محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی جو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں بھی جوابدہی کا شعور رکھتے ہیں، انہوں نے بلاگر کی بلاؤں کا نوٹس لے کر لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کی دعائیں لی ہیں۔ ان کے اس نوٹس نے حکمرانوں کو جو مسلمان بھی ہیں، خوابِ غفلت سے بیدار کرڈالا۔ مگر بات وہ نہ بنی جو حُبِّ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ مجھے تاریخ کا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ غیر مسلم ریاست کے حکمران کے دربار میں حکمران کے منہ چڑھے وزیر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ایک جملہ کہہ ڈالا۔ یہ بات اُس وقت کے مسلم حکمران کے کان تک پہنچی تو وہ تڑپ اٹھا اور اس نے قسم کھائی کہ وہ اس گستاخ کو اپنے ہاتھوں قتل کرے گا اور محبتِ رسولؐ کا ثبوت دے گا۔ مسلم حکمران نے اپنے دانا و بینا وزیر کو بلایا اورکہا کہ فلاں ریاست کے فلاں بدبخت کو زندہ میرے دربار میں لاؤ، یہ میرے ایمان کا امتحان اور زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس وزیر نے کہا کہ مجھے حیلہ کرنے کی اجازت دو، کچھ وقت لگے گا۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ وزیر نے اپنے ملک کی قیمتی سوغات لی اور مسلم بادشاہ کا سفیر بن کر اُس ریاست کے حکمران کی خدمت میں تحائف دیے اور اپنی ذہانت و فطانت سے اس گستاخِ رسول کا پتا چلا کر اس سے یاری گانٹھ لی اور واپسی کے موقع پر اس بدبخت سے پوچھا کہ اب اگر آؤں تو تیرے لیے کیا تحفہ لاؤں؟ اس نے ملکِ شام کے کسی کپڑے کی فرمائش کردی۔ واپسی کے بعد سفیر نے منصوبہ بنایا اور کشتیوں میں آزمودہ سپاہیوں کو ناخدا بنایا اور بذریعہ کشتی اسی غیرمسلم ریاست کے حکمران کے دربار میں قیمتی تحائف لے کر پہنچا تو بدبخت گستاخِ رسول نے اشاروں کنایوں میں اپنے تحفے کے بارے میں معلوم کیا، تو مسلم سفیر نے دربار برخاست ہونے کے بعد کا اشارہ دیا۔ دربار برخاست ہوا تو اس بدبخت گستاخِ رسول نے پوچھا کہ کہاں ہے میرا تحفہ؟ تو مسلم سفیر نے کہا کہ وہ کشتی پر موجود ہے، اس لیے نہیں دیا کہ بادشاہ ہتھیا نہ لے، چل میرے ساتھ، وہ تحفہ لے لے۔ اور بڑی بے تکلفی سے اس گستاخ کو اس کشتی تک اکیلا لے آیا اور تحفہ وصول کرنے کے لیے کشتی میں چڑھالیا۔ آزمودہ کار سپاہیوں نے پلک جھپکنے میں مشکیں کس ڈالیں اور کشتی اپنے ملک کی طرف دوڑا ڈالی۔ اور بالآخر اس بدبخت گستاخِ رسول کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا۔ بادشاہ نے دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس بدبخت کا سر اپنے ہاتھوں سے قلم کر ڈالا، اور یوں حُبِّ رسولؐ کا تقاضا پورا کرکے سرخروئی کا ساماں کیا۔ مسلمان تو کہتے ہیں ’’فدا ہوں مَیں اور میرے ماں باپ رسولؐ پر‘‘۔ مگر جب گستاخئ رسول کا معاملہ نام نہاد مسلمان کا ہو تو تعزیر میں تاخیر ایمانی کمزوری کی علامت نہیں تو اورکیا ہے؟ نظریاتی ریاست میں نظریے کے خلاف بات بغاوت سے بھی بڑھ کر جرم نہیں تو اور کیا ہے؟ بات ہے ایمانی حمیت کی۔ دنیا بھر کے مسلم حکمرانو! قیامت کے دن اللہ اور اس کے رسولؐ کو کیا جواب دو گے؟