(دلسبتان کراچی کا نیعتہ منظر نامہ(صبیح رحمانی

613

ان اشعار میں علو تخیل بھی ہے، زبان و بیان کا حسن بھی ہے، اقدارِ عالیہ سے وابستگی بھی ہے اور وہ مقصدیت بھی جو ادب کو زندگی کا آئنہ نہیں بلکہ رہنما بناتا ہے۔ ان اشعار میں آپ کو زبان کی حدود میں توسیع بھی نظر �آئے گی مثلاً نام کو ثنا قرار دینا، مدینہ منورہ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی اونٹنی کی نسبت سے ناقۂ ہستی جیسی ترکیب اور پھر اظہار کی یہ وسعت کہ جمیل نقوی نے فارسی کے معروف شعر کو ترقی دے کر کہاں پہنچا دیا ہے:
حسن یوسف دم عیسیٰ، ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
دبستانِ کراچی کے متعدد شعرا ایسے بھی ہیں جنھو ں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نعت کے لیے وقف کردیا اور دوسری کسی صنف سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ یقیناًیہ ان شعرا کا نعت اور ذاتِ رسالت پناہ سے اخلاص کا معاملہ ہے۔ ایسے شعرا کے ادبی مقام و مرتبے کے تعین کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔ ایسے شعرا کی اکثریت عوامی اجتماعات میں عوامی لب ولہجہ میں مکالمے کا ہنر جانتی ہے۔ ان کی شعر گوئی درحقیقت تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے جس سے وہ عشقِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور کمالات واوصافِ ختم المرسلیں کو عوام میں پیش کر کے ان میں ایمان کی حرارت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے شعرا کی شہرت، مقبولیت اور نیک نامی کا دائرہ تو عام شعرا کے دائرہِ تعارف سے کہیں زیادہ وسیع ہوجاتا ہے مگر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی پرکھ ادبی معیارات پر نہیں ہو پاتی۔ اس لیے وہ صرف اپنی عوامی مقبولیت کے باعث زندہ رہتے ہیں۔ ادیب رائے پوری، قمرالدین احمد انجم، خالد محمود خالد نقشبندی، سکندر لکھنوی، ریاض سہروردی، محمد الیاس عطار قادری کا شمار ہمارے ایسے ہی مقبول عام شعرا میں ہوتا ہے کلام کی سادگی اور عشق کی شدت و حدت کے باعث یہ شعرا عوامی سطح پر عالمی شہرت رکھتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں :
بس ایک رات کا مہماں انہیں بنانے کو
زمیں سے عرش نے کی ہوں گی منتیں کیا کیا
(ادیب رائے پوری)
اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکنے کی صدا آتی
یہ دل کھویا ہوا ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں
(خالد محمد خالد نقشبندی)
مقام شکر ہے دل میں تمہاری یاد رہتی ہے
تمہارے ذکر سے یہ روح میری شاد رہتی ہے
(ریاض سہروردی)
ان کی چشم کرم کی عطا ہے میرے سینے میں ان کی ضیا ہے
یادِ سلطانِ طیبہ کے صدقے میرا سینہ ہے مثلِ نگینہ
(سکندر لکھنوی)
دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کی ایک خصوصیت اظہار کے طریقوں کا تنوع بھی ہے۔ نعت گوئی اپنی ہیئت کے اعتبار سے نہیں بلکہ روح کے اعتبار سے صنفِ سخن ہے۔ نعت، غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، مسدس، مخمس، مستزاد، سانیٹ، ثلاثی اور ہائیکو، ہر شکل اور ہر ہیئت میں لکھی جاسکتی ہے۔ غزل اُردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ اس لیے اسے نعت گوئی کے لیے بھی زیادہ استعمال کیا گیا ہے لیکن کراچی میں مثنوی، قصیدہ، رباعی، نظم آزاد اور ہائیکو کو بھی نعت گوئی کے لیے خوب صورتی سے برتا گیا ہے۔
اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب نعت اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاعروں کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ جو شاعر جس صنف کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اس کو محبوب خالق و مخلوق کے ذکر سے روشن کرتا ہے۔ 1964ء میں سیّد ابوالخیر کشفی نے قصیدہ بردہ کے مفاہیم کو نظم آزاد میں پیش کیا۔ اس کے بعد قمر ہاشمی کی طویل نظم ’’مرسل آخر‘‘ شائع ہوئی جس میں پابند حصوں کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کا بھی استعمال ہوا۔ غالباً ایسی پہلی نظم (صلصلہ الجرس) عمیق حنفی کی تھی جو ہندوستان سے شائع ہوئی۔ نظم آزاد میں سحر انصاری، صہبا اختر، ثروت حسین، سلیم کوثر، جاذب قریشی، شبنم رومانی، اطہر نفیس، محمود شام، سرشار صدیقی، حمیرا راحت، سعید وارثی سمیت متعدد شعرا نے بھی خوب صورت نعتیں پیش کی ہیں۔
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر میرے علم کی حد تک نعتیہ دوہے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا ہے۔ ویسے اس سلسلے کو عرش صدیقی نے وسیع ترکر دیا ہے۔ کراچی میں جمیل عظیم آبادی نے تواتر سے نعتیہ دوہے کہے ہیں۔ اس طرح دوہے کی صنف میں بھی نعت گوئی کا رجحان کراچی کی ادبی فضا کا حصہ بنا، لیکن میں اس بات پر اصرار نہیں کروں گا کہ اس کا آغاز کراچی سے ہوا ، تاہم یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ ہائیکو کا فروغ 1981ء میں کراچی کے ہائیکو مشاعرے سے ہوا اور بعدازاں یہ سالانہ مشاعرہ ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ اگرچہ پنجاب میں محمد امین صاحب وغیرہ اور دوسروں نے ہائیکو کو متعارف کرانے کے لیے کام کیا لیکن کراچی میں اس کے لیے فضا زیادہ سازگار ہو گئی۔ یہاں تابش دہلوی، محشر بدایونی اور ادا جعفری جیسے بزرگ شعرا نے پہلے ہی ہائیکو مشاعرے میں شرکت کی اور اسی مشاعرے میں شاہدہ حسن اور اقبال حیدر جیسے نوجوان شعرا بھی شریک ہوئے۔ یوں دبستانِ کراچی کے کئی شعرا نے نعتیہ ہائیکو کی طرف بھرپور توجہ دینی شروع کی۔ سرشار صدیقی، انجم اعظمی، محسن بھوپالی، مقبول نقش، شفیق الدین شارق، سہیل غازی پوری، سید معراج جامی، آفتاب کریمی، سہیل احمد صدیقی ، عزیز احسن، سلیم کوثر، اقبال حیدرسمیت بے شمار شعرا کے نعتیہ ہائیکو سامنے آئے ہیں۔
خوشبو کی مہمیز
تیرے قدموں کی آہٹ
صرف مدینے میں
(سرشار صدیقی)

ان کی گلی سے گزرا ہوں
اک عنوان بلاغت کا
اور کہاں پر اُگتے ہیں
(سید ابوالخیر کشفی)

دھڑکن ہو گئی تیز
ایک خطبہ ہے ہدایت کا
سورج سینے میں
(صبیح رحمانی)
کراچی میں نعت گوئی کے حوالے سے بعض اصناف کا احیا بھی ہوا ہے مثلاً کامل جونا گڑھی ،آرزو تبریزی، ڈاکٹر نعیم تقوی، صبا اکبر آبادی، فدا خالدی، رشید وارثی، سجاد سخن، حافظ عبدالغفار حافظ، ع س مسلم اور شوکت اللہ جوہر کے ہاں قصیدے میں خوبصورت نعت لکھی گئی۔ اسی طرح سیماب اکبر آبادی، ضیاء القادری، سیّد منیر علی جعفری، ماہرالقادری، سلیم احمد، ساقی جاوید، قمر ہاشمی، منظور حسین شور، رعنا اکبرآبادی،ادیب رائے پوری، محشر بدایونی،وحیدہ نسیم، سعیدہ عروج مظہر، ہادی مچھلی شہری، مسرور کیفی، وقار صدیقی اور عزیز احسن نے مثنوی کو ایک نئے انداز سے نعت گوئی کے لیے استعمال کیا ہے۔ قصری کانپوری، فدا خالدی دہلوی، جوش ملیح آبادی، نسیم امروہوی، آلِ رضا ، انصار الہٰ آبادی، تابش دہلوی، خالد عرفان، رحمان کیانی، محشر بدایونی، ضیاء القادری، لیث قریشی وغیرہ نے طویل و مختصر نعتیہ مسدس لکھ کر مسدس کی صنفی اور موضوعی روایت کو مضبوط کیا۔ رباعی ایک مشکل صنف ہے لیکن اس میں بھی نعتیہ موضوعات کر بہت خوبصورتی سے برتا گیا ہے، جس میں فدا خالدی، راغب مرادآبادی، شاعری لکھنوی، وقار صدیقی، صہبا اختر،رشید وارثی، شفیق الدین شارق، نگار فاروقی، اقبال شوقی اورصبا اکبرآبادی کے نام نمایاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فنی اعتبار سے دبستانِ کراچی کے شعرائے نعت نے نئی ردیفیں ایجاد کرنے کی سعادت بھی حاصل کی:
کوئی ان کے بعد نبی ہوا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
کہ خدا نے خود بھی تو کہہ دیا نہیں ان کے بعد کوئی نہیں
(حنیف اسعدی)
راحت دل سکونِ جاں یعنی
وہی غم خوارِ عاصیاں یعنی
(تابش دہلوی)
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
(صبیح رحمانی)
روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا
در پہ سرکار کے جانے والے گئے اور میں رہ گیا
(قمر وارثی)
میرے آقا کی ہے شان سب سے الگ
جیسے رُتبے میں قرآن سب سے الگ
(شاعر لکھنوی)
کیا شان ہے شانِ خیربشر انا اعطنا الکوثر
رحمت نے پکارا خود بڑھ کر انا اعطینا الکوثر
(ادیب رائے پوری)
قسمت کو چمکانے والے کیسے ہوں گے
آپ سے ہاتھ ملانے والے کیسے ہوں گے
(سلیم کوثر)
درِ نبی یہ ہے افضل خطاب آنکھوں سے
ٹپک بھی جا دلِ خانہ خراب آنکھوں سے
(سجا سخن)
خدا شناسی ،شریعت ،عمل،دعا سب کچھ
اسؐ ایک ذات نے ہم کو عطا کیا سب کچھ
(ماجد خلیل)
ذکرِ سرکارؐ ہوا جب سے ترانہ دل کا
ہر زمانہ ہے دھنک رنگ زمانہ دل کا
(اختر لکھنوی)
نعت میں کیسے کہوں انؐ کی رضا سے پہلے
میرے ماتھے پہ پسینہ ہے ثنا سے پہلے
(اقبال عظیم)
(جاری ہے)

حصہ