ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دین آسان ہے، لیکن جو اس میں سختی برتے گا، دین اسے پچھاڑ دے گا (اس کی سختی نہیں چل سکے گی)۔ اس لیے تمھیں چاہیے کہ سیدھی راہ پر چلو، میانہ روی اختیار کرو۔ لوگوں کو انعام کی نوید بھی دو اور صبح و شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینِ اسلام کو سہل و آسان قرار دیا ہے، کیونکہ دینِ اسلام فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے، اور اس میں ایسا کوئی حکم نہیں جس کو بجا لانے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ کوئی بھی ذی شعور انسان اپنے اردگرد اللہ کی نعمتوں کو دیکھتا ہے تو اسے بآسانی اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ اللہ نے اس پر کتنی نعمتیں نازل کی ہیں، وہ ان نعمتوں کا احساس کرتے ہوئے اُس کے سامنے جھک جاتا ہے اور اُس کے احکام کی بجا آوری میں لگ جاتا ہے۔ بسا اوقات اس طرح کا سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ دین پر چلنا مشکل ہے، یا پھر لوگ یہ بات پوچھتے پھرتے ہیں کہ آخر دین کے کس کس حکم پر عمل کیا جائے۔۔۔؟ ایسے افراد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے آغاز میں ہی اس بات کا اعلان کردیا کہ یہ دین بہت ہی آسان ہے، اور یہ کتاب متقیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے، یعنی اس کتاب سے ہر وہ شخص فائدہ حاصل کرکے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے جو ان ابتدائی باتوں پر عمل کرے۔ سورہ البقرہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بتادیا کہ زندگی کیسی گزارنی ہے، تاکہ جب تم مجھ سے ملو تو میں تم سے راضی ہوں اور تم مجھ سے۔ سورہ البقرہ آیت نمبر 3 اور 4 میں اس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ کو تم سے کیسی زندگی مطلوب ہے۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ تم لوگ غیب پر ایمان لاؤ۔ ہمارے لیے ہر وہ چیز غیب کا درجہ رکھتی ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے لے کر جنت جہنم، فرشتے اور تمام انبیاء ہمارے لیے غائب کا درجہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ان پر ایمان لاتے ہیں، ان کو برحق مانتے ہیں۔ ایمان اصل میں یقین کا دوسرا نام ہے، یعنی ہمیں اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جن کو ہم نہ تو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے، حق اور سچ ہیں، اللہ سے ملاقات کا بھی یقین ہے اور اس کے رحم وکرم سے جنت میں دخول کا بھی۔ ایمان کا اصل نتیجہ ہی یہ ہے کہ ان غیبی اشیاء پر پکا یقین ہوجائے۔ جس طرح ہم سورج کو دیکھتے ہیں عین اسی طرح ہمیں ان غائب چیزوں پر بھی ایمان ہونا چاہیے۔ یہی ایمان ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک جدوجہد کریں، اللہ کو راضی کرنے کی، اور اس کی جنتوں کے حصول کی۔ لیکن رب کو اور جنت (مستقبل) کو ہم نے دیکھا ہی نہیں، یہی مستقبل غیب ہے جس پر ہم ایمان لا رہے ہیں۔ جس طرح چھوٹی کلاس کے طالب علم کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ مجھے یہ کلاس پاس کرکے اگلی کلاس میں جانا ہے، حتیٰ کہ میٹرک یا ماسٹر کا امتحان پاس کرلوں گا، عین اسی طرح ہمیں ابھی جنت نظر نہیں آرہی لیکن ہمارا یقین ہے کہ ہم یہاں محنت کرکے جنت کو حاصل کریں گے اور وہیں رہیں گے۔ (ان شاء اللہ)
اس کے بعد نماز کا حکم ہے کہ ایک مومن نماز بھی ادا کرتا ہے۔ نماز سے مطلب قیام، قعدہ، رکوع و سجود ہے، جہاں ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ’’تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ (البقرہ 152)۔ ذرا اس کے ذکر کا اندازہ تو کریں، وہ ہمارا ذکر فرشتوں کی مجلس میں کرتا ہے، یعنی سب سے عظیم مجلس۔۔۔ کتنا بڑا ذکر و اعزاز ہے۔ یہ سب ہم نماز میں سیکھتے ہیں۔ لیکن اب نماز میں کس طرح کھڑا ہونا ہے، افعال کس طرح ادا کرنے ہیں، اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمارے سامنے ہر وقت یہ مستحضر ہونا چاہیے کہ ہم اس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں، جو دلوں میں چھپے بھیدوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ نماز درحقیقت بندے اور رب کے مابین گفتگو ہے۔ اسی طرح ہم آگے کی منازل طے کرتے جائیں گے اور اللہ اپنے کمالات ہم پر عیاں کرتا چلا جائے گا، جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مُردوں کو زندہ کرکے دکھایا۔ یہ عمل اُس وقت ہوسکتا ہے جب ہماری نماز ایسی ہو کہ ہردو نمازیں درمیان کی غلطیوں کا کفارہ اور معافی کا ذریعہ بن رہی ہوں۔ مثلاً ظہر کی نماز میں ہم نے اللہ سے وعدہ کیا کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اب جب ہم عصر میں حاضر ہوں تو ذرا اس وعدے کو دہراتے ہوئے اس کا احساس کریں کہ کیا ہم نے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔۔۔؟ پھر دل سے اظہارِ ندامت کے ساتھ یہ الفاظ نکلیں کہ اے اللہ! ہم سے نادانی میں کچھ غلطیاں ہوگئیں، بے وقوفیاں ہوگئیں، لیکن تیری رحمت بہت وسیع ہے، ہماری کمی اور غلطیوں سے درگزر فرما اور رحم کا معاملہ فرما۔ جب ہماری نماز اس طرح کی ہوگی تب ہی ہمارے لیے فائدے مند ہوگی۔ اللہ ہمیں ایسی نمازیں ادا کرنے والا بنائے۔ آمین
یہاں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ متقی لوگ ایمان دار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ کسی اور کی چیز کو اپنی چیز نہیں بتاتے اور نہ ہی قبضہ کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اللہ کی نعمتوں کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ سب پھل، رزق، چاند، تارے، پانی اسی کے ہیں۔ وہ اللہ کی کسی نعمت کو بھی اپنے سے منسوب نہیں کرتے۔ وہ نہیں کہتے کہ یہ باغ میرا ہے، یہ فصل میری ہے، یہ گائے میری ہے، یہ پیسہ میرا ہے۔ میں اسے دوسروں کو کیوں دوں۔۔۔! متقی یہ نہیں سوچتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی ان کو رزق دیا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ لوگوں میں بانٹتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے، ’’اپنے کمائے ہوئے مال‘‘ کو دوسروں کو دینا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جس نے یہ کرلیا اُس کے لیے اللہ تعالیٰ خود ہی دروازے کھول دے گا اور اس کے لیے نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ ایسا بھی نہیں کہ آج میں نے یہ کام کیا اور کل ہی میرے حالات بدل جائیں۔ بلکہ یہ کام تو اسی وقت ہوگا جب اوپر والا چاہے گا، جب اس کی رضا ہوگی، جب ہمارے امتحان کا ایک مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ اب یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر خرچ کس پر کریں۔۔۔؟ استادِ محترم اس بات کا سادہ سا جواب دیتے ہیں کہ جو اللہ کی راہ پر چل رہے ہوں اور ان کے لیے کچھ پریشانیاں یا رکاوٹیں ہوں ان کی مدد کریں۔ اس کے علاوہ اپنے آس پاس کے غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی بھی مدد کرسکتے ہیں۔ اشفاق احمد کے باباجی تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ دیتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ صحیح شخص کو دے رہا ہوں یا غلط۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ جو آپ نے غلط طریقے سے کمایا ہے وہ اس طرح برابر ہوجائے۔ اس کو قرآن مجید کی ایک مثال سے سمجھیں، خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! اس گھر کے لیے آنے والوں کو پھل اور کھانے کی اشیاء فراہم کر۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں انہیں بھی دوں گا جو میرے راستے پر ہیں اور انہیں بھی تھوڑا سا دوں گا جو میرے راستے پر نہیں۔ اس لیے ہمیں اس بات کا ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے جو اسے دیا، وہ اس سے غلط کام کرے گا، شر کرے گا، شراب پیے گا۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ اس عمل سے اُس کے دل میں ہمارے لیے محبت پیدا ہوجائے اور اسی محبت کے جذبے میں وہ تبدیل ہوجائے۔ اللہ کا بھی یہی نظام ہے، وہ تو ہمیں اپنے گناہوں کے باوجود دے رہا ہے۔ دینے کے معاملے میں ترجیح اللہ کی راہ پر چلنے والے ہی ہونے چاہئیں تاکہ ان کے لیے اس راہ پر چلنے کو آسان بنایا جاسکے۔
استادِ محترم باباجی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے لیے اس طرح خرچ کرنا مشکل لگ رہا ہو، تو اسے کسی ولی کا ہاتھ تھام لینا چاہیے (یہاں ولی سے مراد ظاہری صورت ہرگز نہیں، ولی تو ہر لباس اور ہر حال میں نمایاں ہوتا ہے، بس جو اللہ کے احکامات پر عمل اور اللہ کے بندوں سے محبت کرکے ان کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہو، وہی ولی ہے)۔ جب وہ ولی کو لوگوں کے مابین بانٹتا دیکھے گا کہ وہ تو بانٹ بھی رہا ہے اور اس کے لیے کوئی کمی بھی نہیں ہورہی تو یہ دیکھ کر اس شخص کے دل میں بانٹنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی انفاق پر حوصلہ افزائی کرتے۔ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کے انفاق کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کیسے خرچ کیا جائے؟ اس کا جواب سادہ سا ہے جو اللہ کے ولیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا کہ اپنی ضروریات میں کمی کریں تو انفاق کے لیے خودبخود راستے کھل جائیں گے۔ دوسروں کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی تکمیل اصل میں بے شرمی ہے۔ حقیقی حیا اور شرم والا وہی ہے جس میں بھوکے اور نادار افراد کے لیے احساس پیدا ہو، اور ان کے لیے خوراک اور ضروریات کی فراہمی کی کوشش کرے۔
یہ تمام کام کرکے ہی انسان کا دل مطمئن ہوسکتا ہے۔ کیونکہ جب تک وہ ان کاموں کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا نہ دیکھ لے، اسے عجوبہ ہی تصور کرتا رہے گا کہ یہ تو ناممکن ہے، جیسا کہ اہرام مصر کی تعمیرات۔۔۔ انسان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیسے بنایا گیا ہے! انسان کو اطمینان اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب وہ اس کام کو خود ہوتا دیکھے یا ماضی میں اس کام کے ہونے کے ثبوت موجود ہوں۔ اور بحمداللہ ماضی اور حال میں ایسی مثالیں موجود ہیں، بس کوتاہی تو ہماری نظروں اور عمل میں ہے۔ (از افادات، دروس ڈاکٹر مولانا ساجد جمیل)
nn