محترم مشتاق احمد یوسفی’’انٹرنیشنل داد دہندہ‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:’’اس وقت جہانگیر خان کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے، اس لیے نہیں کہ بھلے وقتوں میں وہ بھی قبلہ، سود خواریاں کی آنکھ کا تارا تھے، اس لیے کہ جس محفلِ شعر و سخن میں وہ ہوں تو سامعین نہ شعر سنتے ہیں، نہ شاعر کو دیکھتے ہیں، بس اُن کے داد دینے کے انداز کو دیکھتے رہتے ہیں۔ مشاعروں میں داد دینے کے لیے اپنے خرچ پر لندن، دبئی، ابوظہبی وغیرہ جاتے ہیں اور اگلی صف میں وڈیو کیمرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کمزور مصرعے کی داد دیتے ہیں۔ ہم نے ان جیسا داد دہندہ نہیں دیکھا اور نہ اپنے جیسا نادہندہ‘‘۔
ہمارے ادبی ذوق رکھنے والے قارئین اور مشاعروں میں شرکت کرنے والے حاضرین جہانگیر خان سے بخوبی آشنا ہیں۔ آپ اپنے منفرد انداز اور اپنی خوش لباسی سے حاضرین کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ آپ ایک مزاحیہ شخصیت ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک سنجیدہ، بُردبار اور ذمہ دار شخصیت ہیں۔ 1954ء سے 1962ء تک اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستہ رہے، اور 1962ء سے جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ اپنے رہائشی علاقے سے بلدیاتی کونسلر بھی منتخب ہوئے۔ بی اے، ایل ایل بی کرنے کے بعد ایک بینک میں ملازمت کی، اور 36 سال بعد بحیثیت ’’اے وی پی‘‘ ریٹائر ہوئے۔ ملک کی معروف علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی شخصیات سے قریبی مراسم رہے، جن میں سید مودودی، میاں طفیل محمد، پیر صاحب پگارا، مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل، بابا ذہین شاہ تاجی، ماہر القادری، احمد ندیم قاسمی، دلاور فگار، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، پروفیسر سحر انصاری، محمود عالم صدیقی، یحییٰ بن زکریا صدیقی، جلیس سلاسل جیسے اکابرین شامل ہیں۔ راقم الحروف عبدالصمد تاجی جیسے بے ہنر کو بھی کلیجے سے لگانا آپ کا بڑا پن ہے۔
سنگاپور کی تاریخ کا پہلا مشاعرہ جو معروف مزاح گو شاعر انور مسعود کی صدارت میں منعقد ہوا، اس میں یہ قطعہ حاصلِ مشاعرہ ٹھیرا:
شعر سننے جو مشاہیر چلے آتے ہیں
اتنے خوش ہوتے ہیں خوشبیر چلے آتے ہیں
کوئی شاہانہ اگر بزمِ سخن سجتی ہے
داد دینے کو جہانگیر چلے آتے ہیں
آپ کی مشاعروں میں شرکت کا ریکارڈ کچھ یوں ہے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک پانچ ہزار سے زائد مشاعروں میں 35 لاکھ روپے خرچ کرکے شرکت کرچکے ہیں۔ محترم اعجاز رحمانی نے ایک تقریب میں جو جہانگیر خان کے اعزاز میں آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی، یہ منظوم اظہارِ خیال پیش کیا:
بزمِ شعر و ادب کی یہ تنویر ہے
یہ جہاں گیر ہے یہ جہاں گیر ہے
منفرد سب سے ہیں ان کی کیا بات ہے
جانِ محفل جہانگیر کی ذات ہے
ان کے دم سے منور جہانِ ادب
نیند اڑ جاتی ہے داد دیتے ہیں جب
پہلا مصرع ہی کافی ہے ان کے لیے
دوسرا تو اضافی ہے ان کے لیے
شاعروں کے یہ اعجازؔ محبوب ہیں
داد دینے کا گُر جانتے خوب ہیں
داد دینے کے اس گُر کے چھوٹے بڑے سب ہی معترف ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں: ’’کراچی کی حد تک جو خدمت آج کل جہانگیر خان فی سبیل اللہ اور تن تنہا انجام دے رہے ہیں، پہلے اس کے لیے شعرائے کرام کو خود تگ ودوکرنی پڑتی تھی، اس پر اچھا خاصا خرچہ آجاتا تھا۔ ہر شاعر اپنے ’’سخن فہموں‘‘ کا ایک دستہ ساتھ لے کر چلتا تھا، جو اس کے مصرعے کو درمیان سے اُچک کر مکرر مکرر کی گردان شروع کردیتے تھے۔‘‘
جہانگیر خان کی تن تنہا خدمت کا اعتراف ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے بھی کیا۔ آپ نے کہا: ’’ہمارے عہد میں جنہیں لوگ جان لیتے ہیں اُن میں جہانگیر خان کا بھی نام آتا ہے۔ یہ ان پر اللہ کا بڑا کرم ہے، ورنہ مقبولیت منصوبہ بندی سے نہیں ہوسکتی۔ یہ اسلامی شعار پر کاربند رہتے ہوئے خیرکے جذبے کے ساتھ مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب جمعیت الفلاح میں ہم روزانہ شام کو ملتے تھے، ادبی محفلیں سجتی تھیں۔ انہی دنوں کسی نے ان کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ اہلِ ذوق میں کس درجے پر فائز ہیں؟ اورکسی بزرگ نے جواب دیا تھا کہ یہ اہلِ ذوق نہیں اہلِ شوق میں سے ہیں، یہ میرے ہمدم دیرینہ ہیں۔‘‘ محمد حسین محنتی نے گواہی دی کہ یہ اللہ کے دین کی خدمت کرتے ہیں، اس کے بندوں کی خدمت کرتے ہیں، اور اہلِ فن کو داد دے کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آرٹس کونسل کراچی نے ان کے لیے تقریبِ پذیرائی منعقد کی، رضوان صدیقی نے خوب کہا: مشاعرے کے لیے تین عناصر لازمی ہیں۔۔۔ شعرا، سامعین اور داد۔ مشاعرہ داد دینے والوں سے ہی بنتا ہے اور اس میں سامعین ہی اہمیت رکھتے ہیں، اور ان سامعین میں جہانگیر خان بہت نمایاں ہیں۔
ایک سامع کا منایا جا رہا ہے جشن آج
شعر تو کہتے نہیں پر شاعرانہ ہے مزاج
(محمد علی گوہرؔ )
اور آپ کے مزاج کے بارے میں (ڈاکٹر) نثار احمد کہتے ہیں:
زندہ دلوں کے یار جہانگیر خان ہیں
ذی شان و ذی وقار جہانگیر خان ہیں
اہلِ ہنر میں ان کا بہت احترام ہے
اردو ادب کے دوستوں میں ان کا نام ہے
اور اپنی کہانی یوں سناتے ہیں:
’’ہمارا تکمیلِ پاکستان کا مشاعرہ تھا جس کے مہمانِ خصوصی امیر جماعت اسلامی سراج الحق تھے۔ جب صدرِ مشاعرہ پیرزادہ قاسم رضا صدیقی رخصت ہونا چاہتے تھے تو قائم مقام پروفیسر سحر انصاری کو بنایا۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں مہمانِ خصوصی کو رخصت ہونا تھا، اور سراج الحق صاحب نے جاتے ہوئے کہا کہ میں عوامی آدمی ہوں، عوام ہی میں سے انٹرنیشنل سامع جہانگیر خان کو مہمانِ خصوصی نامزد کرتا ہوں۔‘‘
’’اے اہلِ زمانہ قدر کرو، نایاب نہیں، کم یاب ہیں ہم‘‘
(شادؔ عظیم آبادی)