کتاب
:
’’رشوت‘‘
(بزبان سندھی)
مؤلف
:
ڈاکٹر بشیر احمد رِند
صفحات
:
380 قیمت 400 روپے
ناشر
:
مہران اکیڈمی واگنودر شکارپور
فون
:
0726-512122-520012
ای میل
:
mehranacademy@hotmail.com
دین اسلام کے نام پر حاصل کردہ وطن عزیز پاکستان میں رشوت جیسی لعنت کے بے محابہ فروغ پانے کے نتیجے میں ہماری معاشرتی اقدار جس بری طرح سے پامال اور متاثر ہوئی ہیں اور اس منحوس علت کے باعث جن اثراتِ بد ار قہر سامانیوں کا ہمیں آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ سرکاری دفاتر میں براجمان عما، سائل سے اس کے معمولی اور جائز کام کے لیے بھی جس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ رشوت کا تقاضا کرتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں خوفِ خدا یا ’’خوف قانون‘‘ اور مواخذہ سے کہیں بڑھ رک اپنے لیے آتش دوزخ جمع کرنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ دین کی تعلیمات کے یکسر برعکس ہونے کے باوجود ہمارے بیشتر سرکاری ملازم بہ خوشی ’’رشوت‘‘ کی غلاظت میں لتھڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انسداد رشوت ستانی کے لیے قائم کردہ سرکاری ادارے بذاتِ خود اسکے پھیلاؤ کا ایک اہم سبب بن چکے ہیں۔ اس ستم ظریفانہ صورت حال پر معروف طنز و مزاح گو شاعر مرحوم دلاور فگار کا یہ شعر ایک ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
زیر تبصرہ کتاب بعنوان ’’رشوت‘‘ اپنے موضوع پر سندھی زبان میں دلائل و براہین سے آراستہ ٹھوس علمی لوازمہ پر مشتمل ایک ایسی جامع تالیف ہے جسے لکھنے پر فاضل محقق ڈاکٹر بشیر احمد رند کو اگر داد نہ دی جائے تو یہ انآف کے خلاف ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں بہ طور استاد اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ پروفیسر قمر میمن ڈائریکٹر مہران اکیڈمی نے اس تحقیقی کام کی وقعت اور اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اشاعتی ادارے سے کتابی صورت میں اسے طبع کیا ہے۔
اس کتاب میں دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں رشوت جیسی سماجی برائی کا تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں حسب ذیل چھ ابواب مختلف عناوین کے تحت باندھے گئے ہیں اور ہر باب میں اس کے موضوع کے تحت فاضل محقق نے مدلل اور مفصل بحث کی ہے۔
باب اول: رزق کے بارے میں اسلامی تصور۔
باب دوم: رشوت اور اس سے متعلق اسلامی تعلیمات۔
باب سوم: روشت دینے کا مقصد اور رشوت دینے کی (حصول مقاصد کے لیے) شرعی حیثیت۔
باب چہارم: رشوت کے حوالے سے عوامی تاثر اور اس کا تنقیدی جائزہ۔
باب پنجم: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رشوت پر قابو پانے کے لیے اقدامات۔
باب ششم: رشوت کے نتیجہ میں کیے گئے فیصلے اور بہ طور رشوت وصول کردہ مال کی شرعی حیثیت۔
کتاب کے آخر میں ’’تحقیق کے نتائج اور تجاویز‘‘ کے زیر عنوان اس موضوع کی مناسبت سے بڑی اہم اور مفصل بحث الگ سے بھی کی گئی ہے۔ ان ابواب میں فاضل محقق ڈاکٹر بشیر احمد رند نے رشوت کی لعنت کے حوالے سے کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا ہے اور اپنی تحریر کردہ کتاب کے موضوع کا حق بڑی عمدگی سے ادا کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ثنا اللہ بھٹو سابق ڈین فیکلٹی، اسلامک اسٹڈیز سندھ
(باقی صفحہ 41)
یونیورسٹی، جامشورو کے کتاب پر کیے گئے تبصرہ سے ایک اقتباس:
’’آکٹر رند صاحب نے اپنی اس کتاب میں روشت پر کنٹرول کرنے کے لیے اسلام کے تربیتی اور تعزیری نظام کا مکمل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے رشوت کے متاثرین اور براہ راست رشوت کے کاروبار میں ملوث افراد سے بالمشافہ ملاقاتیں کر کے اور ان کے تاثرات حاصل کر کے اپنے اس مقالہ میں پیش کیے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں رشوت کے پھیلاؤ کے اسباب اور ان پر کنٹرول کرنے کے بارے میں کافی قیمتی معلومات میسر آگئی ہے۔
صاحب کتاب ڈاکٹر بشیر احمد رند نے اپنے تحریر کردہ ’’مقدمہ‘‘ میں موضوع کا تعارف، ضرورت، اہمیت اور افادیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اس تحقیق کے مقاصد بھی بیان کیے ہیں۔
کتاب کے مطالعے سے بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ فاضل محقق اپنے بیان کردہ ان مقاصد کے حصول میں بہ حسن کمال کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔
مہران اکیڈمی شکار پور نے اس مجلد کتاب کو اپنے روایتی اہتمام کے ساتھ عمدہ طریقہ سے سفید کاغذ پر شائع کیا ہے۔ سادہ مگر بامعنی سرورق کی حامل اس کتاب کی قیمت بھی مناسب رکھی گئی ہے۔ رشوت جیسے ناسور کے ہولناک اور خطرناک دنیاوی و اخروی مضمرات سے متعلق آگہی کے حوالے سے یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔
کتاب اس قابل ہے کہ اس کا اردو اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔