکی (بیٹی) کی مظلومیت کا سہارا لے کر یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیٹی کی شادی و مستقبل پر طلاق کے غلط اثرات نہ پڑیں، اس لیے طلاق ہونے کے بعد بھی ساتھ رہا جاسکتا ہے۔
2۔ A PLUS کے ڈرامے ’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہوجاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتویٰ ٰلے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے، جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔
3۔ ARY کے ڈرامے ’’انابیہ‘‘ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہوجاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کردیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کو تیار ہوجاتی ہے۔
4۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’ذرا یاد کر‘‘ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کررہی ہے تاکہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کرسکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کرکے حلالہ کرنا شرعاً ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہوجائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے، مگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایسا نہیں ہوسکتا۔
5۔ ’جیو‘ کے ڈرامے ’’جورو کے غلام‘‘ میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کرسکے۔
6۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’من مائل‘‘ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر اُن کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔
7۔ ’ہم‘ کے ڈرامے ’’تمھارے سوا‘‘ میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلواکر خود نکاح کرلیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے درخواست دے دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔
آج ہمارے ٹی وی چینلز پر قابض مختلف سیکولر، آزاد خیال اور لبرل افراد انٹرٹینمنٹ کے نام پر ڈراموں و دیگر پروگرامات کے ذریعے ایسے احکامات پر سوالات اٹھا رہے ہیں جو معاشرے اور خاندان کی اساس ہیں اور جن کے لیے قرآن وحدیث میں واضح احکامات دے دیے گئے ہیں۔ مگر چینلز پرآج کل ایسے رائٹرز ڈرامے لکھ رہے ہیں جن کو قرآن وحدیث اور فقہ کا کوئی علم ہے نہ معاشرتی روایات کا احساس۔ نامکمل معلومات کے سہارے ان موضوعات پر ڈرامائی تشکیل کرلی جاتی ہے۔ ڈراموں کا جائزہ لینے سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ علم اور آزادئ اظہار کے نام پر ایک پوری تھیم کو میڈیا کے ذریعے عوام تک منتقل کیا جارہا ہے، اور ہدف بنا کر واضح احکامات والے شرعی معاملات پر ایسے سوالات اٹھاکر تنقید کی جارہی ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
میڈیا ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک عالمی کلچر ٹیلی وژن کی بدولت جنم لے رہا ہے۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلامی تعلیمات ہیں، مسلمانوں کا مضبوط خاندانی نظام ہے۔ ماہرینِ سماجیات اور کی گئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان میں بھی میڈیا کا بڑا عمل دخل ہے۔ مذکورہ بالا ڈراموں کی مثالوں میں بھی آپ نے اس بات کو نوٹ کیا ہوگا، اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بڑی آبادی دیہاتوں، قصبوں میں موجود ہے جہاں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں منظم منصوبے کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمروڑ کر پیش کرنے، اس طرح کے سوالات اٹھانے اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسے کو متزلزل کرنا ہے۔کیا وزارتِ اطلاعات و نشریات نے فلموں اور ڈراموں کے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق اور کوئی پالیسی تشکیل دی ہے؟ کیا کوئی ایسا بااختیار نگرانی اور منظوری کا ادارہ موجود ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟ کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اس طرح اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کرنے اور نت نئی تاویلات کو پیش کرنے کے خلاف نوٹس لے؟
اس بار بھی ہمارا موضوع ’ہم‘ ٹی وی چینل کا حالیہ دنوں اختتام پذیر ہونے والا ایک اور ڈرامہ ’’ سنگِ مرمر‘‘ ہے۔ اس ڈرامے کے انتخاب کی ایک خاص وجہ اِس کا چھپا ہوا ایک اہم موضوع تھا جو عمومی موضوعات سے ہٹ کر تھا۔ ’ہم‘ ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ ڈرامہ عوام میں خاصا مقبول بھی رہا، سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگ اب بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ پروڈکشن مومنہ درید کی ہے اور سیف حسن اس ڈرامے کے ہدایت کار ہیں۔ مصطفی آفریدی کا تحریر کردہ مذکورہ ڈرامہ جس کے پس منظر میں ’’سود کے بداثرات‘‘ کو پشتون کلچر کے ساتھ خاص زاویے میں دکھایا گیا۔ ڈرامہ روایتی ساس بہو کے جھگڑوں سے الگ ایک نئے موضوع پر تھا۔ نعمان اعجاز نے اس ڈرامے میں گلستان خان کا مرکزی کردار ادا کیا ہے جس کا خاندان علاقے کا معزز خاندان ہے اور لوگوں کو سود پر قرضہ دیتا ہے۔ ابتدا ہی سے اُسے ’’سود خور‘‘ کہلوا اور دکھلا کر اس کا منفی تاثر نمایاں کیا گیا۔ لوگوں سے سود کی وصولی کے لیے اُس کے دو بیٹے ہیں، جبکہ تیسرا بیٹا زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اپنے باپ سے الگ مزاج رکھتا ہے۔ اہم بات یہ محسوس ہوئی کہ مصنف نے پختون کلچر کے روایتی مذہبی رجحانات کو اپنے محدود علم کے مطابق پیش کیا۔ محدود ان معنوں میں کہ ڈرامے کے مصنف نے احادیثِ مبارکہ، قرآنی حوالے، نماز، اہل اللہ کے ہاتھ پر بیعت، قسم توڑنے کا کفارہ، وعدے کی اہمیت، عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے متعلق کئی مکالمے اور مناظر شامل کیے تھے، مگر ڈرامے کا اصل رُخ جسے قرآن مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے ’’یمحق اللہ الربا‘‘کہ اللہ تعالیٰ سود کو جڑ سے مٹا دیتا ہے، اس تشریح کو مصنف نے جانے انجانے خفیہ انداز میں پیش کیا۔ بظاہر ڈرامے میں یہی دکھایا گیا کہ سود کی جڑ ہی کاٹ دی گئی پوری نسل کو ختم کرکے۔ ڈرامے میں جہاں ایک جانب نہایت خفیہ اشارہ دیتے ہوئے ’’سودی‘‘کمائی کے مضمرات کا پیغام دیا گیا وہاں ایک بڑا باریک مگر سخت کام جس کا ذکر ہم نے مضمون کے آغاز میں کئی مثالوں سے کیا تھا، وہ بھی یہاں مصنف نے کرڈالا۔ محرم اور نامحرم جیسی بنیادی قرآنی اصطلاحات کو بھی اپنے حساب سے رگید دیا گیا۔ واضح رہے کہ محرم کی مکمل تعریف و وضاحت علماء کرام نے نہیں، بلکہ خود اللہ پاک نے قرآن مجید میں سورۃ النساء میں وضاحت سے تمام رشتہ داروں کے نام لے لے کر کی ہے۔ ڈرامے کی تیرہویں قسط میں ایک منظر میں گلستان خان کے داماد طورے خان کا سامنا اُس کی بہو سے ہوتا ہے اور وہ چہرے کا پردہ کرلیتی ہے۔ اگر لکھاری ڈائیلاگ میں محرم والی بات نکال دیتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ مسئلہ اس وقت آیا جب منظر میں طورے خان گلستان خان کی بہو جو رشتے میں اُس کی بیوی کی نند ہوتی ہے، سے چہرے کا پردہ ہٹانے کو کہتا ہے اور دلیل یہ دیتا ہے کہ وہ اُس کا محرم ہے۔ یہاں آکر رائٹر، ڈائریکٹر نے قرآنی اصطلاح کی اپنے حساب سے تشریح کرواکر فاش غلطی کی ہے اور کاشت کے نظریے کے مطابق اسی پالیسی کو دھکا دیا ہے جس کا ذکر ابتدا میں ہم کرچکے ہیں۔ بات ہورہی تھی سود کے مضمرات پر مبنی انجام کی، تو ڈرامے کے اختتام پر گلستان خان ٹی بی کا مریض ہوکر اپنی نسل، جائداد اور دو بیٹوں اور اکلوتے داماد سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ سود کو جڑ سے ختم کرنے کے ضمن میں مزید یہ بھی دکھایا گیا کہ گلستان خان خود اپنے باپ کو بیماری کی حالت میں اُس کی خواہش پر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ دوسری اہم بات ’’قتل بالرحم‘‘ یعنی رحم کے جذبے کے تحت قتل کرنے کے اہم فقہی مسئلے کو بھی مبہم انداز میں پیش کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کیا گیا ہے۔ رحم کے جذبے کے تحت کسی کو قتل کرنے کے حوالے سے تمام علماء کی متفقہ رائے ہے کہ وہ حرام ہے۔

حصہ