ہمارا استاد ناقص ہے اور ہمارا بچہ ذہین ہے
اچھا اسکول وہ ہے جو خود سیکھتا ہو
فرائیڈے اسپیشل: تعلیم اور تعلّم آپ کا اوڑھنا بچھونا ہے، اگر آپ سے پوچھا جائے کہ علم کیا ہے، تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
“Teaching is an invitation to a life of sanity, humanity and nobility”
یعنی علم کے حصول کا مقصد زندگی میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ علم کا مقصد انسانیت کو قائم رکھنا ہے۔ علم وقار اورا قدا ر ہے۔ علم کی ان تین قدروں کے باعث زندگی خوشگوار رہتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ کے خیال میں پاکستان میں تعلیم کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
عباس حسین: پچھلے بیس برسوں میں پینتالیس ہزار اساتذہ کو دیکھ کر اور اُن کی تربیت کرکے جو رائے میں نے قائم کی، وہ یہ ہے کہ ’’ہمارا استاد ناقص ہے اور ہمارا بچہ ذہین ہے‘‘۔ تو جب ذہین بچہ ناقص اُستاد کو ناقص انداز میں پڑھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اپنے ذہن میں چھ سات سال کی عمر میں ہی ایک بات اچھی طرح بٹھا لیتا ہے کہ زندگی میں خواہ کچھ بھی ہوجائے لیکن میں تجھ جیسا نہیں بنوں گا۔ لہٰذا بہترین ذہن تدریس کا شعبہ (ٹیچنگ) اختیار ہی نہیں کرتے، اور یہ اسی کا خمیازہ ہے جو ہم بحیثیت قوم بھگت رہے ہیں۔ اب آپ اگر اس حوالے کو پھیلاتے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم (پرائمری)سے ہی بچہ خود کو ٹیچنگ کے پیشے سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح سیکنڈری ایجوکیشن سسٹم (ثانوی تعلیمی نظام )میں بھی بے شمار مسائل موجود ہیں۔ نصاب سے لے کر درسی کتاب اور دیگر مسائل نے ہمارے بچوں کو تعلیمی نظام سے بدظن کردیا ہے۔ ہمارا ہائیر ایجوکیشن سسٹم (اعلیٰ تعلیمی نظام )بھی مختلف مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ سیاست کا مسئلہ ہو یا امتحانی نظام کا، یا پھر اساتذہ کی ناکارہ حرکتیں۔۔۔ ایسے میں نئی نسل صرف یہی سوچتی ہے کہ تعلیمی اداروں کا مقصد ڈگری کی صورت میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے انھیں تعلیمی اداروں میں جانا پڑتا ہے۔ اور پھر مسائل مزید تب پروان چڑھنے لگے جب ہم نے سند یافتہ اور تعلیم یافتہ کو ایک مانا۔ جبکہ ایک سند یافتہ شخص تعلیم یافتہ نہیں ہوتا۔ اور یہی ہمارے ملک اور تعلیمی نظام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: تعلیم کی مثلث استاد، طالب علم اور نصاب سے مکمل ہوتی ہے، جبکہ آپ کے نزدیک ہمارے تعلیمی اداروں کے مسائل کی واحد وجہ اساتذہ کی ناقص کارکردگی ہے؟
عباس حسین: نہیں، ناقص اساتذہ تو گویا ایک الگ بلکہ اہم نقطہ ہے۔ پرائمری ایجوکیشن کے وقت بچے کی عمر بہت کم ہوتی ہے لہٰذا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس وقت اس بچے کو نصاب میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ پرائمری ایجوکیشن کی عمر میں بچے کو جس ماحول میں بھی ڈھالا جاتا ہے وہ اس ماحول میں ڈھل جاتا ہے۔ لہٰذا یہ استاد کا فرض ہے کہ وہ تعلیمی نظام کو مختلف مسائل سے بچانے اور طالب علم کی جائز صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ان تھک کوشش کرے۔ لیکن اگر استاد ناقص ہے تو اس کا اثر طالب علم کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپکیا سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کے اثرات تعلیمی نظام پر کیسے ہونے چاہئیں یا ہیں؟
عباس حسین: تعلیمی نظام کے جملہ امور میں اساتذہ کے اثرات سینٹرل ہیں۔ ناقص اساتذہ کو بہترین درسی کتاب بھی دے دو تو وہ اس کتاب کا ستیاناس کردیتے ہیں۔ لیکن اگرکسی بہترین استاد کو کوئی کمتر کتاب بھی دے دی جائے تو وہ اس کتاب میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ بات گھوم پھر کر پھر استاد کی کارکردگی پر آکر رک جاتی ہے کہ اگر استاد اپنی مثبت صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرکے بچے کا دل جیت لیتا ہے تو پھر بچہ بھی علم کے حصول کے لیے دن رات کوششوں میں لگ جاتا ہے۔ لیکن اگر استاد نے اپنی ناقص کارکردگی سے بچے کو بدظن کردیا تو اس کا اثر تاحیات بچے کی ذہنی صحت پر نمودار رہتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بالآخر تعلیم کا حصول انسانی روابط، محبتوں اور شفقتوں سے ہی ممکن ہے۔ اگرچہ علم کے راستے میں دراڑیں موجود ہیں لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ناقص سے ناقص درسی کتاب بھی اچھے اساتذہ کے ہاتھوں سے جاکر بچے میں دلچسپی پیدا کردیتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک ماہر تعلیم کے طور پر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام بچے کو جدید دنیا کا حصہ بنانے کے لیے کارآمد ہے؟ یا جو بات ہمارا تعلیمی نظام بچے تک پہنچانا چاہتا ہے، اس میں کامیاب ہے؟
عباس حسین: جدید دور میں ہماری ترجیحات بگڑ گئی ہیں، یا آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں خود اس بات کا علم نہیں ہے کہ ہماری بہتری کس چیز میں ہے۔ معاشرے میں مختلف طبقات ہیں جن کی تمنائیں متفرق ہیں۔ ایک طبقہ اپنے بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ حافظِ قرآن بنانا چاہتا ہے، تو دوسرا طبقہ اُن لوگوں کا ہے جو اپنے بچوں کو جدید تعلیم کے حصول کے بعد ان کے روشن مستقبل کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے ہنر سکھا دو تاکہ میں اپنے روزگار کے مواقع خود تلاش کرسکوں۔ ہمارا تعلیمی نظام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں تعلیم کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔ اور تعلیمی نظام کی فکر وہ نہ ہمارے رہنماؤں میں موجود ہے اور نہ ہی عوام میں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے خیال میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہئیں؟
عباس حسین: میں اس بات کو مانتا ہوں کہ:
“Education should offer the children a chance to represent the best of humanity with the best of Role Models”
یعنی تعلیمی نظام کو اس طرح بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے کہ بچوں کے سامنے انسانیت کی بہترین مثالیں رکھ دی جائیں یعنی وہ لوگ جو ہمارے رول ماڈل ہیں۔ لہٰذا جب بچہ ان رول ماڈلز کی زندگیوں میں آنے والی مشکلات اور ان کی کاوشوں کا جائزہ لیتا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو مجھے میری جائز صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا بہترین موقع فراہم کرسکتا ہے۔ لہٰذا تعلیم ہی ہمارے بچوں کو ملک کی روشن مثالیں بننے میں مدد دیتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک پاکستانی بچے کا رول ماڈل کیا ہونا چاہیے؟
عباس حسین: ہر شعبے کا اپنا ایک الگ رول ماڈل ہوتا ہے۔ اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ رول ماڈل تو بے شمار لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی بھی ایک رول ماڈل ہیں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا کیونکہ یہ تو وہ عظیم ہستیاں ہیں جو ہماری زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے لیے رول ماڈل رہیں گی۔ لیکن آج بھی ہمارے شعبوں میں بے شمار لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں اپنا رول ماڈل تصور کیا جاسکتا ہے۔ اور جب طالب علم کو اپنے رول ماڈل کی کامیابی کے پیچھے ان کی انتھک محنت کا علم ہوتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ میرے ملکِ عزیز میں جتنے بھی مسائل کیوں نہ موجود ہوں میر ے رول ماڈل نے ان ہی مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ترقی کی، مجھے بھی تعلیم کی مدد سے ہی اپنی صلاحیتوں کو ملک و قوم کی ترقی اور بھلائی کے لیے اجاگر کرنا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس ملک میں تعلیم کے مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہماری تعلیمی پالیسی، نصاب، درسی کتابیں، اساتذہ کی کارکردگی یا پھر یہ سب؟
عباس حسین:تعلیمی پالیسی توکاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس پر تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے چند مختلف مگر خوبصورت الفاظ درج ہوتے ہیں۔ اسی طرح نصاب اس پالیسی کو ڈھالنے کا نام ہے۔ 2006ء میں پاکستان میں بچوں اور اساتذہ کے لیے ایک بہترین نصاب حکومت کی جانب سے ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔ لیکن افسوس آج اس بات کو گیارہ سال گزر چکے ہیں، ہمارے اساتذہ کو آج تک اس نصاب کی اہمیت کا علم نہ ہوسکا۔ یہ نصاب ایک ایسا علمی تحفہ تھا جس کے لیے مختلف ماہرین جمع ہوئے اور کور کمیٹی نے انتہائی لگن کے ساتھ ہمیں یہ تحفہ فراہم کیا۔ افسوس آج اس تحفے کا ہمارے اطراف میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ کے جی سے لے کر بارہویں جماعت تک ان تمام باتوں کا ذکر جو بچوں کی تعلیمی قابلیت کو بڑھائیں، ان کاغذات میں موجود ہونا ایک اعلیٰ بات ہے۔ لہٰذا مسئلہ نہ پالیسی میں ہے، نہ نصاب میں، اور نہ ہی درسی کتابوں میں۔۔۔ مسئلہ ہے تو وہ اساتذہ کا ہے، اور ساتھ ہی پالیسی پر عمل درآمد کا بھی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:اساتذہ کی بات ہوگئی کہ ان کا تعلیم میں بنیادی اور کلیدی کردار ہے، اسی پس منظر میں آپ ہمیں یہ بتائیے کہ ایک اچھا اسکول کسے کہتے ہیں اور اس میں کیا صفات ہونی چاہئیں؟
عباس حسین: اسکول میں تین صفات کو میں لازمی تصور کرتا ہوں۔
1۔ اسکول محفوظ ہو، یعنی کسی بھی بچے کو کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ ہو ۔ نہ اپنے ساتھیوں سے، نہ اپنے اساتذہ سے، نہ پٹائی کا، نہ ذلت کا۔
2۔ اسکول کی حدود اس کی دیواروں تک نہ ہوں۔ گویا اسکول اپنے محلے، علاقے، دوسرے شہروں اور ملکوں میں انسانی روابط اور علمیت کو خوش آمدید کہتا ہو۔
3۔ اسکول خود سیکھتا ہو۔ ہم نے سکھانے والے اسکول تو بہت دیکھے، لیکن اسکول خود کب سیکھے گا! یہاں میری مراد اس بات سے ہے کہ اسکول کے تمام کارکن چاہے وہ ملازمین ہو یا طالب علم۔۔۔ اسکول میں روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھ کر جائیں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ یہ بات جانتے اور مانتے ہوں گے کہ پاکستان میں طبقاتی تعلیمی نظام ہے۔ کیا مختلف تعلیمی نظاموں سے نکلنے والا بچہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے؟ یا پھر یہ مزید داخلی تضادات اور پیچیدگی کا باعث بنتا جارہا ہے؟
عباس حسین: یقیناًاس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں طبقاتی تعلیمی نظام ہے جو کہ ایک اچھی بات تصور نہیں کی جاتی۔ ہمارے قابلِ احترام دوست ڈاکٹرطارق رحمان نے اپنی کتاب میں تعلیمی نظام کے حوالے سے لکھا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کسی ملک کا ایسا نظام ہو جو ملک کے ایک طبقے کو اس ملک سے مکمل طور پر جدا کردے، یعنی ایک ایسا طبقہ جو اس ملک میں رہنے کو تیار نہ ہو۔ اور پھر ایک ایسا طبقہ جسے اپنی ہی زبان کے دو جملے بولنے نہ آئیں۔ اب ایسے میں ایک ایسا بچہ جو اپنے وطن کی چیزیں اپنی زبان میں نہیں جانتا اور وہ اپنی زبان کے اسلوب سے ناواقف ہے، وہ ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے کیسے کارآمد ہوسکتا ہے!
فرائیڈے اسپیشل: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچے جو اے اور او لیول پڑھتے ہیں وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اور ذہین ہوتے ہیں، یا پھر انھیں انگریزی آنے کی وجہ سے قابل اور ذہین سمجھا جاتا ہے؟
عباس حسین: میں ایسے لوگوں سے یہ سوال کرتا ہوں جو یہ رائے رکھتے ہیں کہ اے اور او لیول سے پڑھنے والا بچہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اور ذہین ہوتا ہے، کہ کیا جن لوگوں نے اے اور او لیول نہیں کیا،وہ اپنی زندگیوں میں ناکامیا ب رہے ہیں؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ انگریزی جاننا معیار، ذہانت اور علمیت کی پہچان ہرگز نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا ہماری قومی زبان اردو میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ پرائمری ہو یا سیکنڈری، یا پھر ہائیر ایجوکیشن۔۔۔ اردو زبان کو بطور ذریعۂ تعلیم رکھا جائے؟
عباس حسین: جی بالکل! میں یہ سمجھتا ہوں کہ پرائمری تعلیم بچے کی زبان میں ہی ہونی چاہیے خواہ اس کی مادری زبان چاہے کوئی بھی ہو۔ پرائمری سطح پر اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرلینے سے بچہ یہ جان لیتا ہے کہ میری تہذیب و ثقافت کیا ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ میرے گھر کی گفتگو۔۔۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سلطان باہو، بلھے شاہ۔۔۔ یہ سب میرے وطنِ عزیز کا حصہ ہیں۔ لہٰذا پھر بچے کو جس میڈیم میں بھی تعلیم دی جائے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ ہم اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اپناکر تعلیم کو کس طرح فروغ دیں گے! تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ احمق ہے۔ اور آپ کو ایک بات بتاتا چلوں کہ ا قوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق جس بچے کو اپنی زبان سے نابلد کردیا گیا پانچ برس کی عمر سے پہلے، وہ تاحیات خود کو کائنات میں اجنبی سمجھتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ریاست کو کس طرح جدید تعلیم کی مانگ کے پیش نظر مزید ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے؟
عباس حسین: ریاست ہر صورت میں جدید تعلیم کی ذمہ دار ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جو کام ریاست اکیلے کرسکتی ہے وہ کام ملک کے تمام فلاحی ادارے مل کر بھی انجام نہیں دے سکتے۔ لہٰذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کو اپنی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہونا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: پہلے ہم سرکاری اسکولوں کا رونا روتے تھے، اور اب نجی تعلیمی اداروں کی روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوشربا فیسیں ایک اہم مسئلے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو کیا اقدام اٹھانا چاہیے تاکہ تعلیمی اداروں میں جو خلاء پیدا ہورہا ہے اس کو قابو کیا جاسکے؟
عباس حسین: میں اس سوال کا جواب کچھ یوں دینا پسند کروں گا کہ وہ کام جو حکومت کی پہنچ میں ہے ہی نہیں، اور جو کام حکومت کرنے سے قاصر ہے وہ دعویٰ کرنے پر بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ حکومت کا کام تعلیم کا ماحول فراہم کرنا ہے جسں سے معیاری تعلیم دینا ممکن ہو، نہ کہ خود تعلیم دینا۔ اس کی مثال یوں لیتے ہیں کہ ایک نجی اسکول جس کی فیس آٹھ سو روپے فی بچہ ہے اور جہاں تعلیم کا معیار انتہائی شاندار بھی ہے، اور ایک وہ سرکاری اسکول جسے ورلڈ بینک کے مطابق تیرہ سو روپے فی بچہ دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود مفت تعلیم اور اسکول کی حالت ہماری حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری اس نجی اسکول کو ہزار روپے فی بچہ سونپ دے جو کم از کم 8 سو روپے میں شاندار معیار تعلیم تو فراہم کررہا ہے۔ نیشنلائزیشن سے قبل بھی تعلیمی نظام بہتر تھا۔ نیشنلائزیشن کے نتیجے میں مسائل پیدا ہوئے ہیں، اس لیے میں یہ سمجھتاہوں کہ نیشنلائزیشن کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ جہا ں تک نجی اسکولو ں کی فیسوں کا سوال ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ جو اسکول ماہانہ 22 ہزار روپے لے کر 10 ہزار والے درجے کی تعلیم دے رہے ہیں وہ سراسر ناانصافی کررہے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ اسکول لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ اس بات پر زور کیوں نہیں دیتے کہ حکومت ریاست کی آئینی ذمہ داری کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں کو درست اور ٹھیک کرے؟
عباس حسین: آپ کی بات درست ہے، لیکن کیونکہ حکومت پچیس برسوں میں ایسا کر نہیں کرسکی اس لیے وہ ہمارے مزید شور کرنے سے بھی نہیں کرپائے گی۔ وہ لوگوں کو اہل بنادے بات ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی کہ وہ نااہل ہے، اس کی ترجیحات میں اہلیت نہیں ہے۔ اس لیے ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں ایک بات اور کہہ دیتا ہوں، دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، نئی نسل استاد اور اس فرسودہ نظام تعلیم کو بائی پاس کرجائے گی، کیونکہ اس کے پاس انٹرنیٹ کی صورت میں اب تعلیم کا ذریعہ موجود ہے۔ لیکن افسوس کچھ بچے سیکھ جائیں گے جبکہ بہت سے رہ جائیں گے، کیونکہ نہ صرف ہر بچے کے پاس یہ وسائل نہیں بلکہ ہر ایک کے پاس وہ فرقان بھی نہیں کہ وہ انٹرنیٹ، جس میں بہت خرافات بھی ہیں، سے ڈھنگ کی چیز حاصل کرسکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں تعلیم کی پروا نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: عموماً نظام تعلیم میں اصلاحات صرف نصاب میں تبدیلی کو سمجھا جاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نصاب کی چند کتابیں تبدیل کرلینے سے تعلیمی نظام درست ہوسکتا ہے؟
عباس حسین: نصاب میں نیا پن نہ ہونے کی وجہ سے نظام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ حل شدہ پرچے تیار ہی اُس وقت ہوتے ہیں جب اس بات کا علم ہوتا ہے کہ پرچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ چند کتابیں تبدیل کرلینے سے تعلیمی نظام اگر بالکل درست نہیں ہوسکا تو کم از کم کچھ تو فرق پڑے گا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ روزانہ کی بنیاد پر اُس استاد کو سکھانے اور پڑھانے کا کام کرتے ہیں، بلکہ آپ کا کاروبار ہی یہ ہے۔ آپ ہمیں یہ بتایئے کہ ٹیچرز ٹریننگ کے دوران آپ اساتذہ کوکیا سکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک بہترین استاد بن سکیں؟
(باقی صفحہ 57)
عباس حسین: (ہنستے ہوئے) جی بھائی کاروبار ہی ہے۔ استاد انٹی لیکچوئل ہے۔ سوسائٹی کی سوچ بچار اور فکر اس کا کام ہے۔ تین باتیں جن کا خیال ایک اچھے استاد کو ہر وقت رکھنا چاہیے۔ اوّل یہ کہ استاد اپنے طالب علم کا خادم ہوتا ہے، یعنی استاد میں اپنے طالب علم کی جائز صلاحیتوں کو تلاش کرنے کی ہر وقت جستجو ہونی چاہیے، ان کی رغبتوں کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے طالب علم کو بھی اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرتا رہے۔ دوسرا یہ کہ استاد میں خود بھی علم حاصل کرنے کی لگن ہو تاکہ وہ اپنے طالب علم کو بہترین تعلیم فراہم کرسکے، لیکن ساتھ ہی اس کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ منبع علم نہیں ہے، اس کا کام صرف یہ ہے کہ بہترین علم یا علم کے منبع کی طرف نشاندہی کرے، کیونکہ وہ ہر چیز نہیں جان سکتا۔ کم از کم گوگل کی طرح تو نہیں جان سکتا۔ تیسرا یہ کہ وہ اپنے پیشے کی عزت کے لیے، اس کے حق کے لیے، اپنے ساتھیوں کے لیے آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اچھے برے لوگ ہر پیشے میں موجود ہوتے ہیں۔ اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ آج معاشرے میں اساتذہ کو اہم مقام حاصل نہیں ہے۔ لیکن ایک استاد میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ معاشرے میں جب بھی لوگ اساتذہ کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔ لہٰذا یہ تین اہم باتیں ہیں جو ہر استاد میں لازمی ہونی چاہئیں۔
فرائیڈے اسپیشل:آخر میں آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
عباس حسین: مولانا رومیؒ کہتے ہیں:
’’تم تانبے کو سونے میں تبدیل کرنے والے کیمیا گر پر حیرت کرتے ہو، لیکن میں ششدر ہوں روزانہ یہ دیکھ کر کہ سونا کس طرح مٹی میں تبدیل ہورہا ہے‘‘۔