رائی ہو تو آپ ضرور اس کا پہاڑ بنائیں، لیکن سراسر جھوٹ کی بنیاد پر ردا نہ چڑھاتے جائیں۔ کیا ناک بھویں چڑھا کر منہ ٹیڑھا کرکے حقارت اور بدتمیزی سے چیخنے کو ’’دانش وری‘‘ کہتے ہیں ؟ جناب حسن نثار صاحب نے اجتماعی فائدے کے لیے ایسا کون سا کام کیا ہے، جس کے عوض وہ ہر وقت سب کو ڈانٹتے رہتے ہیں۔ حقارت، تضحیک، تکبر جناب حسن نثار کا تعارف ہیں۔ وہ ان ہی سارے اجزا سے گندھی ہوئی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو پاکستان میں کیو ں رکھوں؟ پاکستانی معاشرے کی غلاظت سے تو تعفّن اُٹھ رہا ہے، جناب حسن نثار علامہ اقبالؒ کو گلی محلے کا نچلے درجے کا شاعر قراردیتے ہیں اور نیوٹن کو صحابہؓ کے برابر سمجھتے ہیں۔ اگر جناب حسن نثار کے یہی خیالات ہیں تو اُنہیں پاکستان چھوڑ کر نیوٹن کے دیس میں جاکر اُس کی قبر کا مجاور بن جانا چاہیے، وہ پاکستان میں رہ کر بدتہذیبی اور مایوسی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہں کرتے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔ وہ محض ایک بڑی تنخواہ اور اسکرین پر نمائش کے لیے پاکستان کی خاک میں اپنے آپ کو کیوں رول رہے ہیں، کیوں تعفّن زدہ معاشرے سے اُٹھنے والی بدبو میں ہر لحمہ غسل کر رہے ہیں؟
جناب حسن نثارکوسن کر اندازہ ہوتا ہے کہ منافقت اور خود غرضی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ ایک طرف وہ فرماتے ہیں کہ اُنہیں روئے زمین پر قاضی حسین احمد جیسا مومن نظر نہیں آتا، اپنی بیٹی کے کان میں اذان دینے کے لیے اُنہیں قاضی حسین احمد سے زیادہ موزوںآدمی نہیں ملتا۔ وہ قاضی صاحب کے اس دُنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی بیٹی کی پشت پر ان کا عکس پہرے دار کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ کیا بات ہے، قاضی حسین احمد دُنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی جناب حسن نثار کی بیٹی کے محافظ ہیں اور اُسی قاضی حسین احمد کی بیٹی پر حملہ آور ہونے والوں کی پشت پرجناب حسن نثار کھڑے ہیں۔ ہمیں اپنی ماں بہنوں اور بیٹیوں کی حفاظت کے لیے کسی کی ضرورت نہیں، لیکن جناب حسن نثار اپنا مقام طے کریں کہ وہ کس کی حمایت کررہے اور محض زبان کے چٹخارے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے کیا فرما رہے ہیں؟
ہمارے دانش ور پاکستانی معاشرے کے زوال پر ماتم کناں ہیں، لیکن چاہتے یہ ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بھی بے لگام آزادی ہونی چاہیے۔ یا تو ان کا ماتم جھوٹا ہے یا اس معاشرتی زوال کے سامنے سینہ سپراسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی کا مطالبہ نادانی اور شیطان کا بہکاوا ہے، ہماری درس گاہوں میں صورت خراب ہے۔ اسکولوں میں لڑکے اپنی خاتون ٹیچر سے اظہار عشق کررہے ہیں، ٹین ایجر طلبہ و طالبات عشق میں ناکامی پر اجتماعی خود کشی کررہے ہیں، دوسری طرف ہمارے دانش ورں یہ کہنا ہے کہ جامعہ پنجاب میں لڑکا لڑکی کو ایک ساتھ بیٹھنے سے روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طلبہ اور طالبات کے اختلاط کو روکنے کی مخالفت کرنے والے اپنے زمانہ طالب علمی میں کُھل کر نہیں کھیل سکے ہیں، لہٰذا اپنی محرومی کا انتقام وہ آج بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے لینا چاہتے ہیں۔
جناب حسن نثار کہتے ہیں کہ مجھے اپنی بیٹی کو جامعہ پنجاب بھیجتے ہوئے اس بات کا اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ موجود ہے۔ اگر جناب حسن نثار کی بیٹی جامعہ سے تعلیم مکمل کرچکی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جناب حسن نثار آج جامعہ پنجاب میں پڑھنے والی بیٹیوں کے سر اسلامی جمعیت طلبہ کے تحفظ کا سایہ چھین لینے کا کام شروع کردیں۔
لڑکا ہو یا لڑکی، اُن کے والدین اُنہیں پڑھنے کے لیے تعلیمی ادارے میں بھیجتے ہیں، راہداریوں، لابیز اور کونے کھدرے میں چونچ لڑانے کے لیے نہیں بھیجتے، لیکن یہ دانش ور الزام ایسے لگاتے ہیں کہ جیسے طلبہ اور طالبات کو کلاسز اٹینڈ کرنے سے روکا جارہا ہے یا لائبریری میں جانے سے روکا جارہا ہے۔ کوئی مسجد میں جاکرگانا شروع کردے اور شراب خانے میں جائے نماز بچھا کر باجماعت نماز پڑھانا شروع کردے تو اسے شرپسندی ہی کہا جائے گا۔ تعلیمی ادارے تعلیم کے لیے ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں تعلیم ہی پر وقت لگانا چاہیے۔
اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے حوالے سے گاہے بہ گاہے کوئی نہ کوئی قضیہ کھڑا کردیا جاتا ہے اور اسلام بیزاروں کو بہانہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی عناد نکالیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ہفتے ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پختونوں کا کلچر ڈے ہورہا تھا، جس کو اسلامی جمعیت طلبہ نے بزور روکنے کی کوشش کی۔ خبرکا آنا تھا کہ ٹی وی نے جمعیت کو بلا تحقیق مجرم قرار دے دیا۔ رانا ثناء اللہ، امیتاز عالم، حسن نثار اور دوسرے جمعیت کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ فرض کرلیں کہ جمعیت پر الزام درست ہے توکیا یہ جرم اتنا بڑا تھا کہ اس پر پابندی لگا دی جائے؟ اس فارمولے کے تحت مراد سعید کے ایک مکے کے بعد قومی اسمبلی کو بھی ختم کردینا چاہیے، یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ کلچر ڈے کا مقصد کیا ہے اور اُس کی حدود کیا ہیں اور یہ ڈے کہاں منانا چاہیے؟ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ لسانی گروہ اپنے تسلط کا جھنڈا گاڑھنے کے لیے کلچر ڈے کا سہارا لیتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لسانی گروہ اپنے کلچر کو سب پر مسلط کرنا چاہے اور سب اُسے قبول کرلیں؟
ہمارا مشترکہ کلچردین اسلام ہے، لہٰذا اگر قومی ہم آہنگی پیدا کرنا مقصد ہے تو اسلام جن تقریبات اور ایام منانے کی ہدایت دیتا ہے، وہ ایام اور تقریبات کسی بھی جگہ اور کسی کو بھی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن جو ایّام اور تقریبات لسانی اور دیگر بنیادوں پر ہوں، وہ اپنے اپنے علاقے میں منائے جانے چاہئیں۔
پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی قریب ایک ہی وقت میں قائم ہوئیں۔ اپنے قیام کے پہلے روز سے ان دونوں تنظیموں کا نظم و نسق یک سر علیحدہ ہے، نظریات، خیالات اور مقاصدکے حوالے سے جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں ہم آہنگی ضرور ہے، لیکن یہ ہم آہنگی بلکل ایسی ہی ہے، جیسے حج کے موقع پر تمام مسلمان ایک ہی مقصد لیے مکہ میں جمع ہوتے ہیں، لیکن سب اپنے اپنے ملک کے پاسپورٹ پر سعودیہ عرب کا ویزہ لگا کرآتے ہیں اور واپس اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ جاتے ہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا سربراہ ناظم اعلی ہوتا ہے، جو ہر سال انتخاب کے ذریعے چُنا جاتا ہے۔ یہ منتخب ناظم اعلی منتخب شوری کی مشاورت سے جمعیت کے انتظام کو چلاتا ہے۔
اسی طرح جماعت کا سربراہ امیر ہوتا ہے، وہ بھی منتخب ہوتا ہے اور جماعت کا امیر بھی اپنی منتخب شوری کے مشورے سے جماعت اسلامی کا نظم ونسق چلاتا ہے، جمعیت کا سربراہ الگ، اُس کی شوری الگ، جماعت اسلامی کا سربراہ الگ، اُس کا فیصلہ ساز فورم یعنی شوری الگ پھر نادانوں کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ جماعت اسلامی کی آلہ کار ہے۔ سچ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں سے کوئی کسی کا آلہ کار نہیں، بلکہ دونوں کا اعزاز یہ ہے کہ وہ دونوں اللہ کی آلہ کار ہیں۔
ممکن ہے ناقدوں کو اسلامی جمعیت طلبہ سے آگاہی نہ ہو، اُن سے عرض ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ ماں باپ کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ جمعیت کا کام اسکول کے زمانے سے ہی ’’اچھے ساتھی‘‘ کے نام سے شروع ہوجاتا ہے، طلبہ و طالبات عموماً میٹرک یا انٹر کے زمانے میں جمعیت سے متعارف ہوتے ہیں۔ اس عمر میں اُن کی اپنی مصروفیات اور مشاغل شروع ہوجاتے ہیں، نئے دوست بن جاتے ہیں۔ لہٰذا، بچے کی مصروفیات کیا ہیں، وہ کہاں جاتا ہے، کن لوگوں سے ملتا ہے ماں باپ کو اس کی کم خبر ہوتی ہے۔ اس عمر میں اگر بچہ جمعیت سے جُڑجائے تو یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ وہ کسی غیر اخلاقی کام میں نہیں لگے گا۔ اُس کی مصروفیات مذہبی، نصابی، سماجی علوم کے مطالعے اور اسٹڈی سرکلز پر فوکس ہوجاتی ہیں۔ مساجد میں شب بیداری، زیارت قبور، مطالعہ قران وحدیث اور دینی و اخلاق کو سنوارنے والا لٹریچر، جس کا اس عمر میں تصور بھی نہیں کیا جاتا، جمعیت کے نوجوانوں کا یہ معمول ہوتا ہے۔
والدین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک نئی صورت حال یہ ہوئی ہے کہ اچھے گھروں کے بچے نشے کی عادت میں مبتلا ہورہے ہیں، میڑک سسٹم کا بچہ سستا نشہ کررہا ہے اور کیمرج کا بچہ مہنگا نشہ۔ نشہ کرنے والے اور نشے کے بارے میں سماجی و نفسیاتی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ یہ عادت صحبت سے لگتی ہے اور پندرہ سے بیس برس کی عمر میں بچہ اس عادت میں مبتلاہوتا ہے۔ یہی عمر بچے اور والدین میں دوری کی ہوتی ہے، ایسے میں اسلامی جمعیت طلبہ سائے کی طرح نوجوانوں کو غلط کاموں سے بچاتی ہے۔ نادانوں کے مطالبے پرآج جمعیت پر پابندی لگا دی جائے تو آئندہ دس برسوں میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نشہ کرنے والوں کی تعداد دُگنی سے زیادہ ہوجائے گی۔
ہمارے ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کا تحریری دستور نہیں ہے، لہٰذا ان طلبہ تنظیموں کا کیا ہوگا؟ جب کہ اسلامی جمعیت طلبہ کا تحریری دستور بھی اور یہ دستور محض ایک خاموش کتاب نہیں بلکہ اس کو سمجھنے کے لیے باقاعدہ کلاسز بھی ہوتی ہیں، اس دستور پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں، وہ ایک دفعہ ضرور اس دستور کو پڑھ لیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ نہ پختونوں کی جماعت ہے اور نہ پنجابوں، مہاجروں اور بلوچوں کی ہے بلکہ اس میں ہر زبان کے لوگ شامل ہیں، لہٰذا مہاجروں کے شہر میں پٹھان اور پنجابی شہر کا ناظم بن جاتا ہے اور پنجاب کی عددی اکژیت کے باوجود مہاجر پورے پاکستان کی جمعیت کا سربراہ بن جاتا ہے۔ ناظم اعلی، معتمد عام(جنرل سیکڑیری) شوری، ارکان ہفتہ وار ، ماہانہ، سالانہ اجتماعی ادارے نہیں تو اور کیا ہیں۔۔۔جو یہ دانش ور ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی کسی سیاسی اور طلبہ تنظیم کے کتابوں کی اشاعت کے ادارے قائم ہیں؟ اسلامی جمعیت طلبہ میں یہ کام ادارہ مطبوعات طلبہ کرتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری، ایڈمیشن کمپین، بک فیئر، تعلیمی ادارے کے دفتری کاموں میں طلبہ کی مدد، اہم ملکی معاملات میں طلبہ کی ذہن سازی، اس جیسی اور بہت سی سرگرمیاں اسلامی جمعیت طلبہ سرانجام دیتی ہے، اتنے سارے مثبت کاموں کو ایک طرف رکھ کر ایک دم پابندی کا مطالبہ کردینا کہاں کا انصاف ہے۔
آپ کو کوئی بھلا آدمی نظر آئے تو اُس کے بارے میں تحقیق کر دیکھیں، اُس کا تعلق اسکول یا کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے ضرور رہا ہوگا۔ وہ اچھا آدمی خواہ اب مالی، سیاسی مفاد کی وجہ سے یا برادری وغیرہ کی بنا پر کسی بھی جماعت میں ہو۔
موضوع اسلامی جمعیت طلبہ ہے، لہٰذا اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ لڑکیوں کے شعبے میں اتنے ہی اچھے کاموں کے ساتھ مزید اچھے کام اور جوڑ لیں تو آپ کو اسلامی جمعیت طالبات نظر آئے گی!!