پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن نے پوری قوم کو اپنے سحر میں لے رکھا تھا اور راقم نے ٹھانی ہوئی تھی کہ اس مرتبہ ترکی جانا ہے۔ اللہ رب العزت نے موقع دے ہی دیا اور میں لندن (برطانیہ) سے ہوتا ہوا ترکی اور پھر متحدہ عرب امارات کا سفر طے کر کے واپس وطن لوٹ آیا۔
جب بھی بیرون ملک جانا ہوتا ہے تو سب سے پہلے جو مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے وہ ہے گھر والی کو اعتماد میں لینے کا اور ان کو اطمعنان دلانے کا ، سو ہمیشہ کی طرح مشرقی طرز کی بیوی نے جو الحمدللہ اللہ والی بھی ہیں مشروط اجازت دی کہ سب صحافی اپنی بیگمات کو لے کر بیرون ملک جب کوریج میں جاتے ہیں تو لے کر جاتے ہیں اور آپ جو ہیں عین وقت پر بتاتے ہیں اور مجھے بھی شوق ہے گھومنے پھرنے کا اور آپ کے ساتھ جانے کا نیز تبلیغ کے لیے بھی جایا جاسکتا ہے ۔ میں نے کہا پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ وہ بیگمات رکھتے ہیں اور میں فقطا ایک اور وہ ہیں آپ۔ جب کہ تبلیغ کا اثر تو مجھ پر اب تی نہیں ہو پایا کسی اور پر کیا ہوگا وہ بھی غیر مسلم کو مسلمان کرنا۔ بہرحال آئندہ کوشش کریں گے آپ کا ویزہ بھی اپلائی کردیں گے۔ دیگر برادران اور ہمشیرہ نے بھی سفر پر جانے کے لیے بہت ساتھ دیا۔ امید ہے جو نام اور کردار رہ گئے وہ معاف فرمائیں گے۔
سفرکی روداد سفرنامے میں بیان کرنے کا قصد کیا تو وقت نے آڑے ہاتھ لیا۔ اس لیے کہ بلدیہ عظمیٰ اور تعمیر اخلاق پروگرام کے ساتھ ساتھ جسارت کھیلوں کے صفحے پر بھی توجہ دینی ضروری تھی کہ شہر میں ناہوتے ہوئے کچھ موضوعات رہ گئے ہیں تو وہ فوری قارئین کے سامنے پیش کیے جائیں۔
البتہ سنڈے میگزین میں سابق قومی کرکٹر یاسر عرفات کا انٹرویو شائع ہوا جس کو قارئین نے پسند کیا، جس پر ان کا بہت شکرگزار ہوں۔ آج آپ کے مطالعہ کے لیے سفرکی روداد پیش کر رہاں ہو۔ان شاء اللہ آیندہ اتوار لیجنڈ کرکٹر مشتاق محمد کے ساتھ برمنگھم ( برطانیہ )میں ہوئی گفت و شنید قارئین کی دلچسپی کے لیے شایع کی جائے گی۔
لندن چوں کہ تیسری مرتبہ جانا ہوا اور وہ بھی صرف 4روز کے لیے، نیز سخت سردی تھی اور دن چھوٹے، اس لیے بہت زیادہ گھومنا پھرنا نہیں ہوا۔ البتہ بڑے بھائی سید عاصم علی قاردی نے ہیتھرو ائر پورٹ لندن پر استقبال کیا اور وہاں سے ان کے گھر لے گئے۔ دن ڈھل چکا تھا اور رات ہونے کو تھی، لہٰذا ان سے اجازت چاہی اور ہوٹل چلا گیا۔ دوسرے روز مختلف مصروفیات رہیں، جب کہ تیسرے روز لند ن کے قریب واقع کینٹ میں پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈر یاسرعرفات کے گھر پہنچا، اور ان سے کرکٹ اور ان کی فیملی سے متعلق گفتگو ہوئی جو قارئین کی نظر سے گزر چکی ہے۔ چوتھے روز برمنگھم میں لیجنڈ کرکٹر مشتاق محمد کا انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں وہاں رہایش پزیر دوستوں شاہد اور منصور کی معاونت رہی کہ انہوں نے بس اسٹیشن سے لیا بھی اور واپس بھی چھوڑا۔ انہوں نے تصاویر بھی لیں اور ساتھ بھی رہے۔ اس کے بعد واپس وکٹوریہ اسٹیشن آکر ناصر عبداللہ اور میرے دوست آصف نے ساتھ ڈنر کیا ۔ اس سے قبل ہمیشہ خیال رکھنے والے بھائی اسرار الحق کی تواضع نہیں بھول سکتا۔ اس مرتبہ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ پوری دنیا کا چکر لگا نے کی غرض سے سفر پر نکلے تو پاکستان بھی گئے تھے۔ یہ پورا سفر انہوں نے جہاں تک ممکن ہوا زمینی راستے سے کیا۔ بہت ایڈونچرس ٹور تھا ۔ ان سے درخواست کی ہے کہ جسارت سنڈے میگزین کے لیے اس کی روداد تحریر فرمائیں۔
برطانیہ میں 4 روز قیام کے بعد اس ملک پہنچا جسے دیکھنے کا بہت عرصے سے اشتیاق تھا اور جہاں اب ایک اسلامی سوچ کی حامل حکومت قائم ہے۔ یہی حکومت تھی جس نے میرا اشتیاق اور بڑھا دیا تھا۔ ویسے تو ہمارے خطے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ترکی سے محبت اور عقیدت کوئی نئی بات نہیں۔ مسلمانِ ہند کا ترکی سے دینی اور روحانی رشتہ ہمیشہ سے قائم ہے، اس میں والہانہ عقیدت اُس وقت دیکھنے میں آئی جب پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد برطانیہ کی قیادت میں مغربی طاقتوں نے وہاں قائم عظیم عثمانی سلطنت کو ختم کرنے کی سازش کی۔ اس دوران مسلمانِ ہند نے ناصرف تحریک خلافت چلا کر انگریز سرکار پر اندرونِ ہند اور برطانیہ میں دباؤ ڈالا، بلکہ چندے کی خطیر رقم جمع کرکے عثمانی سرفروشوں کو بھیجی، جو اس وقت اپنے دشمنوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔ نیز اب وہاں صدر رجب طیب اردوان کی قیادت میں ایک ایسی اسلامی سوچ کی حکومت قائم ہے، جس کا ظاہری نعرہ تو سیکولرزم ہے، تاہم اس کٹھن دور میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے اس حکومت کی خدمات قابل ستایش سے زیادہ قابل تقلید ہیں۔
اسی شوق کو لیے میں لندن ہیتھرو ائرپورٹ سے ترکی کے تاریخی شہر استنبول پہنچا۔ ائرپورٹ سے کرائے پر کار لے کر اس ہوٹل کی جانب روانہ ہوا جو ہمارے کرم فرما ٹریول و ٹور آپریٹر فہد منیر نے بک کرایا تھا۔ مختلف شاہراہوں سے گزر کر قدیم شہر میں واقع ہوٹل پہنچا۔ بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ راستے میں کہیں بھی ترک زبان کے علاوہ کسی بھی زبان میں کچھ لکھا نہ پایا۔
ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا تو سخت سردی تھی اور ہیٹر کام نہیں کررہا تھا۔ کیا کرتا اور کیا نہ کرتا۔ سوائے مسکراہٹ کے استقبالیہ پر موجود شخص نے زیادہ گفتگو ہی نہیں کی۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی زبان سے میں اور میری زبان سے وہ ناآشنا تھے۔ رہی سہی ایک زبان جس کے ہم محتاج اور زیر نگیں آچکے ہیں، اس سے وہ شخص بحیثیت ایک قوم کے نابلد تھا۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور کچھ اشاروں کے ساتھ انگریزی بول کر ہم نے ہیٹر اسٹارٹ کرایا۔ ہیٹر اسٹارٹ ہوا تو چائے کی طلب بھی جاگ اٹھی۔ اس کمرے میں اس طرح کا انتظام نظر نہیں آرہا تھا کہ جیسا لندن کے ہوٹل میں تھا۔ انٹرکام پر کسی طرح جب میں بات نہ سمجھا سکا اور نہ وہ میری رنگریزی (انگریزی) سمجھ سکا، تو وہ کمرے میں آگیا۔ میں نے اس کو کسی طرح یہ باور کراہی دیا کہ مجھے چائے چاہیے۔ اب وہ اشتہار تو اس وقت چلنا نہیں تھا کہ کون سی جناب؟ لپٹن ہی تو ہے۔ خیر وہ ایک کپ میں جو مشروب لایا اسے میں نہ پہچان سکا۔ بس شکل سے غالباً ترکی چائے لگ رہی تھی اور ہم زبان کی طرح اس چائے کو بھی سمجھ نہ پائے حلق سے اتار نہ پائے، بس 2گھونٹ پی کر مطمئن ہوگئے۔ صبح ہوئی تو ناشتہ تیار تھا جو بہت مناسب تھا، تاہم اشیا کے حلال اور ملک کے برادر اسلامی ہونے کی وجہ سے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہوا۔ اس کے بعد باہر نکل کر زبردست نظارہ دیکھا۔ گو کہ اوس شبنم بھی اس پر حاوی تھی، مگر جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا کچھ نہ کچھ سجھائی دیتا ہی گیا۔ 2کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا قریب ترین سیاحتی علاقہ بہت ہی تاریخی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ ایسے نہیں چلے گا۔ دوپہر کو واپس اس جگہ آکر شام تک اس کی ایک ایک عمارت کو دیکھنا بھی ہے اور معلومات بھی حاصل کرنی ہے۔ اس لیے سہ پہر کو نکل کر بازار، تاریخی نواردات، مساجداور دیگر اہم مقامات کو دلچسپی سے دیکھا اور نماز عصر و مغرب بھی ادا کی۔
3 روز قیام کے دوسرے روز ٹورسٹ کمپنی کے ایک منیجر مل گئے جو سمجھ گئے کہ یہ پاکستان سے آئی ہوئی مخلوق ہے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کا یہ انداز بتا رہا ہے کہ اسے کسی شے کی تلاش ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں ؟ میں نے کہا کہ یہ ٹرام جو میرے سامنے سے آبھی رہی ہے اور جا بھی رہی ہے، اس پر بیٹھنا چاہتا ہوں اور شہر کے بازار کی سیر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ٹکٹ لینے کی جگہ نظر آرہی ہے اور نہ ہی یہ پتا چل پارہا کہ کیا کرنا ہے اور نہ ہی کوئی انگریزی میں کسی عبارت سے پتا چل رہا ہے۔ موصوف نے کہا: نو پرابلم میں ٹورسٹ کمپنی میں منیجر ہوں، چھٹی تو ہوگئی ہے، لیکن میرا فرض ہے کہ آپ کو استنبول کی سیر کرانے کے لیے ٹور کمپنی کے آفس لے کر جاؤں۔ تاہم آپ ٹرام پر بیٹھ کر تو صرف تھوڑا بہت دیکھ پائیں گے، مگر یہ یورپی حصہ ہے، جب کہ دوسرا حصہ ایشیا میں ہے، جہاں رات کو کروز (سیاحتی بحری جہاز) جائے گا۔ اس کا ٹکٹ لے لیں۔ اس میں ڈنر ہوگا اور بہت کچھ دیکھنے کو بھی ملے گا۔
اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ رابطے کا ذریعہ واٹس ایپ تھا۔ مقامی سم نہیں لی تھی، لہٰذا جہاں نیٹ دستیاب تھا صرف وہاں بات ہوسکتی تھی۔ خیر ڈرتا ڈرتا اس منیجر کے ساتھ ہو لیا کہ یہ ڈر پاکستان اور خصوصاً کراچی شہر میں ورثے میں ملا ہے، جس کو نا بھی چاہیں تو سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے۔ آفس تھوڑی سی مسافت پر تھا۔ انہوں نے استقبال کیا اور ٹکٹ بک کرلیا۔ رات 8 بجے روانہ ہونا تھا، جب کہ واپسی ساڑھے 12بجے تھی۔ مغرب کی نماز تاریخی جامع سلیمانیہ (نیلی مسجد) میں پڑھی اور واپسی پر آفس کا پتا بھول گیا۔ وہ تو شکر ہے کہ وزٹنگ کارڈ لے لیا تھا۔ کوئی بھی میری ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا نوٹس نہیں لے رہا تھا اور ایک شخص نے وہ کارڈ جو ترکی زبان میں لکھا تھا مجھ سے لے کر اس پر درج نمبر اپنے موبائل فون سے ملایا۔ جواب ملا کہ آپ کے ہوٹل کے 2چکر لگاکر آچکے ہیں، آپ کا کچھ پتا ہی نہیں۔ بہرحال اس نے مجھے وہیں کھڑا ہونے کو کہا اور واپس آکر سیر و تفریح کے لیے کھڑی اس سواری پر مجھے سوار کرادیا۔
کروز میں داخل ہوا تو ڈنر شروع ہوچکا تھا اور میں ان کی آخری سواری تھا۔ آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی سواری تھوڑی بہت ہلتی ہوئی بھی محسوس ہورہی تھی۔ حلال کھانے اور میزبانی پر مامور عملہ یقیناًقابل تعریف تھا، جو تھوڑی بہت انگریزی سے آشنا تھا۔ کھانے کی ڈشز بوفے کے طور پر سجی ہوئی تھیں اور ہر شے وافر مقدار میں تھی۔ تقریباً 4گھنٹے سمندری سیر کرنے کے بعد رات گئے ہوٹل پہنچا۔ گو کہ دوسرے روز متحدہ عرب امارات کو روانگی تھی، لیکن صبح تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے ایک بکنگ اور کرالی۔ صبح ناشتے کے بعد گاڑی آگئی اور ایک ٹورسٹ گائیڈ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مختلف جگہوں پر لے گیا اور ان کے بارے میں بتاتا بھی رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم صرف اپنی زبان کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس کے بعد تھوڑی بہت عربی ۔ ہمارے معاشرے میں انگریزی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ پاکستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم اس کی بہت قدر کرتے ہیں، جب کہ ان ہی دنوں میں ہمارے صدر آپ کے ملک میں موجود ہیں۔ انہیں مقامات میں ایک ایسا اونچا مقام ہے جہاں قبرستان بھی ہے اور وہاں سے پورا ستنبول شہر نظر آتا ہے۔ نیز حضرت ابوایوب انصاریؓ کا مزار شریف بھی ہے قریب ہی مسجد کے ساتھ ہے۔وہاں اسکول کے بچے بھی آئے ہوئے تھے جنہیں اساتذہ وہاں کی تاریخ بتا رہے تھے ۔
nn