’’صحیفہ‘‘ کا مکاتیب نمبر، حصہ اول، ادب شناس ملک نواز احمد اعوان کی مہر کے ساتھ سامنے ہے۔ ’’صحیفہ‘‘ مجلسِ ترقئ ادب لاہور کا علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس میں بڑے بڑے مشاہیر کے مکتوبات ہیں۔ اور بات صرف مکتوب کی نہیں بلکہ ان سے اردو زبان و ادب کے بارے میں بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کئی الفاظ کی تصحیح بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً رشید احمد صدیقی نے ایک خط میں لکھا ہے ’’لال قلعہ میں ساڑھے تین بجے شب تک ہائے وہو ہوتا رہا‘‘۔ ہم اب تک اسے ہاؤ ہو کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔
جامعہ دہلی کے شعبۂ اردو کے استاد ضیاء احمد نے ’’بن کھنڈی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کا مطلب ہے: بن میں آوارہ پھرنے والے۔ لیکن لغت نویس پلیٹس نے ہند کے ایک جنگل کا نام تو بتایا ہے مگر وضاحت نہیں کی۔ کھنڈنا بمعنی منتشر ہونا، پراگندہ ہونا لغات میں موجود ہے۔ پلیٹس نے اپنی لغت میں ’’عروس الخطوط‘‘ کے معنی دیے ہیں: وہ تحریر جس میں زیر زبر وغیرہ لگے ہوں۔ ضیاء احمد نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قیاس کہتا ہے کہ عروس الخطوط نستعلیق ہے کیونکہ وہ خوبصورت ہوتا ہے۔ اور مثنوی سحرالبیان اور خطوں کے نام دیے ہیں، نستعلیق کا نام نہیں دیا۔ مثنوی سحرالبیان میں بھی ہندی کا لفظ آدیش آیا ہے یعنی حکم۔ نیز ہندو فقرا کا سلام۔ اس میں ’ش‘ کی جگہ ’س‘ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آدیس۔
ضیاء احمد نے مومنؔ کے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے بہت سوں کی معلومات میں اضافہ کیا ہے۔ اور یہ ہے ’’ادافیوس‘‘۔ یہ ایک پھول کا نام ہے جس کو نرگس کی طرح آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مومن خان مومنؔ کا مصرع ہے:
کہ چار چشم نہ ہوں نرگس و ادافیوس
چارچشم ہونا: نظر ملانا۔ دو آنکھیں نرگس کی دو ادافیوس کی۔
مومنؔ ہی کے قصائد میں ہمارے لیے ایک اور نامانوس لفظ آیا ہے ’’ابوس‘‘۔ معنی ہے زنگار۔
ضیاء احمد علی گڑھ یونیورسٹی سے 1959ء میں صدر و پروفیسر شعبۂ فارسی کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ کا تعلق لاہور سے تھا۔کئی زبانوں پر عبور تھا۔ بچھو کو ہاتھ لگائے بغیر اس پر تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ لفظ ’’بچھ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہندی میں زہر کے ہیں۔ اردو میں اس کا ہم اصل و ہم نسب ’’بِس‘‘ ہے۔ (اردو میں ’’بس کی گانٹھ‘‘، ’’بس کی پڑیا‘‘ کہنے تک تو مستعل ہے۔ ہندی میں کہیں ’ب‘ اور ’و‘ آپس میں بدل جاتے ہیں چنانچہ بس بھی وش ہوجاتا ہے)
مکاتیب میں تو اتنا مواد ہے کہ کئی کالم بھرے جاسکتے ہیں۔ تاہم پھر کبھی سہی۔ یونہی لغت دیکھ رہے تھے تو اس میں ’’اجگر‘‘ کی دلچسپ وضاحت سامنے آئی۔ یہ ہندی اور سنسکرت کا لفظ ہے، اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ اژدھے یا بڑے سانپ کو کہتے ہیں۔ لغت کے مطابق اس کے دو حصے ہیں ’’اج‘‘ بمعنی بکرا، اور ’’گر‘‘کا مطلب ہے نگلنا۔ چنانچہ اجگر وہ جو بکرے کو سالم نگل جائے۔ اس کے بعد وہ ہلنے جلنے جوگا نہیں رہتا اور جب تک بکرا ہضم نہ کرلے چل پھر نہیں سکتا۔ اس لیے بھدے اور کاہل شخص کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہندی ہی کا ایک محاورہ ہے ’’اجگر کے داتا رام‘‘ ۔ یعنی کاہلوں کو بھی داتا رزق دیتا ہے۔
ایک لفظ امڈنا اکثر الجھن میں ڈالتا ہے کہ اس میں ’م‘ کے بعد ’ن‘ آنا چاہیے یا نہیں۔ یعنی کیا اسے امنڈنا لکھا جائے؟ منگل کے جسارت کی ایک سرخی ہے ’’شہدا کے جنازے میں عوام امڈ آئے‘‘۔ تصدیق کے لیے لغت دیکھی تو اس میں دونوں لفظ ہیں۔ وارث سرہندی کی ’’علمی اردو لغت‘‘ میں صرف ’’امنڈنا‘‘ ہے، تاہم ’’نوراللغات‘‘ میں امنڈنا (ہندی) کی وضاحت میں لکھا ہے جیسے ’’آنکھ سے آنسو ہیں کہ امڈے چلے آتے ہیں‘‘۔ آگے ہے ’’بادل چو طرف سے امنڈ آیا‘‘۔ شادؔ کا شعر ہے:
دلِ حزیں پہ مقرر ہے فوج غم امڈی
سپاہِ اشک کی خالی یہ ریل پیل نہیں
مطلب میں مزید دیا ہے: طغیانی پر آنا جیسے دریا امنڈنا۔
’’ٹبّر‘‘ خاندان، اہل و عیال کے لیے پنجاب میں مستعمل ہے اور ہمارا خیال تھاکہ یہ پنجابی ہی کا لفظ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ہندی کا لفظ ہے اور فارسی میں تَبار کہا جاتا ہے۔ ’بار‘ انتظام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ’’اللہ رکھے سارے گھر کا ٹبر انہیں کے اوپر ہے‘‘۔ خاص پنجابی سمجھے جانے والے الفاظ میں سے بہت سے ہندی سے آئے ہیں۔ اس خطے کی زبانوں کی والدہ تو سنسکرت ہے اسی سے الفاظ ہندی، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور بنگالی میں آگئے۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ بدل گیا۔
ششماہی ’’عمارت کار‘‘ اپنے نام کی طرح منفرد ہے۔ اس کے مدیر حیات رضوی امروہوی نے بھی ایک خط کے ذریعے یاد کیا ہے اور ازراہِ تفنن لکھا ہے ’’زبان کے بارے میں بڑے کارِثواب کا کام ہورہا ہے‘‘۔ یہ تو خیر انہوں نے مزاحاً ایک غلطی کی نشاندہی کی ہے لیکن جسارت سمیت کئی اخباروں میں ہم نے ’’کام کا دائرۂ کار‘‘ بڑھانے کی تلقین پڑھی ہے۔
گزشتہ دنوں جامعہ پنجاب میں طلبہ کے درمیان جھگڑے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں بڑے معروف اینکر شاہزیب خانزادہ بار بار کہہ رہے تھے کہ پشتون طلبہ ’’رقص و سرور‘‘ میں مصروف نہیں تھے۔ رقص و سرور کا استعمال سرور میں آکر کئی بار کیا گیا۔ اُن کے پاس علامہ اقبالؒ کا کلام پڑھنے کا وقت تو بھلا کہاں ہوگا، لیکن اتنا تو کرسکتے ہیں کہ علامہ کی دو نظموں کا صرف عنوان ہی دیکھ لیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کو بتاؤ یہ ’سرور‘ نہیں ہے ’سرود‘ ہے تو حیران ہوکر پوچھتا ہے، یہ کیا ہوتا ہے؟
زبان فہمی کے مستقل عنوان سے محترم سہیل احمد صدیقی ’’ابابیل بھی ابابیل نہیں‘‘ نامی کالم میں لکھتے ہیں ’’ارم عربی لفظ ہے، ہمارے یہاں (ہاں) عموماً لڑکیوں کا نام یا بعض شعراء کا تخلص ہے (جیسے ارم لکھنوی)۔ اردو میں اس سے جنت مراد لی جاتی ہے جو بالکل غلط ہے‘‘۔ سہیل احمد صدیقی کے مطابق اس کا مطلب ہے: میدان میں رہنمائی کے لیے نصب کیا جانے والا پتھر، نشانِ راہ یا سنگِ میل۔ شداد نے جو نقلی جنت بنائی تھی اس کا نام اس نے ارم رکھا تھا۔ غالب کا مشہور شعر ہے:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
اور خیاباں پرانی فارسی میں باغ یا کیاری کے لیے، اور جدید فارسی میں سڑک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
لغت میں ارم کا ایک اور مطلب بھی ہے، ایک شہر کا نام جس میں قومِ عاد آباد تھی۔ فارسیوں نے بمعنی بہشت شداد استعمال کیا۔ اب عموماً مطلق بہشت کو بھی کہتے ہیں۔ امیرؔ کا مصرع ہے ’’کہہ دو رضواں سے کہ ہم سوئے ارم آتے ہیں‘‘
nn