اماں: ہاں بیٹا، قصور فائزہ سے زیادہ اس کی ماں کا ہے۔ اولاد کی تربیت میں ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایسی لڑکیوں سے ذرا دور ہی رہا کرو۔
ساجدہ: جی اماں۔۔۔
دس، بارہ سالہ صائمہ جو دادی کے کمرے میں داخل ہورہی تھی، دادی اور پھوپھو کی بات س کر وہیں رک گئی۔ مکمل بات تو ہیں س ی، لیک جت ی اس کے کا وں میں پڑی، وہ بھاگتی ہوئی ماں کے پاس پہ چی اور ماں سے کہا کہ دادی اور پھوپھو فائزہ خالہ کے بارے میں یہ کہہ رہی تھیں، جب کہ ساجدہ اپ ی ہم جماعت فائزہ کا تذکرہ ماں سے کررہی تھی۔
ماں کو صائمہ کی بات پر بڑا غصہ آیا کہ اس کی ساس اور د اس کی بہ کو بد ام کررہی ہیں۔ اس کے دل میں اپ ی ساس اور د کے لیے بدگما ی پیدا ہوئی۔ اس ے بجائے تحقیق کے، صائمہ کو اس کام پر لگادیا کہ بیٹا چپکے چپکے دادی اور پھوپھو کی باتیں س ا کرو اور مجھے آکر بتایا کرو کہ تمہاری دادی اور پھوپھو تو میرے میکے والوں کی دشم ہیں۔ اس طرح بچی کے ذہ میں بھی یہ بات بٹھادی۔ صائمہ کو ایک چسکا لگ گیا، وہ اب موقع کی تلاش میں رہتی، جہاں دو ب دے آہستہ آہستہ کوئی بات کرتے، یہ کا لگاکر جاسوسی کرتی، پھر آکر ماں کو بتاتی۔ جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی، یہ عادت پختہ ہوتی گئی۔ آس پڑوس ہو یا اسکول۔۔۔ وہ جو کچھ س تی، کچھ اپ ی طرف سے ملاتی اور آگے پہ چا دیتی۔ یع ی جاسوسی اور چُغل خوری کی عادت پختہ ہوگئی۔ آئے د اس کی وجہ سے کبھی گھر میں تو کبھی پڑوس میں کوئی ہ کوئی بدمزگی کا واقعہ پیش آ ے لگا۔
یع ی ایک بُرائی سے کئی بُرائیوں ے ج م لے لیا۔ اسکول میں بھی آئے د اس کی شکایت پر استا ی اور میڈم لڑکیوں کی کھچائی کرتیں، جب صائمہ کی کلاس کی بچیوں کو صائمہ کی حرکت کا علم ہوا تو وہ اس سے دور دور رہ ے لگیں بلکہ اس کے سام ے کوئی بھی بات کر ے سے پرہیز کر ے لگیں۔ اس طرح، کلاس میں اس کا کوئی دوست ہ رہا، وہ ت ہاہ رہ گئی۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ اچھی اور بُری عادتیں بچپ ہی سے پروا چڑھتی ہیں۔ کسی بھی عمارت کی پختگی کا ا حصار اس کی مضبوط ب یادوں پر ہوتا ہے، اگر ب یاد میں خستہ، ام اسب اور اقص مال ہو تو عمارت کی پختگی بھی مشکوک ہوگی، یہی حال بچوں کے بچپ کا بھی ہے۔ بچے کے ھے سے ذہ میں جس قسم کا مواد ڈالا جائے گا اس کی شخصیت کا ا حصار اسی مواد (تربیت) پر ہوگا۔ اسی لیے والدی اور بڑوں کی ذمے داری ہے کہ اگر بچوں میں کوئی ایسی بات ظر آئے تو وہیں ا کی مثبت طریقے سے روک تھام کی جائے اور حوصلہ افزائی ہیں کی جائے لیک ضروری ہیں کہ ہر اچھی یا بُری عادت بچپ ہی سے اس میں پروا چڑھے، بعض اوقات بچّہ بڑے ہوکر بھی کچھ عادتیں ب دہ اپ الیتا ہے، مثلاً جاسوسی اور چُغل خوری کی عادت کو لے لیں۔ دوسروں کے دل میں اپ ا مقام ب ا ے کے لیے یا محفل کی جا ب ے کے لیے یا دوسرے کو یچا دکھا ے یا اسے قصا پہ چا ے کے لیے بھی یہ اوچھی حرکتیں اپ ائی جاتی ہیں۔ کچھ عرصے تک تو ایسی حرکتیں دوسروں سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں، لیک جب آشکار ہوتی ہیں تو لوگ ہ صرف ایسے ب دے سے دور بھاگتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کے دلوں میں اپ ی عزّت بھی کھو دیتا ہے۔ معاشرے میں اسے لوگوں کی وجہ سے اکثر فساد اور لڑائی جھگڑے کی وبت تک آجاتی ہے اور دھڑوں اور دوگروپوں میں دوری اور قطع تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور سب سے بڑا خسارہ یہ کہ ایسے لوگ خدا کی رضا سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، کیوں کہ جاسوسی اور چُغل خوری گ اہ کبیرہ میں شامل ہیں۔ چُغل خور وہ شخص ہے، جو لوگوں کے درمیا فساد پھلا ے کے لیے باتیں قل کرتا ہے، لہٰذا یہ ایک حرام کام ہے۔
آپؐ ے فرمایا: چُغل خور جّ ت میں ہیں جائے گا۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپؐ کا گزر دو قبروں پر ہوا تو آپؐ ے فرمایا: ا دو وں اصحاب قبور پر عذاب ہورہا ہے۔ کسی مشکل کام کی وجہ سے ہیں ہو رہا، لیک یہ دو وں کام گ اہ کبیرہ ہیں۔ ا میں سے ایک تو اپ ے آپ کو پیشاب کے قطرات سے ہیں بچا سکا اور دوسرا وہ ہے جو دو آدمیوں کے درمیا چُغلیاں کھاتا تھا۔ پھر آپؐ ے ایک سبز شاخ لی اور درمیا سے پھاڑ کر آدھی آدھی ہر ایک قبر پر گاڑھ دی اور فرمایا کہ شاید ا دو وں شاخوں کے خشک ہو ے سے قبل یا ا کی خشکی تک اللہ تعالیٰ ا کے عذاب میں تخفیف فرمادے‘‘۔
حضرت حس بصریؒ کا بیا ہے کہ جس شخص ے آپ کے سام ے کسی کی بات قل کی (چُغل خوری) تو جا لے کہ وہ تیری بات بھی غیروں کو قل کرے گا۔ لہٰذا اسی سے ڈر۔ حضرت حس بصری کی اس بات سے واضح ہے کہ چُغل خور کی حقیقت ظاہر ہو ے پر اس سے لوگ دور بھاگتے ہیں، وہ عزّت کا مقام کھودیتا ہے۔بغیر تحقیق و تصدیق کے چُغل خور کی بات پر یقی کر ے سے پرہیز کر ی چاہیے، یع ی جب تک خود آ کھوں سے دیکھ ہ لے یا س ہ لے یا اس پر کوئی گواہ موجود ہ ہو، تب تک بدظ ہ ہو اور اگر چُغل خور غلط بات لے کر آیا ہے تو اس کی اصلاح بھی لازمی ہے، یع ی اس کو صیحت کرے، پھر خود بھی اللہ کی رضا کی خاطر اس کی اس خصلت پر اسے معاف کردے اس سے بدظ ی اور بدگما ی ہ رکھے۔
رب العزّت کا فرما ہے: ’’اے ایما والو، بہت سے گما وں سے بچا کرو، کیوں کہ بعض گما گ اہ ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی پوشیدہ حالتوں کا سراغ مت لگایا کرو‘‘۔
پوشیدہ باتوں اور راز کی باتوں کی جاسوسی کر ا اور پھر اس کی زما ے بھر میں تشہیرکر ا تعلیمات اسلامی کے م افی ہے۔ بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ آپؐ ے فرمایا: ہر وہ شخص، جس ے کسی قوم کی باتوں کو س ے کی کوشش کی اور جو لوگ اس کو ا گوار سمجھتے تھے اور چھپا ا چاہتے تھے تو سُ ے والے کے کا وں میں قیامت کے د سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کی روش ی میں واضح ہے کہ کسی کے وہ راز یا باتیں، جو وہ چھپا ا چاہے اور لوگ اس کی جاسوسی کرکے آگے تک پہ چائیں اور دوسروں کے سام ے اس کی چُغلی کریں، ا تہائی بُری عادت ہے، جس پر رب اللعامی کی پکڑ ہوگی، کیوں کہ چُغل خور کا عمل شیطا سے بڑھ کر خطر اک ہے۔ جب کہ شیطا کا عمل تو وسوسہ کے ساتھ ہے، جو دکھائی ہیں دیتا اور چُغل خور تو آم ے سام ے فساد کا موجب ہے، اور بعض اوقات تو قتل غارت کا موجب ب جاتا ہے۔
رب العزّت کا فرما ہے: ’’اے ایما والو، اگر کوئی فاسق شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا ہ ہو کہ کوئی ضرر پہ چادو اور پھر اپ ے کیے پر پچھتا ے لگو‘‘۔
اس سلسلے میں بزرگا دی کے طریقے کار کو اپ ا ا چاہیے اور مذکورہ احتیاط کا خیال رکھ ا بے حد ضروری ہے۔ میں اپ ے مضمو کا اختتام اس واقعے پر کروں گی، جس سے ا دازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بزرگاِ دی اس سلسلے میں اپ ے آپ کو گ اہوں سے بچا ے کے لیے کس طرح احتیاط کرتے تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص حضرت علی ب الحسی ؒ کے پاس آیا اور ا سے کہا کہ فلاں شخص ے آپ کو گالی دی ہے اور آپ کی طرف سے ’’ایسی ایسی‘‘ باتیں کی ہیں۔ تو حضرت علی اب الحسی ؒ ے فرمایا کہ بھائی، ہمیں لے چل ا کے پاس تو وہ ا کو اپ ے ساتھ لے گیا۔ اس شخص کا یہ خیال تھا کہ آپؒ ا سے اپ ا بدلہ لیں گے لیک جب آپؒ اس آدمی کے پاس پہ چے تو فرمایا کہ اے بھائی، جو کچھ آپ ے میرے متعلق فرمایا ہے، اگر وہ سچ ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے اور اگر وہ جو تو ے میرے متعلق فرمایا باطل ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے‘‘۔
کت ا عمدہ طریقہ تھا اور ردعمل تھا، چُغل خور کے لیے اور اس شخص کے لیے بھی، جس ے پیٹھ پیچھے آپ کے متعلق کچھ کہا۔ اس طریقہ کار سے اصلاح بھی ہوجاتی ہے اور فساد بھی ہیں ہوتا پھر فساد پھیلا ے والا شرم دہ بھی ہوجاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں ایسے کئی واقعات پڑھ ے کو ملتے ہیں، ج سے ہمیں صیحت پکڑ ی چاہیے اور خصوصاً اس سلسلے میں چھوٹے بچوں کو ہ اکسائیں اور اگر کہیں کسی بچے میں یہ خامی ظر آئے تو اسے مثبت طریقے سے روکیں اور صیحت کریں۔ یہ والدی اور اساتذہ کرام کا فرض ہے۔ بچپ کی یہ عادت آگے چل کر ہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ ا کے اپ ے لیے بھی قصا دہ ہوگی۔ رب العزّت، ہمیں ا تمام بُرائیوں سے بچائے رکھے، ج کی بدولت معاشرے میں فت ہ وفساد پیدا ہو اور خود بھی ب دہ رب کی رضا سے محروم ہوجائے! (آمی )
nn