سکندر لودھی کے دورِ حکومت میں رکن الدینؒ نامی ایک خدا ترس بزرگ گزرے ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے رئیس اور مال دار شخص تھے۔ وہ اپنی نیک نفسی، تقویٰ، عبادت گزاری اور سخاوت و فیاضی کے سبب ہر دل عزیز تھے۔ خود بادشاہ ان کی بڑی قدر کرتا تھا۔
سلطان کی وفات کے بعد حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ آپ بہت مفلس و تنگ دست ہوگئے۔ آپ کی ساری دولت و ثروت ختم ہوگئی مگر فیاضی و دریا دلی پھر بھی نہ گئی۔ ان حالات میں بھی آپ جودوسخاوت سے کام لیتے رہتے۔ ایک بار آپ نے ڈھیروں کاغذات نکال کر انہیں چاک کرڈالا اور ملازم کو بلا کر کہا کہ ان کاغذات کو اتنا دھو ڈالو کہ ان کی تحریر باقی نہ رہے۔ ملازم کاغذات دھونے لگا۔ اسی دوران آپ کے ایک ملنے والے آگئے، انہوں نے کاغذات دھونے کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا:
’’مال داری کے زمانے میں مجھ سے بہت سے شرفاء نے روپیہ قرض لیا تھا۔ قرض دیتے وقت میرا ارادہ واپس لینے کا نہ تھا۔ لیکن ان لوگوں نے خوامخواہ دستاویزیں لکھ کر بھیج دیں۔ یہ وہی دستاویزات ہیں جنہیں میں نے اس اندیشے کی بنا پر چاک کرڈالا کہ کہیں تنگ دستی کے سبب رقم واپس لینے کا خیال نہ پیدا ہوجائے، یا میرے مرنے کے بعد میرے ورثاء قرض کی واپسی کا مطالبہ نہ کرنے لگیں۔‘‘
قرض کی یہ رقم کوئی معمولی نہ تھی۔ یہ رقم تقریباً دو تین لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی، مگر اس خدا رسیدہ بزرگ نے تنگ دستی کے باوجود قرض کی تمام دستاویزات کالعدم کرڈالیں اور اسے واپس لینے کا خیال دل میں پیدا نہ ہونے دیا۔
عمل
*ایک باعمل عالم ستّر ہزار عابدوں سے بہتر ہے۔ (امام محمد باقرؒ )
*اگر بہت سے لوگ کسی جگہ جمع ہوں اور ان سے پوچھا جائے کہ جس کو آج شام تک زندہ رہنے کی خبر ہو وہ کھڑا ہوجائے، تو کوئی شخص بھی کھڑا نہ ہوگا۔ اور اس پر تعجب یہ ہے کہ اگر سب کو پکار کر کہا جائے کہ جس کسی نے آئندہ سفر کا سامان تیار کیا ہوا ہے وہ کھڑا ہوجائے، تب بھی کوئی ایسا نہ نکلے گا جو کھڑا ہوسکے۔ (حضرت سفیان ثوریؒ )
*بہترین عمل وہ ہے جو کر اور کہہ گئے ہیں، جو کر نہیں گئے مت کرو، اور جو کہہ نہیں گے مت کہو۔ (حضرت ابن عطارؒ )
رطل گران
زندگی رطل گران ہے۔ جام ارغوانی سے زندگی کو نڈھال کر۔
اے شخص! رات کے آخری پہر میں راز ونیاز کی باتیں کر۔ جب چرواہا ریوڑ سمیت آدھی رات کو جاگتا ہے، جب پرندے صبح کو گھونسلوں سے درختوں پر آکر کلیلیں کرتے ہیں، تو اس وقت آنکھ کی راہ سے ذکرِ الٰہی کو دل میں اتار!
اے شخص! عشقِ حقیقی سے زبان میں گرمی اور شعلہ بیانی پیدا ہوتی ہے۔ چمن میں گل و نسرین ہے۔ یہی دنیا ہے۔ لیکن ایک ذاتِ الٰہی ہے جو دیدو دریافت سے بالا ہے۔ وہ خدا ہے۔ تفکروا فی صفات اللہ ولا تتفکروا فی ذات اللہ۔
اے شخص! صبح کو کوچ کرنا ہے۔ رات ہی سے تمام سازوسامان باندھ لے۔ راہِ معرفت مشکل ہے۔ بادِ سحرگاہی پھول کھلاتی ہے۔ مگر اس کی اجرت کوئی ادا نہیں کرتا۔
جس طرح شمع راہِ فنا میں آپ ہی اپنا زادِ راہ لے کر پگھلتی رہتی ہے۔ جوانی کے زمانے کو یاد کر جب بوالہوسی یا عشق و محبت زور پر تھا۔
اے شخص! زندگی آتش ناک ہے اور آنکھ اشک بار۔ دنیا کا طرب اور تعب دونوں ہیچ ہیں۔ اے شخص! دنیا کی دولت ہما کی طرح ہے، جس کو مل گئی، مل گئی۔ لیکن احدیت ذات عنقا ہے۔ اس کو حاصل کرنا جان جھوکوں میں ڈالنا ہے۔ اگر اللہ کی معرفت مل جائے تو یہ بخت کی سرسبزی اور خوش نصیبی ہے۔ آبِ گوہر کی موج میں جنبش و رفتار نہیں ہوتی۔
اے شخص! رطل گران حاصل کر۔ اور اللہ کی راہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا راستہ اختیار کر۔ یہی رطل گران ہے۔